ایک خط کافی نہیں ہے


ملک میں وزیر اعظم شہباز شریف کے نام امریکی صدر جو بائیڈن کے خط کا چرچا ہے جس میں انہوں نے منصب سنبھالنے پر شہباز شریف کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

امریکی صدر کا خط امریکی کانگرس میں پاکستانی انتخابات میں دھاندلی کے سوال پر ہونے والی سماعت اور بعض ارکان کی طرف سے نئی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی اپیلوں کے تناظر میں اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم کسی بھی سربراہ مملکت کا ایک خط ہی کافی نہیں ہے بلکہ باہمی تعلقات کے فروغ اور ان تعلقات کو مثبت انداز میں ڈھالنے کے لئے ایک نئے عزم کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

شہباز شریف نے مشکل حالات میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ اس بات کا فیصلہ تو وقت کرے گا کہ وہ اس چیلنج میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اور کہاں تک ملک کو معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں۔ تاہم معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو مضبوط سفارت کاری اور دنیا کے طاقت ور ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مثبت انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مجبوریوں اور پارٹی پر خاندانی اجارہ داری کی بنا پر اسحاق ڈار کو وزارت خارجہ کے منصب پر فائز کیا گیا ہے حالانکہ نہ تو انہیں اس کام کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی وہ سفارتی لحاظ سے دلکش اور متاثر کن شخصیت ہیں۔

اس کا ایک مظاہرہ حال ہی میں ان کے دورہ لندن کے دوران بھی دیکھنے میں آیا جب انہوں نے نجی دورہ کے دوران برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کی درخواست کی، لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا بلکہ صرف فون پر ہی اسحاق ڈار سے بات کرنا کافی سمجھا۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ عام طور سے ایسی ملاقات کا اہتمام کسی ملک میں آنے سے پہلے کیا جاتا ہے اور متعلقہ وزارت خارجہ کے ساتھ مواصلت میں اتفاق رائے کر لیا جاتا ہے۔ البتہ اسحاق ڈار کے معاملے میں ایسا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ یہ بظاہر ایک معمولی واقعہ ہے اور اس سے شاید ملکی سفارت کاری پر کوئی دیرپا اثر بھی مرتب نہ ہو لیکن اس قسم کے رویوں سے پاکستان کے پروفیشنل سفارتکاروں کو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے اور ملک کے نئے وزیر خارجہ کی سفارتی آداب سے نا شناسائی کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسحاق ڈار جیسی اوسط ذہانت کا شخص موجودہ بحران اور مشکلات میں دنیا میں پاکستان کی مناسب نمائندگی کے قابل نہیں ہے۔ ملک کو درپیش چیلنجز کی روشنی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے رہبر نواز شریف کو بھی اس معاملہ پر غور کرنا چاہیے اور اسحاق ڈار کو ’خوش‘ کرنے کے لیے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ ملکی خارجہ امور کی نگرانی کسی جاذب نظر اور متحرک شخص کے حوالے کی جائے جو دنیا بھر میں پاکستان کا مقدمہ ٹھوس انداز میں پیش کرسکے۔

امریکی صدر کا خط بھی ان چیلنجز کا احاطہ کرتا ہے جو اس وقت پاکستان اور دنیا کو درپیش ہیں۔ صدر جو بائیڈن نے اپنے خط میں نے پاکستان کی نومنتخب حکومت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرنے کے علاوہ اعتراف کیا ہے کہ ’دونوں ممالک کے عوام کے درمیان پائدار شراکت دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے نہایت اہم ہے۔ دنیا اور خطے کو در پیش اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گا‘ ۔ خط کے متن میں اگرچہ عمومی تعاون اور ماحولیاتی اندیشوں کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے اور امریکی صدر نے کہا ہے کہ ’امریکہ انسانی حقوق اور ترقی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ دونوں اقوام کے درمیان رشتے مستحکم رہیں گے‘ ۔ البتہ بے یقینی کی صورت حال میں پاکستانی وزیر اعظم کے نام اپنے پہلے خط میں صدر بائیڈن نے خاص طور سے عالمی سلامتی کا حوالہ دیا ہے۔ اس نکتہ کو اس وقت دنیا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔

حال ہی میں ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال میں داعش خراسانی کی طرف سے حملہ کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ متعدد یورپی ممالک میں ایسی ہی کوششوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں لیکن ان کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے روس کو بھی داعش کے حملہ کے بارے میں مطلع کیا تھا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جاری چپقلش کی روشنی میں روسی حکام اس اطلاع پر کوئی ٹھوس پیش بندی کرنے میں ناکام رہے۔

اب پاکستانی وزیر اعظم کے نام امریکی صدر کی طرف سے علاقائی اور عالمی سلامتی کو لاحق جن اندیشوں کا ذکر کیا گیا ہے، اسے اس علاقے سے داعش کے بڑھتے ہوئے خطرات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ داعش خراسانی افغانستان میں مضبوطی سے موجود ہے اور کابل میں طالبان حکومت کی دعوؤں کے باوجود ایسے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا جو افغان سرزمین کو دوسرے ممالک پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ داعش بھی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی مفادات کے خلاف سرگرم ہمہ قسم عسکری گروہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں حالانکہ تحریک طالبان، داعش یا بلوچ عسکری گروہوں کے مقاصد اور مفادات مختلف ہیں۔ البتہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچانے اور ان پر حملے کرنے میں یہ ایک دوسرے کے مددگار بن جاتے ہیں۔

