آصف صاحب – کچھ یادیں کچھ ملاقاتیں


شاید سن دو ہزار میں آصف صاحب نے ادبی رسالہ نکالنے کا ارادہ باندھا۔ مجھے حکم ہوا کہ ایک افسانہ دنیازاد کے لیے انہیں دوں۔ ان دنوں میں افسانے ”چریا ملک“ پر کام کر رہا تھا۔ اچانک مجھے چھوٹے بھائی کے ساتھ پشاور جانا پڑ گیا۔ وہاں ایک ہوٹل میں قیام کے دوران وہ افسانہ مکمل کیا اور پشاور سے ان کے پتے پر پوسٹ کر دیا، جو انہیں مل گیا۔ کراچی واپسی پر ان سے پوچھا: افسانہ کیسا لگا؟ کہنے لگے :اسے پڑھتے ہوئے مارکیز کا کرنل یاد آتا رہا، مگر افسانہ اس سے مختلف ہے۔ چند ہی روز کے بعد دنیا زاد کا اجرا ہوگیا اور بہت جلد وہ اردو کے ایک وقیع رسالے کے طور شہرت پانے لگا۔ دنیا زاد شروع کرنے سے پہلے وہ ایک نیا اشاعتی ادارہ ”شہر زاد پبلشر“ کے نام شروع کرچکے تھے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام انہوں نے باقاعدہ اور مسلسل کتابیں چھاپنا شروع کیں۔

لاہور میں جب عاصم بٹ سے پہلی ملاقات ہوئی تو آصف صاحب کا تذکرہ نکلا۔ عاصم نے کہا کہ وہ جب ان کے بارے سوچتا ہے تو اس کے سامنے ایک ایسا شخص آتا ہے، جس نے ایک بہت بڑے میز کو کئی خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک خانہ افسانہ نگاری کے لیے ہے، وہاں بیٹھ کر وہ افسانے لکھتا ہے۔ دوسرا ترجمے کے لیے مخصوص ہے، جہاں سے وہ تراجم کرتا ہے۔ تیسرا مضامین سے مختص ہے، وہاں بیٹھ کر وہ مضامین لکھتا ہے۔ چوتھا خانہ انگریزی کی تحریروں کے لیے ہے، جہاں سے وہ اپنے انگریزی تراجم اور مضامین تحریر کرتا ہے۔

دو ہزار ایک میں میری شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد ایک بار اپنی شریک حیات کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ تب سیمی بھابھی بھی آکر ہمارے ساتھ بیٹھ گئی تھیں۔ انہوں نے باتوں باتوں میں آصف صاحب کی شکایت کی: انہیں عید کے لیے کپڑے اور جوتے خریدنے کے رقم دی، تو یہ ان کے بجائے ٹامس اینڈ ٹامس سے مہنگی کتابیں خرید کر لے آئے۔ بعد میں ان کے لیے کپڑے اور جوتے مجھے خریدنے پڑ گئے۔ مجھے یاد ہے کہ بھابھی کا لہجہ آصف صاحب کے متعلق کچھ تلخ سا تھا۔ اس سے پہلے تک میں یہی سمجھتا رہا تھا کہ بھابھی آصف صاحب کی ادبی قدو قامت کو نہ صرف پسند کرتی ہیں بلکہ ان کی مدد بھی کرتی ہوں گی، لیکن اس دن کے بعد میرا یہ خیال خام ثابت ہوا۔

مجھے اپنا افسانوی مجموعہ شایع کرنے کا مشورہ آصف صاحب نے ہی دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اب تمہارا پہلا مجموعہ آجانا چاہیے۔ ان دنوں میری کتاب کے ساتھ سید کاشف رضا کا پہلا شعری مجموعہ ”محبت کا محل وقوع“ بھی زیر طبع تھا۔ مجھے اپنی کتاب کے لیے مناسب نام نہیں مل رہا تھا۔ ایک روز آصف صاحب کے ہاں انعام ندیم بھی موجود تھے۔ جب اس مسئلہ کا انہیں پتا چلا تو انہوں نے افسانوں کے عنوانات دیکھتے ہوئے کتاب کا نام ”خوامخواہ کی زندگی“ تجویز کیا، جو مجھے اور آصف صاحب دونوں پسند آیا، اس طرح کتاب کا نام طے ہوگیا۔

کچھ عرصے بعد آصف صاحب کا فون آیا کہ تمہاری اور کاشف کی کتابیں چھپ گئی ہیں۔ میں چند کاپیاں لے کر آ رہا ہوں۔ کس جگہ ملا جائے؟ میں نے جبیس ہوٹل، صدر میں ملنے کے لیے کہا۔ آصف صاحب نے وہاں مجھے اور کاشف کو شایع ہونے اولین کتابیں پیش کیں۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہم سے زیادہ خوشی آصف صاحب کو ہو رہی ہے۔ وہ بہت پرجوش تھے۔ انہوں نے کتابوں کی تقریب کروانے کے لیے کہا۔ کاشف کی دو کتابوں، محبت کا محل وقوع اور نوم چومسکی کے تراجم والی کتاب اور میری افسانوں کی کتاب کی تقریب رونمائی ایک ساتھ ہوئی تھی، جس کے بینر پر لکھا ہوا تھا: دو ادیب، تین کتابیں۔ شرکائے گفتگو میں آصف صاحب کے علاوہ، افضال احمد سید، غازی صلاح الدین، پروفیسر سحر انصاری اور دیگر لوگ شامل تھے۔ تھیٹر کے مایہ ناز اداکار خالد احمد نے میری ایک کہانی اور کاشف کی چند نظمیں پڑھ کر سنائیں۔

ایک بار آصف صاحب کے چچا انور احسن صدیقی مرحوم کی کتاب ”ایک خبر، ایک کہانی“ کی تقریب اجرا کراچی پریس کلب میں جاری تھی۔ میں انور سن رائے صاحب کے ساتھ آخری رو میں بیٹھا تھا۔ آصف صاحب اپنا مضمون پڑھ چکنے کے بعد ہمارے پاس ہی آخر بیٹھ گئے۔ انور صاحب نے انہیں جملہ دیا تھا: یار تمہارے ہر مضمون میں محاوروں اور اشعار کی بھرمار ہوتی ہے، کبھی سیدھی بات بھی کر لیا کرو۔ اپنے نان فکشن میں آصف صاحب کی نثر کا انداز کچھ ایسا ہی تھا۔

ان دنوں آصف صاحب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال سے وابستہ تھے۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہاؤس جاب کے دوران انہوں نے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے میں جو بے حسی، منافع خوری، حرص و طمع دیکھی تو پھر اس کے بعد انہوں نے زندگی بھر پریکٹس نہ کرنے کا تہیہ کر لیا اور اپنی ملازمت کے لیے بالکل الگ راستہ منتخب کیا۔

ایک سے زائد بار انہوں نے مجھ سے ایک بات کہی، جو میرے ذہن میں اٹک کر رہ گئی۔ انہوں نے کہا: زندگی میں کبھی سرکاری نوکری مت کرنا۔ وہ جانتے تھے کہ میں پی ٹی سی ایل میں ملازمت کرتا ہوں۔ دو ہزار آٹھ میں، میں نے وہ جاب چھوڑ دی اور فری لانس ڈرامہ رائٹر کے طور پر کام کرنے لگا اور آج تک یہی کچھ کر رہا ہوں۔ دشواری تو پیش آتی ہے لیکن آزادی بڑی چیز ہوتی ہے۔

بعد میں آصف صاحب گلشن اقبال سے نقل مکانی کر کے ڈیفنس میں منتقل ہو گئے۔ جب میں وہاں ان سے ملنے کے لیے گیا تو باتوں باتوں میں میرے منہ سے نکلا:شادی کے بعد جوائنٹ فیملی میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ نے مسائل کا سامنا کیا ہوگا؟ یہ سن کر وہ مخصوص انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے : اگر میں الگ ہو کر یہاں نہ آتا تو بڑے مسائل ہو جاتے۔

آصف صاحب، ہمہ وقت متحرک رہنے والے ادیب تھے۔ ان کی دلچسپی ادب کے کسی ایک شعبے سے مخصوص نہیں تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ انہیں زیادہ لگاؤ فکشن سے تھا لیکن غزل، نظم، تنقید، ترجمہ، آپ بیتی، خاکے وغیرہ سب چیزوں کو وہ اہم سمجھتے تھے۔ انہوں نے نثری نظم کے سات بہترین شاعروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا، جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شایع کیا تھا۔ ادب کے تمام شعبوں کے حوالے سے ایسا پرجوش، سرگرم اور مستعد میری نگاہوں سے نہیں گزرا۔

آکسفورڈ ادارے کے لیے انہوں نے بہت سی کتابیں ترتیب دیں اور ترجمہ کیں۔ امینہ سید صاحبہ سے تعلق کی بنا پر ان کے ساتھ مل کر آصف صاحب نے کراچی لٹریچر فیسٹول کی بنیاد رکھی اور کئی برس اسے کامیابی سے منعقد کر کے ملک بھر میں ادبی میلوں کی نئی روایت قائم کی، جس سے ادب اور ادیبوں دونوں کا بھلا ہوا۔

میرا ناول ”میرواہ کی راتیں“ آج میں شایع ہوا تو فون کر کے پر جوش انداز میں مبارک باد دی۔ انہیں مجھ سے ایک شکایت تھی، ناول کی تقریب کے دوران بھی انہوں نے جس کا برملا اظہار کیا تھا، اور وہ یہ کہ مجھے زیادہ فکشن لکھنا چاہیے جو شاید میں اب تک نہ لکھ سکا ہوں۔ اسی تقریب میں اجمل کمال صاحب بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کاشف رضا کا ناول ”چار درویش اور کچھوا“ شایع ہوا تو سب سے زیادہ خوشی کا اظہار ان کی جانب سے کیا گیا اور وہ اس کی تعریف کرتے رہے۔

خالد جاوید صاحب کا ناول ”نعمت خانہ“ انہوں نے شہر زاد سے شایع کیا تھا۔ ایک جوش کے ساتھ انہوں نے مجھے پڑھنے کے لیے دیا۔ میں نے پڑھنا مکمل کیا تو ان سے اور کاشف رضا سے بہت تعریف کی۔ کاشف نے ناول پڑھنے کے لیے مانگ لیا اور میں نے بھی اسے دے دیا۔ بعد میں وہ کہنے لگا کہ تم دوسرا لے لینا۔ میں نے جب آصف صاحب سے اس بات کا ذکر کیا تو اگلی ملاقات میں انہوں نے مجھے ناول کی نئی کاپی دے دی۔ لیکن وہ کاپی، عاصم بٹ کراچی آیا تو وہ لے اڑا۔ آصف صاحب جیسا پبلشر دنیا میں شاید ہی گزرا ہو جو اپنے ادارے کی کتابیں دوستوں، پڑھنے والوں میں مفت بانٹا کرتا تھا۔

میں اور اکثر دوست اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ آصف صاحب کے ہاں سب بہت اچھا چل رہا ہے۔ وہ شہر کے پوش علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ یونی سیف کی ملازمت چھوڑ کر وہ حبیب یونی ورسٹی جوائن کرچکے تھے۔ وہاں جانے کے بعد ان کی شوخی گفتار میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ وہاں کبھی اسد محمد خاں، باسودے کی مریم سنا نے کے لیے آ رہے ہیں، کبھی حسن منظر اپنا کوئی افسانہ پڑھنے۔ کبھی عذرا عباس کی نثری نظموں کا ترجمہ کیا جا رہا ہے اور کبھی شمیم حنفی صاحب لیکچر دینے کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔ افضال صاحب، تنویر انجم صاحبہ اور انعام ندیم یونیورسٹی میں ہمہ وقت ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ہم سمجھے بیٹھے تھے کہ آصف صاحب ہمیشہ رہیں گے اور ایسے ہی رہیں گے۔

پھر فیس بک پر ان کی بعض تصویریں دیکھ کر میں ششدر رہ گیا اور سوچنے لگا کہ آصف صاحب کو اچانک کیا ہوگیا؟ ان کے چہرے کی شادابی، آنکھوں کی مخصوص چمک اور لہجے کا غیر متزلزل اعتماد غائب ہوچکے تھے۔ آصف صاحب سے ملنے پر پوچھنے کی ہمت بھی نہ ہو سکی۔ ایک روز یار عزیز عرفان جاوید سے ملنے گیا تو باتوں میں انہوں نے آصف صاحب پر بیتنے والی قیامت کی خبر دی۔ جب یہ ذکر کاشف رضا سے کیا تو اس نے پراسرار طریقے اپنے دو خوابوں کے بارے میں سرسری سا بتایا، جو اس نے آصف صاحب کے بارے میں دیکھے تھے۔ میرے پوچھنے پر بھی اس نے تفصیل نہ بتائی۔

آصف صاحب دوبارہ ڈیفنس سے گلشن اقبال منتقل ہوچکے تھے، ایک کرائے کے گھر میں، جو ان کے آبائی گھر کے قریب ہی واقع تھا۔ اس گھر میں جب ان سے ملا تو عرفان جاوید کی سنائی ہوئی خبر کی تصدیق کرنا چاہی۔ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان پر ڈپریشن کے شدید دورے پڑ رہے ہیں۔ دو بار خودکشی کی کوشش کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ سب اتنے سرسری طریقے سے بتایا کہ میں حیرت سے انہیں تکتا رہ گیا لیکن وہ دوسری طرف دیکھنے لگ گئے تھے۔

وہ اپنے ذاتی معاملات پر کم ہی بولتے تھے اور دوسروں کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ جب ان سے آخری بار مل کر اٹھا تو سوچ رہا تھا کہ پچیس برس پہلے بھی یہی گلشن تھا، لیکن تب یہ اس طائر خوش الحان کی شوخی و طراری سے کیسا گونجتا رہتا تھا، لیکن اب اسے کس کی نظر لگ گئی۔

اس کے بعد تو پوری دنیا کو ہی کسی کی نظر لگ گئی۔ ایک وبا جنگل کی آگ سے بھی تیزرفتاری کے ساتھ ملکوں ملکوں پھیلتی چلی گئی۔ آصف صاحب نے پبلک ہیلتھ میں ڈگری لی ہوئی تھی۔ جب کراچی میں لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو انہوں نے دوسرے ہی دن سے ”تالہ بندی کا روزنامچہ“ لکھنا شروع کر دیا، جو عنقریب کتابی صورت میں شایع بھی ہونے والا ہے۔ عرفان جاوید کے مطابق آصف صاحب گلشن والے کرائے کے گھر میں بے چینی محسوس کرتے تھے۔ دل نہیں لگتا تھا۔ اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ وقت یونیورسٹی میں رہنے کی کوشش کرتے۔ دیر تک بیٹھ کر پڑھتے رہتے تھے۔

آج انعام ندیم فون پر کہہ رہا تھا کہ اگر یونیورسٹی بند نہ ہوتی، تو مجھے یقین ہے کہ آصف صاحب ہمارے درمیان ہوتے۔ لیکن ایک بڑا صدمہ ہم سب دوستوں کے لیے یہ ہے کہ وہ اب ہماری تحریریں نہیں پڑھ سکیں گے۔ ہم ہمیشہ کے لیے کتابوں پر ان کی بیش قیمت رائے سے محروم ہو گئے اور یہ محرومی چھوٹی محرومی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments