جیو سپیشل انٹیلیجنس: امریکہ سے ملنے والی خفیہ جغرافیائی معلومات انڈیا کے دفائی نظام کو کیسے مضبوط بنا سکتی ہیں؟


پومپیو
انڈیا اور امریکہ کے درمیان رواں ہفتے بنیادی تعاون کا معاہدہ یا ’بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (بی ای سی اے)‘ طے پایا ہے جس کے تحت امریکہ انڈیا کو جیوسپیشیل انٹیلیجنس، یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی خفیہ جغرافیائی معلومات، فوراً فراہم کرے گا۔

یہ پیش رفت انڈیا کے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

بی ای سی اے آٹومیٹیڈ یعنی خودکار میزائل اور مسلح ڈرون جیسے ہتھیاروں کے نشانوں کی وضاحت اور درستگی کو بڑھا سکتا ہے اور اس کے تحت انڈیا کو جدید ترین نقشے اور سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر بھی فراہم کی جائیں گی۔

اگرچہ اس سے قبل بھی انڈیا کے پاس سیٹلائٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کا نظام موجود ہے تاہم یہ ابھی مکمل طور پر فعال نہیں اور اس کا نشانہ اتنا درست نہیں جتنا امریکی مدد سے ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا، امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدے سے چین کی مشکلات میں اضافہ ہو گا؟

امریکہ انڈیا کو پانچ ارب کے روسی میزائل خریدنے دے گا؟

انڈیا اور امریکہ میں کیسا تجارتی معاہدہ ہو سکتا ہے؟

’بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن اگریمنٹ’ کیا ہے؟

یہ معاہدہ رواں ہفتے منعقد ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی ملاقات میں طے پایا جس کے لیے امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو اور سیکریٹری دفاع مارک ایسپر انڈیا آئے تھے۔

یہ حالیہ برسوں میں انڈیا اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے چار بنیادی معاہدوں کے سلسلے کا آخری معاہدہ ہے۔

بی ای سی اے سے پہلے دونوں ممالک کی جانب سے سنہ 2016 میں لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ، 2018 میں کمیونیکیشن کامپیٹیبیلیٹی اینڈ سکیورٹی ایگریمنٹ اور 2019 میں انڈسٹریل سکیورٹی اینیکس جو 2019 پر دسخط کیے گئے۔ یہ آخری معاہدہ 2002 میں طے پانے والے جنرل سکیورٹی آف ملٹری انفارمیشن ایگریمنٹ کی توسیع تھی۔

فوجی

جیوسپیشیل انٹیلیجنس کیا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے؟

ہم روز مرہ کی زندگی میں سمارٹ فن کے ذریعے اپنی لوکیشن تلاش کرنے یا راستہ ڈھونڈنے کے لیے جو جی پی ایس لوکیشن سسٹم استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بھی آپ کو بالکل درست نتیجہ نہیں دے پاتا اور آپ کو اکثر اپنے حقیقی مقام یا لوکیشن سے دائیں بائیں ظاہر کرتا ہے۔ جی پی ایس کے ذریعے کسی کی لوکیشن جاننے کے لیے عام طور پر تین سے چار سیٹلائیٹ کا استعمال ہوتا ہے۔

تاہم جب بات جنگی ہتھیاروں کی ہو تو ذرا سی بھی چوک سے نشانہ خطا ہوسکتا ہے اور اتنا سیدھا نشانہ لگانے کے لیے، جیسا کہ فوجی ڈرون کو اپنے ہدف کو تلاش کرنے کے لیے چاہیے ہوتا ہے، تقریباً ایک درجن سیٹلائٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

عالمی سطح پر امریکہ، روس، یورپ اور چین کے پاس اپنے جیو انٹیلیجنس سیٹلائٹ نظام ہیں جن کی مدد سے وہ دنیا پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہ چاروں ایک دوسرے سے سائنسی اور تکنیکی معلومات بانٹتے ہیں لیکن کوئی خاص معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں فوجی راز نہیں شیئر کیے جاتے۔

ملند کلشریشٹھ انڈین بحریہ میں کمانڈ کنٹرول کمیونیکیشن کمپیوٹر اینڈ انٹلیجنس سسٹم کے ماہر ہیں۔ بی ای سی اے کے تکنیکی پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں: ’فرض کریں کہ آپ کا ہدف انڈین فضائی حدود میں پرواز کر رہا ہے۔ اگر آپ کے پاس دہلی اور چنئی میں ریڈار سسٹم ہیں تو یہ دونوں ہدف کے مقام کی الگ ریڈنگ بتائیں گے اور جب دونوں ریڈار کے اعداد و شمارہ کو ایک مرکزی نظام میں لایا جائے گا تو دونوں ریڈار درستگی میں خلل کے باعث ہدف کے عین مقام کا اندازہ غلط نکلے گا۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی دیر میں آپ ریڈار سے حاصل ہونے والی معلومات کو درست کر رہے ہوں گے، آپ کا ہدف کہیں اور ہوگا۔ ان کے مطابق اس طرح کے معاملات میں ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر سے نشانہ چوک سکتا ہے۔

ملند کے مطابق انڈیا کے سیٹیلائٹ اور ریڈار نظاموں میں بہتر ربط کے لیے ’ہر نظام کو ایک ہی زبان میں بات کرنی چاہیے۔‘

ان کے مطابق بی ای سی اے ایسی ایک مشترکہ زبان فراہم کرتا ہے جو کہ انڈیا کے پرانے سیٹلائٹ اور ریڈار کے نظام کے لیے کرنا مشکل ہے اور اس معاہدے سے ملک کے پورے فوجی نظام میں اب جغرافیائی اعداد و شمار کا حساب لگانے ایک طریقہ کار رائج ہو جائے گا جس سے انڈیا کی زمینی، فضائی اور بحری افواج، سب کو فائدہ ہوگا۔

چین کا آس پاس کے سمندر پر پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے انڈیا اور بہت سے دوسرے ممالک سمندر میں چینی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھنے کے خواہاں ہیں۔

او آر ایف میں امریکی اقدام کے ناظم دھرو جے شنکر کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کا پہلا استعمال ‘ممکنہ طور پر بحری حلقے جس میں خاص طور پر بحر ہند اور پھر مغربی بحر الکاہل ہیں میں کیا جائے گا۔’

وہیں جوہری اور خلائی حکمت عملی کی ماہر راجیسوری راج گوپالن کا کہنا ہے کہ خفیہ نقشے اور اس قسم کی اور چیزیں موجودہ حالات کو سمجھنے میں انڈیا کی صلاحیتوں کو بہتر کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر آپ چین-انڈیا سرحد کی بات کریں تو یہ معاہدہ آپ کو یہ سمجھنے میں مدد کرے گا کہ سرحد پر کیا ہورہا ہے اور زمینی سطح پر کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اور یہی باتیں انڈیا پاکستان محاذ پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ان چاروں بنیادی معاہدوں نے انڈیا اور امریکہ کے درمیان دفاعی اور سلامتی کے تعاون کو مضبوط بنایا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ انڈیا امریکہ سے جو جنگی طیارے خریدتا تھا وہ ہمیشہ ‘ایک سطح نیچے’ ہوتے تھے کیونکہ ان میں اس سطح کا سینسر اور اس قسم کی چیزیں نہیں ہوتی تھیں۔

لیکن ‘اب ایک بنیادی معاہدے نے انڈیا کو امریکہ سے جدید اور بہتر نظام کو حاصل کرنے میں مدد کی ہے۔’

انڈیا اس معاہدے پر کئی سالوں سے دستخط کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی تفصیلات پر دونوں ملکوں میں اختلافات تھے۔ بی ای سی اے معاہدے پر اب دستخط تو ہو چکے ہیں لیکن تفصیلات ابھی تک عام نہیں کی گئیں ہیں۔

یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب لداخ میں انڈیا اور چین سنگین سرحدی تنازعے میں الجھے ہوئے ہیں۔ انڈیا اور چین کے درمیان تقریباً 3,500 کلومیٹر لمبی سرحد ہے اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان بھی تقریباً اتنی ہی لمبی سرحد ہے۔ لیکن یہ معاہدہ انڈیا کو اس کی سرحد سے آگے تک جانے کی صلاحیت دے گا۔