پاکستان، افغانستان سے مسلسل تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے، پاکستانی سرحدوں کے ساتھ اس کی سرگرمیوں کی روک تھام اور اس کی قیادت کو پاکستانی حکام کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن طالبان حکومت نے اس سلسلہ میں تعاون سے انکار کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، اسے افغانستان پر الزام لگانے کی بجائے اس سے اپنے ملک کے اندر ہی نمٹنا چاہیے۔ لیکن دہشت گردوں کے ہتھکنڈوں اور گزشتہ دو دہائی کے دوران میں ان گروہوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ عناصر ایک دوسرے سے تعاون کے لئے سرحدوں کے محتاج نہیں ہوتے اور کسی ملک میں دہشت گردی کے لیے عام طور سے کسی دوسرے ملک میں موجود دہشت گردوں کے مراکز استعمال میں آتے ہیں۔ اسی ماہ کے دوران میں شمالی وزیرستان میں ایک فوجی پوسٹ پر ٹی ٹی پی کے حملہ میں 7 فوجی شہید ہو گئے تھے جس کے بعد پاکستانی ائر فورس نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستان پر حملہ میں ملوث کالعدم ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔

صدر بائیڈن کے خط، دنیا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور پاکستان کو درپیش حالات کو ملا کر دیکھا جائے تو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مسلسل عالمی تعاون اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر کے خط میں امریکہ اور دنیا کے عوام کی سلامتی کو درپیش جن اندیشوں کا اشارہ کیا گیا ہے، پاکستان کو اسے اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے اور ایسے جنگجو عناصر کے قلع قمع کے لیے عالمی تعاون حاصل کرنا چاہیے۔ منگل کے روز داسو ڈیم جانے والی گاڑیوں پر حملہ کر کے دہشت گردوں نے پانچ چینی انجینئرز کو ہلاک کیا تھا۔ اس حملہ کے بعد اس ڈیم پر کام بند ہو گیا ہے۔ اس ایک واقعہ سے ہی ملکی معیشت کے لیے سکیورٹی اور عالمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ چینی انجینئرز کے خلاف حملے کے بعد پاکستان اور چین مل کر تحقیقات کر رہے ہیں۔ البتہ دہشت گردی کے وسیع نیٹ ورک سے مقابلے کے لیے پاکستان کو علاقائی تعاون کے علاوہ امریکہ کے ساتھ مل کر عالمی کوششوں میں سرگرمی سے حصہ لینا چاہیے۔ اس سے ایک طرف پاکستان سفارتی تنہائی سے نکل سکے گا تو دوسری طرف دہشت گردوں کے خلاف مقامی سطح پر ہونے والی کارروائیوں کے لئے عالمی امداد حاصل کی جا سکے گی۔

امریکی صدر کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعاون و دوستی کے پیغام کو محض امریکہ میں موجودہ حکومت کے خلاف سرگرم لابیوں کی ’ناکامی‘ سمجھ کر ہی خوش ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس پیغام کو دونوں ملکوں کے درمیان ایسا پائیدار تعلق استوار کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے جس کے ذریعے پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری لا سکے۔ دہشت گردی کے بارے میں بہتر مواصلت سے پاکستان، طالبان حکومت کے ساتھ لین دین میں عالمی ہمدردی حاصل کر سکتا ہے لیکن ایران اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بھی امریکی تعاون بنیادی اہمیت کا ہو سکتا ہے۔

امریکی مخالفت کی وجہ سے پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ تعطل کا شکار ہے حالانکہ اس گیس کے حصول سے پاکستان میں انرجی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کو وسیع تر تصویر میں امریکی مفادات کی نشاندہی کر کے اس منصوبہ کے لیے امریکی تعاون حاصل کرنے کے لیے سرگرمی سے کوشش کرنا چاہیے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل ہونے سے پاکستان کو ایرانی گیس مناسب نرخوں پر حاصل ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان معاشی مفادات بڑھنے سے اس سرحد پر متحرک انتہاپسند گروہوں کو بھی کنٹرول کیا جا سکے گا۔ کسی بھی عسکری گروہ کے خلاف صف بندی امریکہ اور دنیا بھر کے مفاد میں ہے۔

وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اگرچہ بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے کا اشارہ دیا ہے لیکن حکومت کی طرف سے ابھی تک اسے پالیسی کے طور پر اختیار نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا اور تجارت شروع کرنا معاشی احیا کے منصوبوں میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں یک طرفہ فیصلوں کے ذریعے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پاکستانی حکومتوں نے بھی رائے عامہ کے نقطہ نظر سے سیاسی بیان بازی کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب کیے ہیں۔ اگست 2019 میں بھارتی حکومت کی تبدیل شدہ کشمیر حکمت عملی کے بعد پاکستان نے کسی بھی قسم کی تجارت یا مذاکرات سے انکار کیا تھا۔ اس پالیسی سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب وسیع تر قومی مفاد میں اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکہ اور بھارت کے درمیان وسیع تر اسٹریٹیجک اور معاشی تعلقات کی بنیاد پر امریکی حکومت، پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستانی حکومت کو ان امکانات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ اسلام آباد بھارت اور کشمیر کے حوالے جذباتی اور رائے عامہ کے لیے قابل قبول پالیسیاں بنانے کی بجائے بین الملکی تعلقات میں وسیع تر قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر فیصلوں کا آغاز کرے۔ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے عوام کو اونچ نیچ سے آگاہ کرنا اور ان کی رہنمائی حکومت وقت اور سیاسی جماعتوں کا کام ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2778 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments