خادم اعلی کا سیاسی پکوان


مسلم لیگ (ن) کی اسٹبلشمنٹ اور خصوصا عدلیہ کے ساتھ رواں دواں تناؤ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی اور 2018 کے انتخابات کے لئے اپنے آپ کو توانا رکھنے کے لئے ایک بھرپور حکمت عملی نظر آتی ہے۔ تنا‎ؤ کے اس پڑا‎ؤ میں غازی بننے کی شرف یابی حاصل کرنے کا کاروبار کامیابی سے جاری وساری ہے۔ یہ شرف حاصل کرنے اور سب سے بڑے غازی مرد میدان بننے میں وڈے میاں صاحب کا پہلا نمبر ہے۔ پنجہ آزمائی اور پنگا لینے کی سیاست کار پرخار میں جناب کا کوئی ثانی نہیں۔ جس کا عملی مظاہرہ آپ جناب کا کمانڈو جرنیل کے ساتھ بخوبی دیکھ چکے ہیں۔ اور اس بار تو وڈی وزارت سے نا اہل ہونے پر جناب کو بس نہیں۔ بلکہ خوشی خوشی اڈیالہ جیل کے لئے رخت سفر باندھنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔

میری چھٹی حس یہ پیشنگوئی دینے سے باز نہیں آ رہی کہ وڈے میاں صاحب کے عرب دوست میاں صاحب کو یوں سراہنے میں اپنے لئے اعزاز سمجھیں گے، کہ ”واللہ ہم نے ایسا عجمی غازی مرد میدان سلطان کبھی نہیں دیکھا“۔ پنجہ آزمائی اور پنگا لینے کے اس بھنور کھیل ناتواں توانا میں پرویز رشید، نہال ہاشمی، دانیال عزیز اور طلال چوہدری بھی دائرے سے نکل کر گھر کی سیر کر چکے ہیں۔ حال ہی میں خواجہ آصف بھی وزارت کھو کے متاثرین کی صفوں میں غازی مرد میدان کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔ دریں اثناء ان کی جگہ لینے والے احسن اقبال کے سر کے اوپر صرف چند دنوں کے اندر اس لٹکتی تلوار کی نوک ظاہر ہو ئی ہے۔

تنا‎ؤ کو طول کیوں دیا جا رہا ہے؟ غالبا اس لئے کہ حکومت کے حصول کے لئے پورے ملک اور خصوصا پنجاب سے ہمدردی کے لوازمات سے ایک مصالحہ دار بریانی کی دیگ تیار ہو سکے اور ”ہمدرد بریانی“ کی اس دیگ سے عین انتخابات کے موقع پر حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہو ئے عوام و خواص اور بکر و زید کو سیر ہو نے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔ پھر لجاجت بھرے انداز میں ایک بے ضرر اور بغیر خرچے والا مدعا درخواست کی شکل میں پیش کیا جا سکے کہ آپ کا عظیم تعاون آپ کے قیمتی ووٹ کی صورت میں درکار ہے۔ جو نہ صرف ہمارے، بلکہ ہمارے اگلی نسلوں کی حکمرانی کے خواب کی تعبیر بھی سچ ثابت کر دے گا۔

واضح رہے، کہ عین انتخابات کے دنوں میں ہر کس ناکس عظیم بن جاتا ہے۔ اور عظمت کا یہ تاج انتخابات کی شام نتائج نکلنے تک سر پر براجمان رہتا ہے۔ پھر یہ سر سے یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بہرحال اس راز کو آج تک ہم سمجھ نہ پائے کہ ایسا آخر کیوں ہے؟ آپ لوگوں میں سے یقینا چند دانائے روزگار اسے بے پر کی اڑائی سمجھیں گے۔ اور میری سادہ لوحی پر بغلیں بجانے سے باز نہیں آئیں گے۔ لیکن میں بقا‏ئمی ہوش و حواس یہ تحریر قرطاس کی نظر کر رہا ہوں۔ تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کہ آپ لوگوں کو میری دوراندیشی اور عقل سلیم کا اندازہ اس وقت ہو جائے گا۔ جب انتخابات کی تیاری اور وڈے وزیر بننے کے چکر میں خادم اعلی ملک کے گوشے گوشے کو جو‎ش خطابت میں مائک گرانے کا اعزاز بخشیں گے۔ اور نت نئے پکوانوں کے سیاسی خیرات سے عوام الناس کو سیر ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔

یہ خسارے بجٹ والی بریانی
کہ چکن پیسز پیارے کم ہیں
میرا ووٹ میری مرضی
یہاں پہ وارے نیارے کم ہیں

دوسری جانب ہر دلعزیز مولانا فضل الرحمان کے اردگرد شمع فروزاں کی مانند حق کے پروانے ایسے جمع ہو رہے ہیں۔ کہ سبحان اللہ ۔ ان کے مرید اور عقیدت مند ان کے لئے بڑی ”ح“ والی حلوے کی دیگ تیار کر رہے ہیں۔ مولانا نصرالدین سے کسی نے پوچھا، مولانا صاحب، حلوہ کون سی ”ح“ سے لکھا جاتا ہے۔ فرمایا زیادہ میٹھا ہو تو ”ح“ سے نہیں تو ”ہ“ سے۔ چونکہ مولوی حضرات دیتے کم اور لیتے زیادہ ہیں۔ اس لئے وہ حلو ے کی دیگ ووٹر کو نوش کرانے کی بجائے ان سے لینے میں چند نالائق ووٹرز کی دنیا و آخرت سنورنے کا وسیلہ دیکھتے ہیں۔

آپ یقینا مولانا حضرات کی شان میں اس گستاخی پر مجھے ناہنجار، نالائق اور اس قبیل کے دوسرے دہشت گردانہ قسم کے القابات سے نوازنے کا شرف بخشیں گے۔ لیکن میں آپ لوگوں کو حلفیہ بتا ‎دوں، کہ اس فلسفے پر خود بعض مولانا حضرات نازاں، عمل پیرا بلکہ اسے اپنا کاپی رائٹ سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں علاقے کا ایک واقعہ گوش گذار کر دوں۔ جس کے راوی بنفس نفیس مولانا حضرات خود ہیں۔

ہوا یوں کہ ا یک دفعہ ایک مولانا صاحب کنویں میں گر جاتے ہیں۔ لوگ مولانا صاحب کو باہر نکالنے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ ”مولانا صاحب ہاتھ دے دے“۔ لیکن لاکھ جتن کے باوجود مولانا صاحب کے ہاتھ پکڑنے کے شرف یابی سے محروم ہجوم سکتے جیسی حالت میں ہے۔ کہ اسی اثناء غالبا مولانا دوپیازہ، شیخ سعدی یا مولانا نصرالدین کے قبیل کا کوئی دانائے روزگار وارد ہوتا ہے۔ ہجوم سے پوچھ گچھ کے بعد عیاں ہوتا ہے کہ مولانا موصوف ہاتھ دینے سے انکاری ہے۔ ہجوم کو ملامت کہنے کے بعد ہنستے ہوئے گویاں ہوتے ہیں۔ ”مولانا صاحب ہاتھ لے لیں“۔ ہجوم پہ حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں، جب مولانا صاحب یہ سنتے ہی جھٹ سے ہاتھ آگے کر دیتے ہیں۔ تو یہاں کی خیرات سے بھی خادم اعلی کو مستفید ہو نے کا پو را پورا حق حاصل ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی بناء پر کبھی ان پتنگان دین کے ساتھ حق کی راہ پانے کے لئے زانو تلمذ ہو۔
حلوے میں بادام کا پیارا سا سواد
نعمتیں رب کی ان گنت ہیں واللہ

تیسری دیگ چند قوم پرستوں کی جانب سے رنگا رنگ زردے کی تیار ہو رہی ہے۔ جو اتنی ‎شیریں ترکیب کی حامل ہے۔ کہ خادم اعلی منہ میں پانی آنے کی وجہ سے تخت لاہور بھول کے سیدھے پشاور اور کراچی جا پہنچے۔ اس میں بلوچستان کے بوستان ، خصوصا نخلستان کے تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات کا حسب ذائقہ فلیور کے طور پر ملاپ ہو سکتا ہے۔ مزید برآں عین مبینہ کامیابی کے بعد خادم اعلی کو وڈی کرسی کی مبارک باد دینے کے لئے ایک اور صوبے کی جماعت جو نام سے تو نہیں لیکن عمل سے یقینا قوم پرست ہی ہے، ( خیر عمل کے اعتبار سے پاکستان کی زیادہ تر پارٹیاں قوم پرست ہی ہیں) زردے کی اس دیگ پہ یقینا سجاوٹی سامان کا عطیہ لگائے گی۔ تو خادم اعلی کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہونے کے مصداق وارے نیارے اور موجاں ہی موجاں ہے۔

یہ دیکھ کے ہمارا دل ناتواں حسد اور بیچارگی کی وجہ سے خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کہ ہم نے نواب اسلم رئیساںی کے ”وزارت پہ چانس مارنے ” کے فلسفے اور تھوڑی سی مبالغہ آرائی کے ساتھ کوئی ساٹھ ، پینسٹھ وزراء کی کابینہ سے مستفید ہونے کا سنہری موقع ضائع کر دیا ۔ پر اللہ بھلا کرے وزیر اعلی قدوس بزنجو کا کہ ان کی پانچ سو ووٹوں کے ساتھ وزیراعلی کی کرسی تک ہوشربا ترقی سے ایک بار پھر ہماری خیالی پلا‎ؤ والی وزیری کا مستقبل درخشاں نظر آتا ہے۔ چونکہ ہم فقیر لوگوں کے پاس بریانی ، حلوے اور زردے کی دیگ تیار کرنے کے لوازمات نہیں ہوتے اس لئے ہم خیالی ”پلا‎ؤ“ کی دیگ تیار کرنے میں شبانہ روز لگے رہتے ہیں۔

تو زردے کی شیرینی گھول کے پی
مجھے خیالی پلا‏ؤ پکانے چھوڑ سہی
تو میرا نہیں بنتا نہ بن بے شک
اپنے ضمیر کو تو جنجھوڑ سہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).