جنرل صاحب کی مدح مجھ پہ قرض ہے


تاریخ 29 ویں اپریل، وقت رات دس بجے، آج ٹی وی۔ عاصمہ جہانگیر کی بیٹی کی میزبانی میں پروگرام ہو رہا ہے۔ اور شرکاء میں سے کبھی سلیم صافی کی آواز غائب ہو جاتی ہے اور کبھی ضیا الدین صاحب کی، بس ہونٹ ہلتے نظر آ رہے ہیں، منیزے کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو رہا ہے، پروگرام کے واحد شریک جن کی آواز مسلسل و پیہم آ رہی ہے کوئی دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ سکرین کے نچلے حصے میں ٹکر چل رہا ہے ”پاکستان نہ ٹوٹتا اگر 71 میں میڈیا آج کی طرح آزاد ہوتا“۔

ہر قوم کی زندگی میں فیصلہ کُن لمحے آتے ہیں، دو راہے پر کھڑی قوم کو کوئی ایک راستہ چننا ہوتا ہے، اور پھر آنے والے عشرے، کئی بار تو صدیاں، اس ایک فیصلہ کا ثمر یا عذاب قرار پاتی ہیں۔ تاریخِ عالم مثالوں سے بھری ہوئی ہے مگر ہم اپنی بات کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم کی تاریخ میں وہ کون سا اہم موڑ تھا جس نے ہماری سمت یا بے سمتی طے کی؟ کیا جناح صاحب کو گورنر جنرل کی بجائے وزیرِاعظم بننا چاہیے تھا تاکہ پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیدھی رکھی جاتی؟ کیا 1954 میں بنگال کے پہلے صوبائی انتخابات کے بعد اکثریتی جماعت کو حکومت کے حق سے محروم کر دینا ہماری فیصلہ کن حماقت تھی؟ کیا جسٹس منیر کے ایک فیصلے نے وہ ٹیڑھی بنیاد ڈالی کہ ’تا ثریا می رود دیوار کج‘ ؟ یا 1958 میں آئین کی پہلی پامالی نے ہمیں کاروانِ گم گشتہ بنا دیا؟

بہرحال، ہماری ضد کی داستان کا پہلا باب 1971 میں اپنے انجام کو پہنچا جب آدھے سے زیادہ پاکستانیوں نے کہا ’معاف کیجیے گاہم باز آئے، ہم پاکستانی نہیں ہیں‘ ۔ اب بچی کھچی قوم کی زندگی میں پھر ایک فیصلہ کن موڑ آیا۔ فیصلہ یہ کرنا تھا کہ غلطی کہاں ہوئی اور آئندہ ہر قیمت پہ اس غلطی سے کیسے بچنا ہے۔ پہلے تشخیص کرنا تھی، پھر علاج۔ تشخیص کے لئے حمود الرحمٰن کمیشن بنایا گیا۔ آگے کیا لکھوں؟ علاج کیا کرنا تھا ہم نے تشخیص ہی چھپا لی۔ بیسیویں صدی میں مسلم دنیا کے سب سے بڑے سانحے کی طرف یہ تھا ہمارا رویہ۔

71 ء کی بات ہے۔ گھر کے لان میں بھائی، میں اور چند دوست کرکٹ کھیل رہے تھے، اس دوران والد صاحب۔ سے دو اصحاب ملنے آئے۔ ”سید صاحب سے کہیے پی ٹی وی سے مصلح الدین آئے ہیں“ ایک صاحب نے اپنا تعارف کروایا۔ میں نے ابو جی کو اطلاع کی اور ان کی ہدایت پرمہمانوں کو دیوان خانے میں بٹھایا، مشروبات پیش کیے، اسی دوران والد صاحب تشریف لے آئے اور میں پھر کھیلنے کے لئے باہر چلا گیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ والد صاحب کی گرج دار آواز باہر آنے لگی، وہ غصے میں بول رہے تھے، پھر اُن کی آواز بلند تر ہوتی گئی۔

لمحوں میں دیوان خانے کا دروازہ کھلا، مصلح الدین اور ان کے ساتھی باہر نکلے، پیچھے پیچھے گرجتے ہوئے والد صاحب نمو دار ہوئے۔ تفصیلات تو یاد نہیں لیکن ان کا ایک فقرہ میں عمر بھر نہیں بھلا سکا۔ ”سقوطِ ڈھاکہ ہماری بد اعمالیوں کی سزا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں ٹی وی پہ آ کر اسے معرکہء بدر وحنین سے تشبیہ دوں۔ “

ملک ٹوٹنے پہ ہمارا ردِ عمل کچھ ایسا ہی تھا جیسے وضو ٹوٹنے پہ ہوتا ہے، اور وضو ٹوٹنے پہ آدمی بڑی حد کیا سبق سیکھ سکتا ہے۔ لہذا، ساڑھے پانچ سال بعد ملکی آئین ایک بار پھرطاق پر رکھ دیا گیا۔ بوریت کے ڈر سے یہ قصہ یہیں روک لیتے ہیں، اگلے عشرے بھی انہی ٹامک ٹوئیوں میں گزرے، یہی کہانی دہرائی جاتی رہی، ملک ہچکولے کھاتا رہا، قوم غوطے کھاتی رہی، اور 2019 ء آ گیا۔

آج پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں آئین کی سربلندی کی بات کرنے والا مشکوک سمجھا جاتا ہے، مختلف اداروں کو اُن کی آئینی حدود یاد کروانے والا مشکوک تر گردانا جاتا ہے، اظہارِ رائے کی آئینی آزادی کا تذکرہ کرنے والے کے نام کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا جاتا ہے، اختلافِ رائے ’ریاست‘ کے خلاف سازش قرار پاتی ہے۔ یہ ہیں وہ سبق جو ہم نے ستر سال کی رسوائیوں سے سیکھے ہیں۔

تیرہ سال کے صدارتی نظام کے بعد ملک ٹوٹا تھا۔ آج پھر کئی مورچوں سے صدارتی نظام کے حق میں دلائل داغے جا رہے ہیں۔ مضبوط مرکز کا شوق ہمیں دو لخت کر گیا، ہم نے اُس سے کیا سبق سیکھا؟ واقعی ’شوق دا کوئی مُل نئیں‘ ۔ اٹھارویں ترمیم پہ بھویں اسی لئے چڑھتی ہیں کہ یہ صوبائی خود مختاری کی بِنا فراہم کرتی ہے۔ قومیتوں کے حقوق کی بات کرنا آج بھی ایک باغیانہ تصورہے۔ بات یہ ہے کہ نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی، ہمارے ہاں نہیں چل پایا، اس لئے کہ ہر نظام اپنے خال و خد اور توانائی آئین نامی دستاویز سے حاصل کرتا ہے، اور ہم لفظ آئین سے ایسے چڑتے ہیں گویا یہ ہماری چھیڑ ہے۔

کسی طے شدہ اصول اور اخلاص کے بغیر تو کوئی گندا دھندا بھی نہیں چلتا، ریاست کیسے چلے گی؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے ’ریاست‘ کی تعریف کو ہی دھندلا رکھا ہے، لہذا ہمیں اینٹی سٹیٹ کا مطلب بھی نہیں آتا اور ’ریاست کا بیانیہ‘ کی اصطلاح تو ہم صریحاً غلط معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں۔ خدا کی قسم سمجھ نہیں آتا آخر ہم چاہتے کیا ہیں۔

ہم کمال لوگ ہیں۔ ہم عجیب لوگ ہیں۔ ہم کون لوگ ہیں؟

(نوٹ: ارادہ تو یہ تھا کہ ڈی جی ائی ایس پی آر جنرل آصف غفور کی حالیہ پریس کانفرنس کی توصیف میں کالم لکھا جائے، لیکن خیال کی رو بدک گئی اور یک سر مختلف سمت میں بگٹٹ دوڑ پڑی۔ جنرل صاحب کی مدح ہم پہ ادھار رہی۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).