نابینا افراد کے مسائل کا ایک حل


آپ اپنی آنکھیں بند کیجئے اور صرف ایک لمحے کے لئے سوچیئے کہ آپ کو دنیاکیسی دکھائی دے رہی ہے۔ یقیناً اس لمحے میں رنگ، روشنی، پھول اور منظر سب گم ہو جائیں گے۔ اس لمحے صرف اندھیرے کی کیفیت آپ کو درپیش ہوگی۔ البتہ آپ کو آوازیں زیادہ واضح سنائی دیں گی۔ صرف قدموں کی چاپ ہی آپ کے لئے لوگوں کی شناخت کا ذریعہ ہوگی۔ لوگوں کے لہجے کی تبدیلی آپ کو زیادہ محسوس ہو گی۔ پنکھے کے چلنے کی آواز زیادہ صاف سنائی دے گی۔ گلی میں ہونے والا شور زیادہ واضح ہو گا۔ لیکن آپ کو نظر کچھ نہیں آئے گا۔ یہ وہ زندگی ہے جس سے ہر نابینا شخص ہر لمحہ نبرد آزما ہوتا ہے۔ یہی کچھ ان کے سامنے ہوتا ہے۔ یہی اندھیرا ان کی کل کائنات ہوتی ہے۔ یہی آوازیں ان کے منظر ہوتے ہیں۔

المیہ یہ نہیں ہے کہ ایک نابینا شخص کو کچھ نظر نہیں آتا۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ اس کی اس معذوری کے سبب معاشرے کا رویہ اس کی جانب کس قدر مختلف ہوتا ہے۔ یہ سماج ایسے افراد کا مذاق اڑاتا ہے۔ ان کی تضحیک کرتا ہے ان کا تمسخر اڑاتا ہے یا پھر صرف ہمدردی اور تا سف کا اظہار۔

زبان کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ ہم نے جب کسی کی توہین کرنی ہوتی ہے تو اسے ”اندھا“ کہتے ہیں، کسی کا مذاق اڑانا ہوتا ہے اسے ”کانا“ کہتے ہیں، تمسخر اڑانا ہوتا ہے تو اسے ”بھینگا“ کہتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس معذوری میں وہ نابنیا شخص مکمل بے قصور ہے۔ ہم ایسے بچوں کو ان کے والدین کی کسی غلطی کا شاخسانہ کہتے ہیں۔ ہم انہیں باعث عبرت گردانتے ہیں۔ ہم ان پر ترس کھاتے ہیں۔ انجانے میں ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ ان کا دل توڑتے ہیں۔ ان کو جیتے جی مارتے ہیں۔ زبان کے معاملے میں بس اتنا یاد رکھیں کہ درست لفظ ”نابینا“ ہے۔ باقی تمام الفاظ تحقیر کے زمرے میں آتے ہیں۔

نابینا افراد زندگی میں کیا کچھ کر سکتے ہیں اس کے بارے میں بھی ہمیں چنداں ادراک نہیں ہے۔ برطانیہ کے وزیر تعلیم نابینا تھے۔ لاس اینجلس کے مئیر نابینا تھے۔ دنیا میں سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی ایک نابینا شخص سر کر چکا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نابینا افراد کے پاس آگے بڑھنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں یہ صرف بھیک مانگ سکتے ہیں یا پھر قران پاک حفظ کر کے نابینا حافظ بن سکتے ہیں۔ قرآن پاک حفظ کرنے سے زیادہ مستحسن بات کوئی اور نہیں ہو سکتی مگر اس کے لیے نابینا ہونا کہاں کی شرط ہے؟

ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ایک پاکستانی نابینا نوجوان عاقل سجاد ہاورڈ جیسی یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کر چکا ہے۔ ایک نابینا خاتون ہما اقبال ریڈیو پاکستان کی پہلی نابینا پروڈیوسر بن چکی ہیں۔ یوسف سلیم پاکستان کے پہلے نابینا جج بن چکے ہیں۔ صائمہ سلیم پاکستان کی پہلی نابینا خاتون ہیں جو سی ایس ایس کرنے کے بعد فارن سروس جوائن کر چکی ہیں۔ عاصم رؤف پی آئی اے میں ایک نامور وکیل کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عامر حنیف راجہ جو انیسویں گریڈ کے نابینا پروفیسر ہیں وہ پاکستان کے سو اہم لوگوں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔

لیکن یہ چند درخشاں مثالیں حقیقت حال کی عکاسی نہیں کرتیں۔ مندرجہ بالا لوگوں نے جو کیا اپنے بل بوتے پر کیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اب بھی پاکستان کے قریبا تمام سپیشل سکولوں میں ووکیشنل ٹریننگ کے نام پر نابینا افراد کو صرف کرسیاں بننا سکھایا جاتا ہے۔ تدریس کے سوا زیادہ تر شعبوں کے لئے ان پر دروازے بند ہیں۔ پاکستان میں ایسے بھی سپیشل سکول ہیں جہاں طلبا تو صرف تیس ہیں مگر اساتذہ کی تعداد ستر سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سکول ذریعہ تعلیم نہیں رہے بلکہ کچھ لوگوں کے روزگار کی جگہ بن گئے ہیں۔ پاکستان میں معذوری ایک نظر انداز موضوع ہے اس لِئے ہر آنے والی حکومت نے سیاسی بھرتیوں کے لئے سپیشل سکولوں کا انتخاب کیا۔ ان سکولوں میں معیار تعلیم کا یہ عالم ہے کہ جو بچہ پانچ سال پہلے تیسری جماعت میں تھا وہ پانچ سال گزرنے کے بعد بھی تیسری جماعت میں ہے۔ اس بچے کی تعلیم اور ترقی سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ والدین ان بچوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری کر تے ہیں نہ اساتذہ کو کوئی دلچسپی ہے نہ حکومتیں اس سلسلے میں کوئی عملی اقدامات اٹھانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ان تمام تر مسائل کا مقابلہ کرنے کے بعد اگر کوئی نابینا شخص پڑھ لکھ کر کچھ کمانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ سارا معاشرہ اس کا کریڈٹ لیتا ہے۔ سب اس کو ہیرو مانتے ہیں۔ سب اس کی کامیابی کا ذکر فخر سے کرتے ہیں۔ لیکن زیرو سے ہیرو بننے تک نابینا افراد کے راستے میں تعلیم کا مرحلہ حائل ہے۔ جس کاحل ابھی تک کوئی بھی حکومت پیش نہیں کر سکی۔

حکومتوں کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں۔ لیکن اگر ہم ان حکومتوں سے ایک بات منوا لیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہ یک نکاتی مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ملک بھر میں نابینا افراد کے جتنے ادارے ہیں اس کی سربراہی کسی نابینا شخص کے حوالے کی جائے۔ کیونکہ وہی اپنی کمیونٹی کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔

اس بات کو ایک اور مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں سپیشل افراد کے لئے اگر کسی دور میں حقیقی معنوں میں کوئی کام ہو اہے تو وہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ہوا ہے۔ جنرل ضیا سے شدید سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر اس بات کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ جنرل ضیا الحق نے سپیشل ایجوکیشن کاکام اس لئے دلجمعی اور لگن کے ساتھ کیا کہ ان کی اپنی صاحبزادی مرحومہ زین ضیا معذور تھیں۔ وہ ا یک والد کے طور ان تمام مسائل سے آگاہ تھے جو کسی سپیشل بچے کو پیش آ سکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت وقت سے اتنا سا مطالبہ ہے کہ سپیشل اداروں کی سربراہی یا تو سپیشل افراد کو دی جائے یا ایسے لوگوں کو یہ عہدہ دیا جائے جن کی فیملی میں کوئی شخص کسی معذوری کا شکار ہو۔ حکومتی پالیسی میں یہ معمولی سی تبدیلی سپیشل افراد کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہو سکتی ہے۔ ان کے لِئے بہت سے مواقع فراہم کر سکتی ہے۔ ان کے حالات بدل سکتی ہے۔ ان کی دنیا روشن کر سکتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1545 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments