تارکین وطن غدار ہیں یا مظلوم؟


انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ انہوں نے شہریت ترک کر دی۔ وہ ہمارے مقامی معاملات میں دخل نا دیں۔ جو لوگ ملک میں رہ رہے ہیں، ان کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہوں نے ملک کیسے چلانا ہے، جو اسے چھوڑ کر چلے گئے ہیں وہ کس منہ سے اس کے معاملات میں بولتے ہیں۔ تارکین وطن اگر غدار نہیں بھی ہیں تو ان کا کم از کم درجہ ملک سے بیزاری رکھنے والوں کا ہے۔ ہم ہی اصل محب وطن ہیں جو مواقع ہونے کے باوجود باہر امیگریشن لینے سے انکاری ہوئے ہیں اور ملک میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔

بات یہ ہے کہ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ملک چھوڑ کر کیوں گئے تھے؟ کسی کو روزگار کا مسئلہ تھا۔ کسی نے اپنی جان بچانی تھی۔ کسی نے اپنی عزت بچانی تھی۔ کسی نے پراسرار طور پر غائب ہونے کی بجائے حاضر رہنے کو ترجیح دی۔ کسی نے اپنی نسلیں بچانی تھیں اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اولاد کو بھی وہی سب کچھ سہنا پڑے جو انہوں نے برداشت کیا تھا۔ انہوں نے سسٹم کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور کہا کہ ہماری زندگی میں تو یہ درست نہیں ہو گا، ہم میں اتنی طاقت نہیں ہیں کہ اسے بدل سکیں، تو اپنا دیس چھوڑ جاتے ہیں۔

دوسرے ملک میں جائیں تو آدمی دوسرے نمبر کا شہری بن کر ہی رہتا ہے۔ خواہ کاغذوں میں وہ برابر ہو، لیکن مقامی نسلیں اسے گھس بیٹھیا ہی سمجھتی ہیں۔ بڑے سے بڑے مہذب کہلانے والے ممالک میں یہ رویے دیکھنے میں آتے ہیں۔ نام کے ساتھ محمد دیکھ کر جاب انٹرویو کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ رنگت دیکھ کر انکار کر دیا جاتا ہے۔ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ گلی کوچوں میں بھی سفید فام نسل پرست برا سلوک کر سکتے ہیں۔

یعنی اپنے ملک سے باہر جا کر اچھا کھانے پینے کو مل جاتا ہے، قانون کا تحفظ بھی ملتا ہے، بندہ جھاڑو پوچا لگا کر بھی گاڑی رکھ سکتا ہے، اچھے گھر میں رہتا ہے اور وطن عزیز کی طرح مرغا بننے کی بجائے اسے کھاتا ہے، لیکن تعصب کا سامنا بہرحال کرنا پڑتا ہے۔

لیکن انہیں اگر اپنے وطن میں ہی اچھا روزگار مل رہا ہوتا، سیاسی یا باطنی حکومت سے خوف نا ہوتا، بدمعاشوں اور طاقتوروں سے اسے قانون بچاتا، اسے اچھی تعلیم اور صحت کی سہولت حاصل ہوتی، ہجوم کے انصاف کی بجائے مملکت کا انصاف مل رہا ہوتا، تو وہ ملک چھوڑ کر باہر کیوں جاتا اور وہ زندگی کیوں گزارتا جو ایک نسلی اقلیت کا نصیب ہوتی ہے؟

پاکستان کے معاملات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دخل دینے کی وجہ ان کے دل سے اٹھتی وہی ہوک ہے کہ کاش ہمیں اپنا وطن نا چھوڑنا پڑتا، کاش ہم پردیسی نا بنتے۔ کاش ہمارا ملک ہمیں ایک اچھی زندگی دے سکتا۔ کاش وہ اتنا اچھا ہو جائے کہ ہم اپنی اصل کی طرف پلٹ جائیں۔ ہمیں اپنے عزیزوں، دوستوں، اپنے بچپن، اپنی جوانی اور اپنی یادوں سے ناتا نا توڑنا پڑے۔

ان کے وطن سے باہر جانے کا سبب ہمارا یہی نظام ہے اور یہی حالات ہیں۔ وہ معصوم تو پورے خلوص سے یہی چاہتے ہیں کہ جو لوگ یہاں رہ رہے ہیں، وہ ویسی ہی خوشحالی اور قانونی برابری کی زندگی گزاریں جیسی ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ وہ ملک کے غدار نہیں ہیں بلکہ ملک سے محبت رکھتے ہیں اور ان کا حال وہی ہے جو محبوب سے بچھڑ جانے والوں کا ہوتا ہے۔

ہاں یہ بات میری رائے میں درست ہے کہ انہیں اپنے ملک سے کٹنے کے سبب یہاں کے حالات کا ویسا اندازہ نہیں ہوتا جیسا یہاں رہنے والوں کو ہوتا ہے۔ جیسے ایک دیہاتی شہر میں جا کر بے وقوف بنتا ہے اور ایک شہری دیہات میں جا کر الو دکھائی دیتا ہے، ویسے ہی بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی بعض معاملات میں ماحول سے اپنی ناواقفیت کے سبب اپنی بے خبری دکھا جاتے ہیں۔ لیکن ان پر اعتراض کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی واپس آ گئے تو ملک اس زرمبادلہ سے محروم ہو جائے گا جو وہ بھیجتے ہیں۔

ہاں جو سب رشتے ناتے توڑ کر مستقل غیر ملکی ہو گئے ہیں، ملک کو ایک ڈالر یا درہم دینار نہیں بھیجتے، ان کے واپس آنے یا نا آنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ وہ خواہ کتنے ہی زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ یا باہنر کیوں نا ہوں، ان کے ساتھ ہونا وہی ہے جو ملک میں مقیم اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند لوگوں کے ساتھ نا اہل مقتدر کر رہے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1545 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments