کیا مثبت بات کریں


سچ پوچھیں تو ہر وقت تنقید کرنا اچھا نہیں لگتا۔ دل چاہتا ہے کسی کالم میں حکومت کے تعمیری کام اور مثبت کارکردگی کا بھی ذکر کیا جائے۔ لیکن جب ملک میں ہر طرف بے چینی عروج پر ہو جس شخص سے بات کریں وہ مہنگائی، بیروزگاری اور عدم مساوات کا رونا روئے تو کہاں سے حکومت وقت کی تعریف کا پہلو دریافت کریں؟ جب ہر طرف غربت مہنگائی اور بیروزگاری نظر آئے اور اس کے اسباب بھی واضح ہوں تو نشاندہی کے بجائے چین و عافیت کے قصے کہاں سے ڈھونڈیں؟

چلیں جتنی ذہنی صلاحیت ہے اس کی نسبت یہ بڑے مسائل ہیں لیکن جب انتظامی قابلیت کا یہ عالم ہو کہ روزمرہ استعمال میں اشیاء کی طلب اور رسد کا درست تخمینہ لگانے میں بھی حکومت ناکام ثابت ہو تو پھر اس کو نالائقی کا نام نہ دیں تو کیا کہا جائے؟ قارئین کو یاد ہو گا چند سال قبل چینی اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ جاری ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق وفاقی شوگر ایڈوائزری بورڈ نے یہ کہہ کر کہ شوگر ملز کے پاس چینی کا وافر اسٹاک موجود ہے، چینی ایکسپورٹ کرنے کی سفارش کی۔

اس بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں ای سی سی نے نہ صرف گیارہ لاکھ ٹن چینی برآمد کی منظوری دی بلکہ صوبوں کو اختیار دیا کہ وہ شوگر ملوں کو تین ارب روپے تک کی سبسڈی دے سکتے ہیں۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ نے ان فیصلوں کی توثیق کی اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور ان کی صوبائی کابینہ کی منظوری سے سبسڈی مل مالکان کو دی گئی۔ جونہی مگر برآمد شروع ہوئی ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو گئی اور اس کے نرخ دگنے ہو گئے۔

بعد ازاں اپنی چینی اونے پونے باہر بھیجنے اور ملز مالکان کو سبسڈی ادا کرنے کے بعد ڈالرز میں ادائیگیاں کر کے مہنگے داموں چینی واپس امپورٹ کی گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف اس نالائقی یا داؤ لگانے کی سوچی سمجھی کوشش میں قوم کا ڈھائی سو ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ اسی دورانیے میں یہی سب کچھ گندم کے معاملے میں ہوا۔ گندم کی فصل جب اتری تو زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا کہ ملک میں گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے۔

کچھ مہینوں بعد ہی مگر اچانک وہ گندم پتا نہیں کہاں غائب ہو گئی یا پھر دانستہ باہر اسمگل کرنے کی اجازت دے دی گئی جس کے سبب آٹے کا بحران پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ہنگامی طور پر عالمی منڈی سے بھاری زرمبادلہ خرچ کر کے گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت جب ہم نے پی ٹی آئی کے ”ٹھنڈا دماغ“ رکھنے والی شہرت کے حامل وزیر سے یہ سوال کیا کہ جب اپنی گندم کی پیداوار وافر ہوئی تھی تو پھر قلت کیسے پیدا ہو گئی تو ان کی پیشانی پر ایسا بل پڑا کہ دوبارہ انہوں نے کبھی درویش کا فون سننا گوارا نہیں کیا۔

اسی سے ملتا جلتا کھانچا اب کی بار نگران حکومت کے دور میں لگایا ہے۔ عین اس وقت جب ملک میں نئی گندم اترنے میں صرف ایک ڈیڑھ ماہ کا وقت باقی تھا عجلت میں باہر سے گندم کی امپورٹ کا فیصلہ کر لیا گیا۔ حالانکہ اس وقت بھی ملک میں گندم کا وافر مقدار میں ذخیرہ موجود تھا۔ سننے میں آ رہا ہے کہ یہ پھرتیاں نگران حکومت سے تعلق رکھنے والے چار پانچ اہم لوگوں نے جاتے جاتے دیہاڑی لگانے کے لیے دکھائی تھیں۔ بتایا جا رہا ہے اس ضمن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سو ارب روپے کی خرد برد کی گئی ہے۔

سمجھ سے باہر ہے کہ قیمتی زرمبادلہ خرچ کر کے مہنگے داموں گندم منگوانے کی منظوری کابینہ سے دلوا کر فی الفور ٹینڈر جاری کر دیے جاتے ہیں مگر وطن عزیز کے کاشتکار کی پیدا کردہ گندم کی امدادی کیوں نہیں بڑھائی جاتی؟ اتنی سی بات اگر فیصلہ سازوں کو سمجھ نہیں آتی کہ اپنے کسان کو گندم کی مناسب قیمت دینے سے نہ صرف امپورٹ کی مد ضائع ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بچے گا بلکہ کسان وافر مقدار میں گندم پیدا کرنے کی کوشش کرے گا جس کو ماضی کی طرح ایکسپورٹ کر کے ملک میں پیسہ بھی لایا جا سکتا ہے۔ تو اس کے پیچھے بد نیتی اور ذاتی مفادات کو مجموعی قومی مفادات پر مقدم رکھنے کے سوا کیا مقصد کار فرما ہو سکتا ہے؟

اگرچہ اس بار گندم کا سرکاری ریٹ سندھ میں چار ہزار روپے، اور پنجاب میں انتالیس سو روپے فی من ہے، مگر مارکیٹ میں کاشتکار کی گندم اب تین ہزار روپے فی من سے اوپر خریدنے کو بھی کوئی تیار نہیں ہو رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک ستر فیصد گندم کی کٹائی مکمل نہیں ہوئی گندم کی سرکاری خریداری اور باردانے کی تقسیم دانستہ شروع نہیں کی گئی۔ ہمارے اکثر کاشتکار قرض لے کر فصل تیار کرتے ہیں اور یہ امید لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ فصل اترنے پر بچوں کی شادیاں اور علاج معالجہ کرائیں گے۔

لہذا فصل اترنے کے بعد کاشتکار کو جلد از جلد نہ صرف پچھلی فصل کا قرض چکانا ہونا ہے بلکہ اگلی کاشت کے لیے زمین بھی خالی کرنا ہوتی ہے۔ اس مجبوری کا فائدہ اٹھا کر آڑھتی اور ذخیرہ اندوز کاشتکار کی محنت اونے پونے داموں خرید لیتے ہیں اور بعد ازاں یہی گندم چند دن بعد رشوت کے عوض سرکاری باردانہ حاصل کر کے فی من ہزار سے بارہ سو روپے منافع اور مٹی اور کچرے کی ملاوٹ کے بعد وزن دوگنا کر کے سرکار کو فروخت کی جاتی ہے۔

سرکاری باردانے کا حصول بھاری رشوت کے سوا غریب کاشتکار کے لیے نا ممکنات میں شامل ہے اور کاشتکار اس کے آسرے پر اپنی گندم ذخیرہ کر کے نہیں رکھ سکتا۔ یہ عاجز خود گزشتہ ایک ہفتے سے مختلف سرکاری دفاتر کے چکر کاٹنے اور ملک کی اہم خفیہ ایجنسی میں ایک بڑی پوسٹ پر بیٹھے دوست افسر کی کاوش کے بعد سرکاری باردانے کے حصول میں کامیاب ہوا تھا تو اندازہ لگائیے بے وسیلہ لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہو گا۔ اس دفع گندم کی فصل پر فی ایکڑ جو لاگت آتی کاشتکار چھ ماہ کی محنت کے بعد اس کا خرچ بھی نہیں نکال سکا۔ ملک کی چالیس فیصد آبادی کا روزگار کسی نہ کسی طرح زراعت سے حاصل ہوئی آمدن سے منسلک ہے۔ اتنی بڑی آبادی اگر پریشانی اور ذہنی اذیت میں مبتلا ہے تو ان حالات میں کیا امید افزاء بات کی جا سکتی ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments