ڈاکٹر جاوید باتش کی ”خموشی بھی صدا ہے“


شعر کی ابتدا، غالباً غنا سے ہوئی ہو گی اور غنا کا شروع لامحالہ آہنگ سے۔ پھر آہنگ تو بذات خود فطرت کا انگ ہے۔ آہنگ ہی نے ترنم کو جنم دیا۔ البتہ یہ لازم نہیں کہ باد صبا کی یکساں سرسراہٹ یا کسی خاموش ندی کے ایک سے پتھروں پر سے قلقل مے کے مانند ایک لے سے بہنے کی صدا آہنگ کہلائے۔ سرشور ہوا کا بے ہنگم پن، ادھر سے ادھر قوی تھپیڑوں کی سی چٹاخ پٹاخ کے ساتھ مضبوط تنوں والے اشجار کی مڑ کے نہ ٹوٹنے والی شاخوں اور ان پر لدے پتوں کی گھنی گپھاوں کو اتھل پتھل کرنا، کم زور شاخوں اور ان سے چمٹے پیلے ہوتے پتوں اور نازک تنوں والے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر دھڑام سے یا تنوں کو بیچ سے دو لخت کر کے چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ زمین پر پٹخ دینے کا عدم آہنگ شور بھی غنا شمار ہو سکتا ہے۔ اس نوع کے عدم آہنگ اور غنا کے ساتھ ملتی الفاظ کی آزاد بنت بھی شاعری کہلاتی ہے، چاہے اس سے قدما یا روایت پسند اختلاف ہی کیوں نہ کریں، مگر روایت پسندی اپنے طور پر وضع داری کی ایک صورت ہے۔

صنعتی طور پر ترقی کر چکے معاشروں میں چوں کہ تیز روی اور خود غرضی ریت بن چکی ہوتی ہے، چناں چہ وہاں وضع داری اور روایت پسندی مفقود ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہاں جدید نو کی شاعری گھر کر لیتی ہے، لیکن ایسے ماحول میں بھی کچھ لوگ شعر گوئی کی قدیم صفت سے جڑے رہنے کو پسند کرتے ہیں۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی شخص شعر کیوں کہتا ہے؟ اس میں عمومی طور پر دو نوع کی کیفیت سبب بنا کرتی ہے۔ ایک موزونی طبع کی حامل سوچ اور دوسری اظہار کی مختصر اور جامع صورت وضع کرنے کی خواہش۔ پہلی سوچ والے پابند شاعری کرنے کی جانب راغب ہوتے ہیں، جس میں مقبول ترین صفت غزل گوئی رہی ہے۔ اگر چہ کچھ بڑے شعرا نے اسی انداز میں نظم گوئی، مسدس، نوحہ و قصیدہ نویسی میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب محض پابند شاعری کا رواج تھا، جس میں قافیہ و ردیف کا چلن ضروری ہوتا تھا۔ تب کی شاعری میں مرزا اسد اللہ خان غالب، غالب رہے، ان کے ہم عصر مومن خاں مومن بھی تھے، ابراہیم ذوق اور داغ دہلوی بھی، مگر غالب نے رومان کی بجائے خیال اور فلسفے کو شعر میں ڈھالا۔ بعد میں جگر مراد آبادی، اختر شیرانی اور دیگر، ان کے بعد جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، مجید امجد نے بھی نظموں کے ساتھ ساتھ غزلیں کہیں۔ شہزاد احمد، احمد فراز، عبید اللہ علیم، سلیم کوثر کے بعد آج ایک اچھے نظم گو شاعر ابرار احمد بھی غزل لکھتے ہیں۔

جاوید باتش بھی عہد حاضر کے خالصتاً قدامت دوست، روایت پسند، پابند آہنگ، قافیہ و ردیف میں لفظوں کو گوندھ کرکے لڑی میں پرونے کی لگن میں مبتلا فرد ہیں۔ مبتلا اس لیے کہ اس نوع کی شاعری کرنے والوں کو شعر گوئی کے ابتلا سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان پر آمد ہو تو بھی مطمئن نہیں ہوتے، جب تک شعر کی نوک پلک آراستہ تر نہ کر لیں۔ آورد تو ایسے شاعروں پر درد زہ اور عالم سکرات کی اذیت اور الم سے زیادہ کرب ناک ہوتی ہے، مگر کیوں کہ شعر کہنا ان کی سرشت کا انگ، بلکہ اٹوٹ انگ بن چکا ہوتا ہے، اس لیے وہ شعر کہے بن رہ نہیں پاتے۔

اب جاوید باتش ہی کو لیں، جنھیں شاید ہی فرصت میسر آتی رہی ہو، کیوں کہ وہ ماہر امراض سینہ ہونے کی حیثیت سے طبی امداد فراہم کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہونے کے سبب، دنیا کے کونے کونے میں متعین رہتے ہیں، مگر شعر ان پر وارد ہونے سے نہیں رک پاتے۔ ان کی شاعری کی دو کتابیں پہلے ہی شایع ہو چکی ہیں اور ”خموشی بھی صدا ہے“ کے عنوان سے ڈاکٹر جاوید باتش کی تیسری کتاب قارئین کے ہاتھوں میں ہے، جس کے دو نمایندہ شعر یوں ہیں:

میں پوجتا رہا دھرتی کو اپنی ماں کی طرح
شمار جب ہوئے وارث، کہیں نہیں تھا میں
۔ ۔
تو اپنے شہر کے لوگوں کو نا تواں نہ سمجھ
گلے سے طاق غلامی اتار سکتے ہیں
باتش کا رومان بھی صنف نازک نہیں بلکہ اپنی دھرتی کا نازک پن ہے، جسے اغیار پامال کرنے کے درپے رہتے ہیں، مگر باتش اور ان جیسے اپنی شاعری سے لوگوں کو حب الوطنی کی جانب مائل و راغب رکھنے کی مسلسل سعی میں فقط مصروف ہی نہیں رہتے، بلکہ کامیاب بھی رہتے ہیں اور ایسے شاعروں کی طاقت نطق کسی غاصب یا کسی طاغوت کو زیادہ دیر وطن کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرنے دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments