دہائی اور رہائی


دنیا کے مہذب معاشروں کے سیاستدان تعمیر ریاست کے لئے سیاست کرتے اوراپنے ہم وطنوں کے لئے نجات دہندہ بن جاتے ہیں مگرہمارے ہاں سیاستدانوں کے روپ میں سرمایہ دار طبقہ ریاست کے ساتھ سیاست جبکہ قومی وقاراور مفادکوبلڈوز کرتاہے۔ بدقسمتی سے اقتدارپرست اہل سیاست کوریاست پر رحم آتاہے اورنہ رعایا کے ساتھ انہیں کوئی ہمدردی ہے۔ ہمارے ہاں ضیائی آمریت کے بعدسے نظریاتی سیاست اورنظریاتی صحافت ناپیدہوگئی، مالیاتی سیاست اورمالیاتی صحافت نے ریاست اورنظام کونیم مردہ کردیا۔

سیاستدان اپنے بچاؤکے لئے ایک گہری سازش کے تحت ریاست کونہایت کمزورکر تے رہے، آج ریاست قومی چوروں کوچھوڑنے کامژداسناتے ہوئے ان سے اپنے پیسوں کی واپسی کے لئے بھیک مانگنے پرمجبور ہے کیونکہ اب ریاست میں چوروں کوزیادہ دیرتک حراست میں رکھنے کی سکت نہیں رہی۔ ہمارے نام نہادرہبرو ں نے ایساآئین بنایاجوان کے لئے موم کی ناک جبکہ عام آدمی کے لئے لوہے کاچنا ہے۔ مٹھی بھربدعنوان، بدزبان اوربے لگام سیاستدان پاکستان سمیت اس کے ریاستی نظام کوتختہ مشق بنائے ہوئے ہیں۔

پی آئی اے اورپاکستان سٹیل ملز سمیت ریاستی ادار وں کی ابتری کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے جبکہ سیاسی اشرافیہ کے نجی ادارے ریکارڈ بزنس کررہے ہیں۔ حکمران اشرافیہ نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر کے لئے ڈیل اورڈھیل کازہر ریاست کی رگ رگ میں اتارا۔ مخصوص عناصردھڑلے سے ریاستی نظام کاگینگ ریپ کرتے رہے، سات دہائیوں سے عوام دہائیاں دے رہے ہیں جبکہ مٹھی بھرچوروں نے نظام کو اپناغلام بنایاہوا ہے۔ پاکستان میں بنک مخصوص افراد کوراتوں رات قرض دیتے اوروہ سیاست کی طاقت سے انہیں ہڑپ کر تے رہے۔

دھونس اوردیمک زدہ سیاست نے ریاست کوریزہ ریزہ کردیاہے۔ پاکستان کے اندرڈالر کی حالیہ پرواز سمیت بے چینی اوربے یقینی کے پیچھے بے رحم سیاستدانوں کامجرمانہ دماغ اورناجائزسرمایہ ہے، 2013 ء سے 2018 ء تک عالمی مالیاتی اداروں سے سخت شرطوں پرقرض درقرض لے کر میٹروبس اوراورنج ٹرین سمیت ان منصوبوں پرپیسہ پانی کی طرح بہایاگیا جہاں یہ ہمیشہ کے لئے ڈوب جائے اورخدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے اورپاکستان کے اہم ریاستی ادارے آئی ایم ایف کی دسترس میں چلے جائیں۔

آج شہریوں کی ہوشربا گرانی سے پریشانی فطری ہے مگر جس وقت شعبدہ بازی کرتے ہوئے مقروض ملک کاپیسہ انتہائی فضول منصوبوں پر لگایاجارہا تھا اس وقت وہ کیوں خاموش رہے۔ ملک میں ہوشربا مہنگائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگریہ عوام کی مجرمانہ خاموشی کانتیجہ ہے۔ ڈالرکے مقابلے میں پے درپے روپے کی قدرگرانے والے کوئی اورنہیں ہمارے اپنے ہیں، اس سازش کاواحدمقصدعوام پرمہنگائی کے ہنٹربرسانا، کپتان کوناکام وبدنام کرنا اورتبدیلی کاراستہ روکنا ہے۔

جولوگ نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کے نزدیک سکیورٹی رسک اورغدارتھے آج وہ سبھی ایک ناؤمیں سوار ہیں، آج ان کامقصد، محوراورمنزل ایک ہے۔ ان عناصر کی دشمنی عمران خان سے ہے مگراس نفرت کی قیمت پاکستان کے عوام چکا رہے ہیں۔ عمران خان اس قدراناڑی نہیں جس قدرانہیں اپنے مدمقابل سیاسی مافیاکی عیاری اور مکاری کاسامنا ہے، کپتان کے مخالفین ان کی ناکامی اوربدنامی کے لئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ میں وثوق سے کہتا ہوں ہماری ریاست کی اس حالت زارمیں مالیاتی سیاست اورمالیاتی صحافت نے مجرمانہ کرداراداکیا۔

ہمارے ہاں رائج سیاست ہماری ریاست کے قومی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتی جبکہ نام نہادجمہوریت صرف اہل سیاست کوراس آئی کیونکہ بیچارے عوام توسات دہائیوں بعد بھی اس کے ثمرات کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ زیادہ تراہل سیاست کا خودکوریاست سے مقدم سمجھنا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔ مٹھی بھر بدعنوان عناصراپنے بچاؤکے لئے قوم اور قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں جبکہ نیب کوعیب قراردیاجارہا ہے۔ نیب قوانین میں ترمیم کی ڈیمانڈکرنے یا تجویز دینے والے یقینا احتساب کے حق میں نہیں ہیں۔

سیاستدانوں نے اپنے حامی کارکنان کے کندھوں پربندوق رکھی ہوئی ہے جبکہ نیب سمیت ریاستی ادارے ان کے نشانے پر ہیں۔ جولوگ چاردہائیوں سے عیش وعشرت کے لئے قومی وسائل میں نقب لگاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے تھے آج اپنی ناجائز دولت چھپانے اورخودکواحتساب سے بچانے کے لئے کیاکیا ہتھکنڈے آزمارہے ہیں۔ تعجب ہے چاردہائیاں اقتدارمیں گزارنے والے آج مہنگائی کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ زر، زوراورسینہ زوری سے چوری کی دمڑی چھپائی اورچمڑی بچائی جاسکتی ہے مگردھونس اورطاقت سے کوئی قوم مجرم با عزت نہیں بن سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اس بار ڈیل اورڈھیل سے گریز کرے ورنہ چورطبقہ ماضی سے بڑافرعون بن جا ئے گا۔

عمران خان کی نیک نیتی کافی نہیں، وہ بھی اپنی ناؤکے بوجھ میں کمی اورباصلاحیت ٹیم ممبرزتلاش کریں۔ کپتان پاکستان میں تبدیلی کے لئے اپنارویہ تبدیل کریں، انہیں تکبر نہیں تدبر کی ضرورت ہے لہٰذاء وہ ہروقت ٹانگ پرٹانگ رکھ کربیٹھنا چھوڑدیں۔ انہیں ڈیلیورکرنے کے لئے اسدعمر، عثمان بزدار اور فوٹوسیشن کے شوقین گھس بیٹھیے مشیروں سے فوری جان چھڑاناہوگی۔ راقم نے بہت شروع میں بھی عمران خان کی اہلیہ اور عثمان بزدارکے بارے میں لکھاتھا، آج پھردہراتاہوں عمران خان اپنی اہلیہ سے والہانہ محبت اوران کی بے پایاں عزت کریں مگر امورریاست سے انہیں کوسوں دوررکھیں۔

انہوں نے تخت لاہورسمیت متعدد معاملات کے بارے میں اپنی اہلیہ کی بجائے کسی دیوارسے مشورہ کیاہوتاتوآج صورتحال یقینا بہت مختلف ہوتی۔ آج جوہمارے قلم کار عثمان بزدار کے خلاف پھٹ پڑے ہیں انہوں نے شروع میں موصوف کے حق میں بھی بہت لکھا ہے مگرمیں شروع سے ”بزدارنہیں بردبار“ پرزوردے رہا ہوں۔ عمران خان یارکھیں بائیس برس کی یوٹرن زدہ سیاست اورانتظامی مہارت میں زمین آسمان کافرق ہے، انہیں اس بندگلی سے ”درازقد“ وزیر اور ”بزدار“ نہیں بلکہ ”بردبار“ ٹیم ممبر باہرنکال سکتے ہیں۔

نعیم الحق نے کپتان کے ساتھ دوستی کاحق اداکیا مگراب وزیراعظم اس دوستی کاحق اداکرنے کے لئے کسی اہل کاحق نہ ماریں۔ اپنے احبا ب کوایوان وزیراعظم سے بہت دوراپنے نجی ڈرائنگ روم تک محدودرکھیں اورجہانگیرترین سمیت دوسرے ماہرین سے مشاورت کریں۔ عمران خان کے پاس مخلص ساتھیوں کی کمی نہیں، وہ جہانگیرخان ترین اورمیاں اسلم اقبال پرآنکھیں موندکراعتمادکرسکتے ہیں۔ ملتان کے تین میں سے دومخدوم عمران خان کے ساتھ شریک سفررہے ایک مخدوم نہ صرف انہیں چھوڑگیا بلکہ جاتے جاتے ان کی تھالی میں چھیدبھی کرگیا جبکہ لودھراں ڈسٹرکٹ ملتان کاپڑوسی شہر ہے وہاں سے باوفا، باصفا اورباحیاء جہانگیر ترین کا کپتان کے ساتھ تعلق سودوزیاں سے بے نیاز ہے۔

میرے نزدیک جہانگیر ترین اب تک کپتان کاواحد بہترین انتخاب ہیں۔ دوسری طرف لاہورسے انتھک اورزیرک میاں اسلم اقبال ہیں مگران کے اوصاف حمیدہ سے کپتان شایدانجان ہیں۔ عمران خان کوریاستی نظام کی تبدیلی کے لئے اپنے ٹیم ممبرز کوتبدیل کرناہوگا۔ عثمان بزدارہزارسال میں بھی ڈیلیورنہیں کرسکتے، پنجاب میں عمران خان کے مخلص اورمعتمدمیاں اسلم اقبال سے ان کی خدادادصلاحیتوں کے مطابق کام لیا جائے۔

عمران خان نے ایک بارپھر این آراودینے سے صاف انکارکردیا جبکہ متحدہ اپوزیشن والے اس کی تردیدکررہے ہیں۔ پرویزی آمریت کے دورمیں شریف برادران کی جیل سے جدہ کے لئے جلاوطنی تحریری ڈیل کاشاخسانہ تھی مگر شریف خاندان کے افراد حجازمقدس میں بیٹھ کرمسلسل اس سمجھوتہ کی تردیدکرتے رہے تاہم 2008 ء میں نواز شریف نے لندن سے لاہورکے لئے ٹیک آف کرتے وقت ڈیل پرمہر تصدیق ثبت کردی تھی۔ پرویز ی آمریت کے ابتدائی دورمیں راقم نے پہلی بار ”ڈیل اورڈھیل“ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔

مارچ 2015 ء میں راقم نے ایک کالم بھی بعنوان ”ڈیل سے ڈھیل تک“ سپردقرطاس کیاتھا۔ آج پھرہم ملک میں ”این آراو“ کی بازگشت سن رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کئی بار کہا، ”ہم این آراونہیں دیں گے“۔ ”شہبازشریف این آراومانگ رہے ہیں“، یہ عوامی مسلم لیگ کے دبنگ سربراہ اوروفاقی وزیرریلوے شیخ رشید کادعویٰ ہے۔ نواز شریف کی طبی بنیادوں پرڈیڑھ ماہ کے لئے عارضی رہائی سے بے یقینی مزید بڑھ گئی اورہرکوئی سوالیہ نگاہوں سے ایک دوسرے کودیکھ رہا ہے۔ اسیری کے بعدباعزت رہائی ہرکسی کونصیب نہیں ہوتی۔ کبھی رہائی سے رسوائی کا پہلونکل آتاہے۔

نواز شریف کی عارضی رہائی پران کی جماعت کاجشن فطری ہے تاہم مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور کارکنان کو عدالتی فیصلے کچھ دیر بعد سمجھ آتے ہیں مگراس وقت تک پل کے نیچے سے بہت زیادہ پانی گزرچکا ہوتا ہے۔ نواز شریف کی بیماری کے باوجودمسلم لیگ (ن) کے جشن سے اس کاسیاسی موقف کمزورہوا، جس جماعت کاقائدبسترمرگ پرہواس کے کارکنان دھمال نہیں ڈال سکتے۔ عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ دوررس اثرات کاحامل ہے کیونکہ ہماری ریاست کوجس قسم کے چیلنجز کاسامنا ہے اس کی بقاء اورمضبوطی کے لئے مقبول نہیں معقول فیصلے کرناہوں گے، نواز شریف کی رہائی میں مریم نواز کی دہائی کابڑاہاتھ ہے۔

زندانوں میں مقیدعام مجرمان کا نواز شریف کے ساتھ موازنہ کرنادرست نہیں کیونکہ عام قیدی نواز شریف کی طرح تین بار منتخب وزیراعظم اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے تاحیات قائد نہیں ہیں۔ ایک طرف اسیر نواز شریف اوردوسری طرف پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے حامی ریاست کوبلیک میل کرنے کے لئے ریاست کے خلاف راست اقدام کرنے کاعندیہ دے رہے ہیں، پارلیمنٹ کے اندربلاول زرداری نے انگلش میں مغرب کی مقتدرقوتوں سمیت مغربی اوربھارتی میڈیاکو جو پیغام دیا وہ ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔

ہماری ریاست نے اب تک بڑے صبر وتحمل کامظاہرہ کیا ہے اورشایداسے ابھی مزیداپنوں کے ہاتھوں دردسہناپڑے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین نواز شریف کی بیماری کے ایشوپرپوائنٹ سکورنگ کررہے تھے جوان کی عارضی رہائی کے بعدختم ہوگیا اوریقینادوبارہ وہ اس پرسیاست نہیں چمکاسکتے، اب حمزہ شہبازکی گرفتاری کے لئے نیب کی ریڈ پرکچھ دن شورمچایاجائے گاپھراس کے بعدشایدکوئی اورایشوان کے ہاتھ آجائے۔ نواز شریف کوریلیف ملنے سے پیپلزپارٹی کی قیادت کے بیانیہ میں واضح فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔

کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف اوربلاول زرداری کے درمیان ہونیوالی ملاقات کے باوجودمسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کا ایک دوسرے پرا عتماد بحال نہیں ہواتھا، نواز شریف کی رہائی کے بعدپیپلزپارٹی مزید محتاط ہوجائے گی، آنے والے دنوں میں دونوں سابق حکمران پارٹیوں کے درمیان دوبارہ فاصلے بڑھنا اورمیڈیا کے محاذ پرایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیانات شروع ہوجائیں گے۔ ان حالات میں سیاسی پنڈت پی ٹی آئی کی وفاق اورپنجاب میں حکومت کے لئے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کررہے۔

مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے قائدین کی ”کمزوریاں اورمجبوریاں“ انہیں مستقبل میں بھی کبھی اکٹھانہیں ہوں دیں گی لہٰذاء متحدہ اپوزیشن کی سیاسی پوزیشن دن بدن بدسے بدترہوتی چلی جائے گی۔ اس وقت اگروزیراعظم عمران خان وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کے لئے گرین سگنل دیتے ہیں توپنجاب میں حکمران اتحاد باآسانی عثمان بزدار کامتبادل لے آئے گا۔ وزیراعظم عمران خان کومرکزمیں اپنے اقتدار کے دوام اوراستحکام کے لئے پنجاب میں کمزورنہیں مضبوط اورموزوں وزیراعلیٰ کی اشدضرورت ہے، انہیں دس ہزاربزداربھی سیاسی اورانتظامی طورپر وہ فائدہ نہیں دے سکتے جو نیک نام اورانتھک میاں اسلم اقبال کی صورت میں ایک بردبار وزیراعلیٰ دے سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).