خدشہ ہے کہ کہیں جوڈیشل انجینئرنگ شروع نہ ہوجائے: حامد خان


سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سپریم کورٹ بار کے پروفیشنل گروپ کے سربراہ حامد خان نے حیدر آباد میں کہا ہے کہ آزادی اظہار پر قدغن کا سپریم کورٹ نوٹس لے۔ جوڈیشری کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ خفیہ ہاتھوں کا انضباطی کارروائیوں میں کردار بڑھ گیا۔ جوڈیشری کی آزادی و خود مختاری کیلئے ہر صورتحال الارمنگ ہے، خدشہ ہے کہ کہیں جوڈیشل انجینئرنگ شروع نہ ہو جائے، اچھی شہرت کے حامل ججز کو دباؤ پر نکالنا افسوسناک ہے، ججز کی تعیناتی میں اقربا پروری کی شکایات سامنے آرہیں ہیں، سپریم کورٹ کو زیادہ آواز بلند کرنا ہوگی، ضیاء دور کے بعد بڑی سینسر شپ دیکھنے میں آئی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ شب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی منیجنگ کمیٹی کی رکن پروین چاچڑ۔ سندھ بار کونسل کے رکن فضل قادر میمن اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس (ر) نورالحق قریشی کی جانب سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن کےلئے حامد خان گروپ کے امیدواروں کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں سندھ بار کونسل اور کراچی بار  کے ارکان سمیت بڑی تعداد میں سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے وکلا نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ پروفیشنل گروپ نے صاف ستھرے اور اچھے کردار کے حامل امیدواروں کو پیش کیا ہے کہ وکلا کے مسائل حل ہو سکیں۔ ہاؤسنگ اسکیم جلد مکمل کی جا سکے اور بینچ اور بار کے تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم ہوسکیں۔

انہوں نے کہا کہ جوڈیشری کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ ججز کی تقرری کے لئے پارلیمانی کمیٹی کو غیرموثر کردیا گیا ہے۔ جوڈیشل کمیٹی کمیٹی میں ججز کی تعداد 7 ہے جبکہ اس میں ہائی کورٹ کے دو ججز اس کے علاوہ ہیں جبکہ وکلا کے صرف دو نمائندے ہیں۔ وزیر قانون اور سیکریٹری قانون بھی اس کمیٹی کے ممبران ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کا اختیار ان کے پاس ہے۔ سرکاری نمائندے کبھی چیف جسٹس کی مخالفت میں نہیں جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ججز کی تعیناتی میں اقربا پروری اورمن پسند افراد کی تقرری کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں بھی ججز کی تقرری پر تحفظات کا اظہار کیا جا ر ہا ہے۔ نان پریکٹسنگ لوگوں کو ججز لگایا جا رہا ہے ایسے افراد سسٹم کو نقصان پہنچائیں گے۔ اس کے لئے سپریم کورٹ کو زیادہ آواز بلند کرنی اور اسکروٹنی کے لئے کوشش کرنا ہو گی۔ بار ٹھیک کردار ادا کرے تو غلط تقرریوں کو روک سکتے ہیں۔

ججز کے کیسز کے حوالے سے بھی شکایات ہیں اچھی شہرت کے حامل صاف ستھرے ججز پر مشکل وقت آیا ہوا ہے اور جن کے خلاف شکایات ہیں وہ کلین چٹ لے کر چلے جاتے ہیں خفیہ ہاتھوں کا ججز کی تقرریوں اورتبادلوں اور انضباطی کارروائیوں میں کردار بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ افسوسناک داستان ہے۔ حامد خان نے کہا کہ جوڈیشری کی آزادی و خودمختیاری کے لئے یہ صورتحال الارمنگ ہے خدشہ ہے کہ کہیں جوڈیشل انجینئرنگ شروع نہ ہوجائے۔

حامد خان نے کہا کہ ہمیں اپنا کام کرنے دیں اور ادارے اپنا کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے پر بہت بڑا قدغن لگا دیا گیا ہے اب پیمرا کی اجازت کے بغیر کوئی پروگرام آن ایئر نہیں ہوسکتا۔ ضیا دور کے بعد پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر سینسر شپ دیکھنے میں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے تحریک چل رہی ہے۔ اخبارات میں ہماری تحریک اور خبروں کا بلیک آؤٹ ہے جبکہ چند مفاد پرست کنونشن کرتے ہیں توان کی بڑی بڑی خبریں لگوائی جاتی ہیں۔ صحیح نمائندوں اورحقیقی احتجاج کرنے والوں کی کوریج بھی نہیں کی جاتی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ آزادی اظہار پر قدغن کے حوالے سے آرڈر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).