لیکن کیا یہ معاہدہ انڈیا اور چین کے مابین طاقت کے توازن کو دوسری طرف جھکا سکتا ہے؟

دھرو جے شنکر نے اسے ‘انڈیا-امریکہ دفاعی شراکت داری کی ایک مضبوط بنیاد’ کہا ہے۔ لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘کوئی بھی ایک معاہدہ بنیادی طور پر انڈیا اور چین کے مابین طاقت کے توازن کو نہیں بدل سکتا۔ وہ بنیادی طور پر دونوں ملکوں کے متعلقہ وسائل پر مبنی ہوگا۔ تاہم مجموعی طور پر انڈیا-امریکہ شراکت داری نے انڈیا کی چین کے ساتھ اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کی صلاحیت کو بہت بہتر بنا دیا ہے۔’

راجیسوری امریکی انتخاب سے صرف ایک ہفتہ قبل انڈیا اور امریکہ کے مابین مذاکرات کو ‘دونوں دارالحکومتوں نئی دہلی اور واشنگٹن ڈی سی سے سیاسی پیغام’ کی ایک شکل بتاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ عام حالات میں انڈیا 2+2 جیسے اعلیٰ سطح کے مکالمہ کرنے سے پہلے امریکی انتخاب ختم ہونے اور نئی انتظامیہ کے آنے کا انتظار کرتا۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ‘انڈیا اور چین کی سرحد پر عدم استحکام کی صورت میں انڈیا اور امریکہ کے درمیان 2 + 2 حکمت عملی سے متعلق بات چیت ‘چین کے لیے واضح پیغام ہے کہ ہم اپنے رشتے کو آگے بڑھا رہے ہیں، اس میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔ اور یہ کہ اب امریکہ ایک لحاظ سے ہماری حکمت عملی سے متعلق شراکت داری کا ایک اہم ستون ہوگا۔’

ماہرین کا خیال ہے کوئی ایک معاہدہ طاقت کے توازن کو نہیں بدل سکتا ہے لیکن بی ای سی اے انڈیا اور امریکہ کے دفاعی تعلقات کے ساتھ ساتھ انڈیا کی متنازع سرحدوں پر اس کے ردعمل کے اظہار کے طریقوں پر اہم اثر ڈالے گا۔

دفاعی امور میں دلچسپی رکھنے والی پاکستانی تجزیہ کار اعجاز حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ: ‘بی ای سی اے کا معاہدہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پائپ لائن میں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا کی جانب سے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اس پر پیش رفت نہ ہو سکی تھی۔ لیکن چین کے ساتھ تناؤ کی وجہ سے اس میں تبدیلی آئی ہے۔ اس سے انڈیا کی فوجی صلاحیت میں بہتری آئے گی اور اسے اپنے ٹارگٹ کی شناخت کرنے، ان کو حاصل کرنے اور اپنے علیحدہ پلیٹ فارم اور سسٹم کو مشغول کرنے میں مدد ملے گی، بطور خاص جنگی محاذ کے بارے میں ریئل ٹائم یعنی بروقت معلومات کامیابی کی کلید ہوگی۔ یہ پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ہے کیونکہ ان صلاحیتوں کو یقینی طور پر مغربی محاذ پر کام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘وزارتی سطح کے ‘ٹو پلس ٹو’ مذاکرات نے امریکہ اور انڈیا کے درمیان جامع عالمی اسٹریٹجک شراکت داری کے اگلے اقدامات بھی مرتب کیے ہیں۔ انڈیا اس کو کس طرح دیکھتا ہے اس پر انحصار کرتے ہوئے دہلی اب واشنگٹن کے ساتھ ایک جونیئر پارٹنرشپ میں ہے اور اسے ایشیا پیسیفک کے خطے میں امریکی مفادات کو سہولیات فراہم کرنے اور پیش قدمی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ کے بنیادی مفادات کے پیش نظر اور غیر ملکی و سلامتی کی پالیسیوں کے بارے میں اس کی آزادی و خودمختاری جاتی رہے گی۔ یعنی سودے بازی ہوگی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32667 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp