تعلیم سب کا حق ہے


تعلیم نسلیں سنوار دیتی ہے۔ مستقبل روشن بنا دیتی ہے اور جینے کا ہنر سکا دیتی ہے۔ ترقی کا دار و مدار تعلیم پر ہے۔ اندلس کی عظیم سلطنت تعلیم کے بل بوتے پر بنی۔ بغداد کو اہمیت اور عزت تعلیم کی وجہ سے ملی۔ مسلمانوں نے ترقی علم کی بدولت حاصل کی۔ عرب کے صحراؤں میں رہنے والے اور جہالت میں ڈوبے عرب علم کی بدولت دنیا کے امام بن بیٹھے۔ اسی طرح اہل یورپ زمانہ جاہلیت میں رہ رہے تھے۔ مگر جب اہل یورپ نے مسلمانوں کی ترقی دیکھی تو ان میں علم حاصل کرنے کا جنون اس قدر شدت سے جاگا کہ وہی اہل یورپ جن کو زندگی کا شعور نہیں تھا وہ دنیا کی ترقی یافتہ قوم بن بیٹھے۔

موجودہ دور میں بھی ترقی اور خوشحالی کا انحصار تعلیم پر ہی ہے۔ امن و امان اور محبت کا انحصار تعلیم پر ہی ہے۔ مگر تاریخ کو پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ جو تھوڑی بہت توجہ دی گئی ہے تو وہ صرف چند علاقوں میں دی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لاہور شہر میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کی بہتات ہے۔ ہر گلی محلے میں سکول کالج ہیں جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ مگر کیا پاکستان کے باقی شہریوں کا تعلیمی حق نہیں ہے؟

لاہور میں تقریباً 36 یونیورسٹیاں اور تقریباً 30 میڈیکل کالج ہیں اور سکول تو لا تعداد ہیں۔ اسی طرح وفاقی دارالحکومت میں 23 یونیورسٹیز ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جنوبی پنجاب کے 18 اضلاع میں صرف 10 یونیورسٹیاں ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں صرف 8 یونیورسٹیاں ہیں۔ اس طرح خیبر پختون خواہ اور سندھ میں بھی تعلیمی اداروں کا فقدان ہے۔ سکول سسٹم کو دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب، خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور سندھ میں حالت تشویشناک ہے۔

روہی کے باسیوں تک، کولاہو کے پہاڑوں تک، وزیرستان کی تنگ وادیوں میں اور تھر کے صحرا تک تعلیم پہنچانا فرض ہے اور تعلیم حاصل کرنا یہاں لوگوں کا حق ہے۔ مگر صد افسوس 73 سالوں میں لوگوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں سکول لیول کی تعلیم انتہائی کسمپرسی کا شکار ہے جس کی وجہ سے مہنگے نجی اداروں کا راج ہے۔ غریب تو ہمیشہ سرکاری سکول میں بچوں کو پڑھاتا ہے کیونکہ وہ نجی اسکول کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے اس کا بچہ تعلیم سے محروم رہ جاتا ہے۔

ضلع مظفر گڑھ کی انتہائی پسماندہ تحصیل جتوئی کے ایک شخص نے بتایا کہ ”اس کا بیٹا انجینئر بننا چاہتا ہے مگر وہ پڑھ نہیں سکا کیونکہ سرکاری سکولوں میں کوئی پڑھائی نہیں ہے اور پرائیویٹ سکول میں پڑھانے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔“ اس طرح سے لوگوں کو اپنی اور اپنے بچوں کی خواہشات کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں حالات اس سے کئی گنا ابتر ہیں۔ اس طرح کے حالات اور حقوق کی محرومیوں کی وجہ سے دہشت گردی، انتہا پسندی، قومیت پرستی اور علیحدگی پسند عناصر وجود میں آتے ہیں اور پاکستان کو پچھلے 30 سالوں سے انہی مسائل کا سامنا ہے۔

کبھی بلوچستان میں قوم پرست رہنما علیحدگی کا نعرہ لگاتے ہیں تو کبھی سندھو دیش کا نعرہ لگتا ہے اس کی وجہ محرومیاں ہیں۔ اگر یہ محرومیاں دور کر دی جائیں تو امن اور بھائی چارہ قائم ہو جائے گا۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہماری حکومتوں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج ہم ان مسائل سے دوچار ہیں لیکن پاکستان آرمی نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان آرمی کی طرف سے بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا گیا ہے جن کے تحت صوبے میں سکول، کالج اور ہسپتال بنائے گئے ہیں اور لوگوں کو بنیادی سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔

اسی طرح آرمی نے خیبر پختون خواہ کے دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں اعلیٰ سکول، کالج، یونیورسٹیاں اور ہسپتال قائم کیے ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں کی سوچ میں واضح تبدیلی نظر آئی ہے۔ فوج نے اپنا فرض احسن طریقے سے نبھایا ہے اور وہ ترقی کے لئے وہ کام کیے ہیں جو جمہوری حکومتیں نہیں کر سکیں۔ مگ اس طرف حکومت کو توجہ دینا ہو گی۔ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ ایک دن حکومت حلف اٹھاتی ہے اور اگلے دن حزب اختلاف ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتی ہے اور یوں پانچ سال ایوانوں میں چیخ و پکار کے ساتھ گزر جاتے ہیں اور کوئی بھی تعلیم و ترقی کا سوچتا ہی نہیں ہے۔

مگر اب ہمارے سیاستدانوں کو میچور ہونا پڑے گا اور جمہوری اقدار کو اپنانا پڑے گا اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا جب تک تعلیم عام نہ ہو جائے۔ ہمارے ماہر معاشیات جو کچھ کوشش کر لیں جمہور کی تعلیم و تربیت کے بغیر ترقی کے سفر پر ہم نہیں نکل سکتے۔ 2۔ 3 شہروں میں جدید ترین سہولیات فراہم کرنے سے ترقی نہیں ہو گی بلکہ ترقی اس دن ہو گی جس دن جنوبی پنجاب کے کچے کے علاقے تک، تھر کے صحرا تک، بلوچستان کے پھر خزانوں سے بھرے خشک پہاڑوں تک اور وزیرستان کے بلند و بالا پہاڑوں اور تنگ وادیوں تک تعلیم پہنچے گی اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں تعلیم کو اولین ترجیحات میں شامل کیا جائے گا اور اس سے محرومیوں اور قومیت پرستی کا خاتمہ ہو گا اور پاکستان امن و امان کا گہوارہ بنے گا جہاں ہر طرف محبتیں ہوں گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).