”مائنس زرداری“ کر لینے کے بعد کیا ہو گا؟


مرتے دم تک میں یہ واقعہ فراموش نہیں کرسکتا کہ پاکستان کا صدر منتخب ہونے کے بعد آصف علی زرداری جب ایوانِ صدر میں قائم اپنے دفتر میں بیٹھنے گئے تو میں واحد شخص تھا جسے اپنے ہمراہ لے کر وہاں گئے اور دروازہ کھلواکر اس میں داخل ہوئے۔  ان کے سیاسی کیرئیر کے تناظر میں یہ اہم ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ کامیابی اور کامرانی کے اس مقام پر مجھ ایسے عام رپورٹر کو اپنے ہمراہ لے جانا ان کے بڑے دل کا بہت بڑا اظہار تھا۔ اس دن کے علاوہ میرے لئے اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ جب بھی میرے ساتھ کوئی بُراواقعہ ہوا، آصف علی زرداری نے سب سے پہلے ”میرے لائق کوئی حکم“ والا فون کیا۔

اپنے پیشے کے بنیادی تقاضوں کو نبھانے پر بضد رپورٹر کے لئے مگر ضروری ہے کہ کسی سیاستدان کے بارے میں ذاتی مراسم کو بے رحمی سے بھلاتے ہوئے ”معروضی“ کہلاتا تجزیہ کیا جائے۔  اس تقاضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے برسوں سے اس کاوش میں مبتلا رہتا ہوں کہ جن سیاست دانوں سے ذاتی تعلق رہا ان سے میل ملاقات مزید بڑھانے سے گریز کیا جائے۔  اس روش کو اپناتے ہوئے مگر ”اندر کی بات“ دریافت کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔  اسی باعث عملی رپورٹنگ سے کنارہ کشی اختیار کررکھی ہے۔

ریٹائر ہوتے ہوئے بھی ”خبر“ جبلی طورپر اب بھی سونگھ لیتا ہوں اور ایک دو لوگوں سے گفتگو کرنے کے بعد بسا اوقات اس کی تصدیق بھی ہوجاتی ہے۔  آصف علی زرداری سے اکیلے میں ملاقات آج سے تقریباً ایک سال قبل ہوئی تھی۔ اس کے بعد بلاول بھٹو زرداری سے اگرچہ دو تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔  ٹیلی فون پر آخری بات آج سے چھ ماہ قبل ہوئی تھی جب میں ایک واقعہ کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ اپنے گھر تک محدود ہوا لہذا میں ہرگز اس قابل نہیں کہ براہِ راست ملاقاتوں کی بدولت ہوئے مشاہدے کی بنیاد پر بیان کرسکوں کہ آصف علی زرداری اپنے خلاف بنائے مقدمات اور حالیہ گرفتاری کے بارے میں کیا محسوس کررہے ہیں۔

یہ بات البتہ اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس گرفتاری کے لئے ذہنی طورپر کئی مہینوں سے تیار تھے۔  تفتیش، حوالات اور جیل ان کے لئے انہونے واقعات نہیں۔  وہ انہیں بھگتنے کے عادی ہیں۔  میڈیا میں ان کے بارے میں ”کرپشن کہانیاں“ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت کے دوران ہی پھیلنا شروع ہوگئی تھیں۔  تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کہانیوں کے لئے مواد اکثر ان لوگوں نے فراہم کیا جو خود کو پاکستان پیپلز پارٹی کے اصلی اور وڈے وارث سمجھتے تھے اور بی بی کی عقیدت میں مبتلا ہونے کے دعوے دار بھی۔

ان کہانیوں کے فروغ سے اُکتا کر آصف علی زرداری نے خود کو میڈیا کے ذریعے ”حاجی نمازی“ ثابت کرنے کی ذرا سی کوشش بھی نہیں کی۔ ہوسکتا ہے میری سوچ غلط ہومگر طویل مشاہدے کی بنیاد پر میں یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ آصف علی زرداری اقتدار کو شطرنج کے کھیل کی طرح لیتے ہیں۔  اس کھیل کے تقاضوں کو بخوبی سمجھنے کے دعوے دار ہیں۔  میری ذاتی رائے میں اکثر ان کے اس ضمن میں اندازے درست ثابت نہ ہوئے۔  ان کی لگائی گیم بُری طرح پٹ گئی۔

کوئی گیم ہارنے کے باوجود وہ سیاسی بساط کی جند چھوڑنے کو رضا مند نہیں ہوتے۔  نئی گیم لگاکر اسے جیتنے کی تگ ودو میں مصروف ہوجاتے ہیں۔  بظاہر ٹھنڈے مزاج کے ہوتے ہوئے بھی اندر سے ایک بہت ہی ضدی شخص ہیں۔  میں اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کئی برسوں سے ان کے ساتھ سیاسی معاملات پر بحث سے گریز کرتا ہوں۔  فقط ان کی باتیں غور سے سنتا ہوں اور ان میں سے ”خبر“ نکالنے کی کوشش کرتا ہوں۔  پیر کے روز ان کی گرفتاری کے بعد کئی دوستوں نے فون کرکے پوچھا کہ ”اب کیا ہوگا؟“

میرا بے ساختہ جواب سب کے ساتھ یہی رہا کہ فی الحال کچھ بھی نہیں۔  آصف علی زرداری کے قریبی دوستوں کے علاوہ ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے زیادہ تر جیالے بھی دل میں ان کی گرفتاری سے بہت افسردہ یا پریشان نہیں ہوں گے۔  آج کے دور کی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ 24 / 7 چینلز اور سوشل میڈیا باہم مل کر لوگوں کو اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم کردیتے ہیں۔  شہری مڈل کلاس طبقات کی بے پناہ اکثریت کے پاس ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی کہانیوں کی تصدیق کی فرصت نہیں۔

وہ نہایت دیانت داری سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان اجتماعی طورپر نکمّے اور بدعنوان ہیں۔  اقتدار مل جائے تو اختیار کو ذاتی دولت جمع کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔  دوستوں کو نوازتے ہیں۔  خلقِ خدا کی مشکلات کو سفاکی سے بھلادیتے ہیں۔  طویل عدالتی عمل سے بالآخر کیا برآمد ہونا ہے اسے جاننے کو بہت برس درکار ہوں گے۔  حتمی فیصلے ہونے سے قبل ہی مگر ”جعلی اکاؤنٹس“ پر مبنی کہانیاں ٹی وی سکرینوں پر خوب رونق لگاچکی ہیں۔

”فالودہ والا“ تقریباً روزمرہّ ہوچکا ہے۔  شہری متوسط طبقے کی اکثریت لہذا یہ سوچنے کو مجبور ہوگی کہ آصف علی زرداری بالآخر احتساب کے شکنجے میں جکڑے گئے۔  اب وہ جانیں اور عدالتیں۔  آصف علی زرداری کے حامیوں کے لئے یہ تاثر پھیلانا کہ وہ احتساب نہیں انتقام کا نشانہ بنے انتہائی دشوار ہوگا۔ فی الوقت کسی ریلیف کے لئے آصف علی زرداری کو اپنے وکلاء کی مہارت پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔ سیاسی منظر نامے پر اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے قومی اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے آصف علی زرداری یہ امید بھی رکھیں گے کہ اس ا یوان کے اجلاسوں کے دوران ان کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے سپیکر اسد قیصر تمام تر حکومتی دباؤ کے باوجود بسا اوقات ”پروڈکشن آرڈر“ جاری کرنے کو مجبور ہوں گے۔

یہ سہولت شہباز شریف کو بھی میسر ہوئی تھی۔ خواجہ سعد رفیق بھی اس کے باعث اسمبلی میں آتے رہتے ہیں۔  ”پروڈکشن آرڈر“ کے ذریعے کسی گرفتار شدہ رکن قومی اسمبلی کی ایوان کے اجلاس کے دوران موجودگی مگراب گزشتہ چند ہفتوں سے تقریباً ناممکن ہوتی نظر آرہی ہے۔  آصف علی زرداری بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔  تحریک انصاف کے ”نظریاتی“ شدت پسند اراکین کی اکثریت اصرار کرتی ہے کہ نیب کی زد میں آئے ”چور اور لٹیروں“ کو منتخب ایوانوں کے اجلاس میں شرکت کا حق نہیں ملنا چاہیے۔

وہ بہت شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ”پروڈکشن آرڈر“ والی سہولت کو اسمبلی کے ضابطہ کار سے نکال دیا جائے۔  ان کے ایک پرانے ساتھی علیم خان نے بھی لیکن نیب کی حراست کے دوران اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کی۔ اسلام آباد میں پھیلی افواہوں پر اعتبار کیا جائے تو آئندہ چند دنوں میں شاید پرویز خٹک جیسے وزراء کوبھی ”پروڈکشن آرڈر“ کی اہمیت کا ادراک ہوسکتا ہے۔  آصف علی زرداری کی پیر کے روز ہوئی گرفتاری کے بعد طویل المدتی تناظر میں ہمیں سندھ کی حکومت پر نگاہ رکھنا ہوگی۔  ”مائنس زرداری“ کرلینے کے بعد مراد علی شاہ کے بجائے کسی اور کو ”گڈگورننس“ کے بہانے متعارف کروانے کی کوشش ہوئی تو نئی گیم لگے گی۔ شاید آصف علی زردار ی نیب کی حراست میں اس کا انتظار کریں گے۔

(بشکریہ: نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).