امی کے برتن اور ہمارا دل


میرے بچپن کی یادوں میں پلاسٹک کا ایک مگ ہے جو امی نے لے کر دیا تھا، براوئن رنگ کا۔ جو میں نے کہیں گم کر دیا تھا۔ تب میں چار یا پانچ برس کی تھی۔ پھر کبھی پلاسٹک کا مگ نہیں آیا، ہاں چینی، پتھر کے مگ تھے، اور برتن تھے پلاسٹک کے پر مگ نہیں۔ اور جب امی کے جہیز کا وہ پلاسٹک کا سیٹ خراب ہو کر ٹوٹ کر ختم ہو گیا تب امی نے سب برتن بھی شیشے، چینی اور پتھر کے استمعال کرنا شروع کر دیے جو اُنکے جہیز کے تھے یا کبھی کچھ نیا لیا تو شیشے، چینی اور پتھر کا ہی لیا۔ بچپن کی یادوں میں وہ مگ اور پلاسٹک کا ایک ڈنر سیٹ ہی رہا۔ سب حیران ہوتے تھے آپ کے بچے چھوٹے ہیں پھر بھی یہ برتن کانچ کے۔ امی کہا کرتی تھیں، توڑتے تو نہیں، ہاں کبھی ٹوٹ جاَئے تو کوئی بات نہیں، چیزیں ٹوٹ جائیں تو نئی بھی آجاتی ہیں۔

لوگ آج بھی حیران ہوتے ہیں، وقت گزر گیا پر روایات نہیں بدلی۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں چند گھرنوں کے علاوا، کہیں بھی اپنے گھر جیسا نہیں دیکھا برتنوں کا استعمال۔ اس سب میں ہر طبقے کے لوگ آتے ہیں منسٹر، زمیندار سے لے کر ایک مڈل کلاس گھرانے تک، چینی، شیشے، پتھر کے برتن الماریوں میں بند، صرف کسی مہمان کی تواضع کے لیے باہر آتے ہیں کچھ وقت کے لیے، اور پھر واپس الماریوں میں بند۔ اکثر گھروں میں مہمان کی کلاس کے مطابق پلاسٹک سے ہی کام چلالیا جاتا ہے۔

جن گھروں کی روایات میں روز مرہ کے استمعال والی اشیاء میں ایسا امتیاز ہو، وہاں پرورش پانے والوں کی شخصیت میں پتھروں، جیسے خاصیت آنا عام سی بات ہے۔ بچے سمجھ لیتے ہیں، انسانوں سے زیادہ شیشے، چینی اور پتھر اہمیت رکھتے ہیں، شیشے، چینی اور پتھر نازک، مزاج ہوتے ہیں۔

جب انسانوں کی اہمیت نہیں تو انسانوں سے جڑے جذبات کس اہمیت کے حامل۔ دل میں کیونکہ جذبات ہوتی ہیں، اور دل کا استعمال ہمیں سکھایا جاتا نہیں، بالکل نازک برتنوں کی طرح تو ہم دل کو بھی شیشے، چینی اور پتھر جیسا سمجھ لیتے ہیں۔ اور شیشے، چینی اور پتھر تو ٹوٹ جاتے ہیں اکثر ان جیسے دل بھی۔ سکول، کالج، یونیورسٹی اور پھر آج تک اپنے ارد گرد بہت سے ٹوٹے دل والوں سے ملاقات ہوئی، یوں کہنا ٰغلط نا ہو گا کہ ہر دوسرا ٹوٹا ہوا دل لیے پھر رہا ہے۔ آپ کسی کی فیس بک پرفائل، کھول لیں، ٹوٹے دل کے تذکرے بھرے میلیں گے۔ اور ایسے ایسے اقوال، کہ پڑھ کر لگے کہ ابھی مر جانا چاہیے غم سے۔ کبھی غلطی سے اگر پوچھ لیں تو جواب آتا ہے۔ تمہیں کیا معلوم دل ٹوٹنا کیا ہوتا ہے کبھی ٹوٹے تو پتہ چلے گا۔

بالکل مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا دل ٹوٹنا کیا ہوتا ہے، کیوں کہ میڈکل رپورٹ کے مطابق میرا دل گوشت کا بنا ہوا ہے، جس میں خون کی رگیں ہیں۔ شیشے، چینی اور پتھر کا ہوتا تو معلوم ہوتا، کیسے ٹوٹتا ہے۔ چونکہ بچپن سے ہی شیشے، چینی اور پتھر کو نازک سمجھ کر الماریوں میں بند دیکھا ہے تو بس ہمیں بھی لگنے لگ گیا ہے کہ ہمارے سینے میں بھی کچھ ایسا ہی نازک مزاج پتھر ہے۔ ذرا کوئی ٹھیس لگی تو ٹوٹ گیا، بالکل ویسے ہی جیسے کہتے ہیں لڑکی کی عزت کانچ کی طرح ہوتی ہے، کانچ کو ٹھیس لگی اور پھر بدنما ہوگیا کانچ۔

اگر عزت گئی تو واپس نہیں آتی۔ دل ٹوٹ جائے تو نہیں جڑتا۔ دل اور عزت، شیشے، چینی اور پتھر نہیں ہوتے۔ اور ہم انسان اتنے نازک بھی نہیں ہوتے۔ میڈکلی تو مرنے کے بعد بھی دل 30 منٹ تک نارمل حالت میں قابل استعمال ہوتا ہے۔ اور اگر اسے کم ٹمپریچر میں رکھا جائے تو 6 گھنٹوں تک استعمال ہو سکتا ہے۔ ایسا دل نازک نہیں ہوتا۔ پر ہمیں شور کی عادت ہوتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے کسی شیشے، چینی اور پتھر کے برتن کے غلطی سے ٹوٹ جانے پہ امی کی آواز گونجا کرتی تھی/ ہے گھروں میں (اور توڑو مفت کا مال ہے ) ۔ ہاتھ کام نہیں کرتے کیا، دھیان کہاں ہے وغیرہ۔

کاش یہ نا ہوتا، تو زندگی کمال ہوتی، کاش وہ مل جاتا/جاتی تو ہم اتنے غمگین نہ ہوتے، کاش میری زندگی میں یہ محرومی نا ہوتی، کاش ہم ایسے ہوتے۔ کاش یہ، کاش وہ۔ بس پھر سب ٹھیک ہوتا۔ دل کو سکون ہوتا، دل نا ٹوٹتا۔

ایک بات زندگی میں جو نہیں ملا، چاہے وہ، کوئی محبت تھی، رشتہ تھا، یا چیز تھی۔ اُسے ہونا ہی نہیں تھا، اُس کا وقت مقرر تھا آپ کی زندگی میں آنے اور جانے کا، پھر اُس محبت، رشتہ یا چیز کو وقت نے آپ سے جدا کیا، موت نے، حالات نے یا پھر کسی اور وجہ نے اُسے آپ سے الگ ہونا ہی تھا۔ آپ کو لگتا ہے نا کہ محبت، رشتہ یا چیز کا نا ہونا محرومی ہے، وہ نہ جاتے تو آپ محروم بھی نا ہوتے، تو جان لیں وہ محرومی جس کا غم آپ کو خوش نہیں ہونے دیتا تو، وہ ہوتے تو آپ کو کسی اور بات، محرومی کا غم لے بیٹھتا۔ کیونکہ دل پتھر کا ہو تو ذرا ذرا سے غم لے ڈوبتے ہیں، جبکہ گوشت کے دل میں چار سوئیاں مار دیں، سوئی نکالتے ہی گوشت اپنی پرانی حالت میں آجائے گا، ہاں زخم ہو جائے گا، پر زخم بھر جایا کرتے ہیں، خون نکلا تو بھی کیا، کبھی کبھی اندر کی کثافت نکالنے کے لیے تو لوگ اکوپینچر سے علاج تک کرواتے ہیں۔

پتھر کی طرح تو نہیں ذرا سی ٹھونک لگی تو سوراخ بن جاے، یا ریزہ ریزہ ہو جائے برتنوں کی طرح۔

جو ہمارے پاس نہیں ہے وہ ہمارا نہیں تھا، (رشتہ، محبت، چیز) ۔ جب پرانی محرومی کو گلے لگا کر بیٹھیں گے تو کچھ نیا نہیں ہوگا، نیا آیا تو بھی پرانا غم اُسے محسوس نہیں کرنے دے گا۔ بس اندر ہی اندر آپ کو خوار کرے گا، مارے گا۔ بالکل امی کے برتنوں کی طرح جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹوٹ کر کم ہو بھی جائیں پر باہر نہیں آتے الماریوں میں ہی رہتے ہیں، دل اگر ٹوٹیں گے تو غم بھی ٹوٹ کر بکھریں گے، اور بکھرے کانچ ہوں یا بکھرے دل، دوسروں کو تو چبھا ہی کرتے ہیں، خود بھی راہ کی دھول ہو جاتے ہیں۔ جنہیں ہر ٹھوکر مزید بکھیر جاتی ہے۔ بکھرے برتن میں کچھ نہیں ڈالا جاتا، ویسے ہی بکھرے دل میں کچھ نہیں سماتا سوائے محرومی کے۔ دل گوشت کا ہو تو وقت ہر محرومی کا ازالا کر دیتا ہے۔ پر یاد رکھیں، دل کو گوشت کا بنائیں، پتھر کا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).