بی جے پی رہنما کی جانب سے ناتھورام گوڈسے کی حمایت، گاندھی اور ان کے قاتل کے حامیان میں سوشل میڈیا پر ٹھن گئی


گوڈسے
گوڈسے کو مہاتما گاندھی کو گولی مار کر قتل کرنے کے جرم میں 15 نومبر سنہ 1949 میں امبالہ میں پھانسی ہوئی تھی
انڈیا میں ایک بار پھر مہاتما گاندھی اور اُن کے قاتل ناتھورام گوڈسے کے حوالے سے مباحثہ جاری ہے۔

جہاں ملک کے زیادہ تر شہری ’بابائے قوم‘ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں، وہیں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو گاندھی کے قاتل کو وطن پرست مانتا ہے، ان کا یوم پیدائش اور برسی مناتا ہے۔ گذشتہ روز، یعنی 15 نومبر کو، ناتھو رام گوڈسے کی پھانسی کی برسی تھی۔

گوڈسے کو مہاتما گاندھی کو 30 جنوری سنہ 1948 میں گولی مار کر قتل کرنے کے جرم میں 15 نومبر سنہ 1949 میں امبالہ میں پھانسی ہوئی تھی۔

اسی روز انڈیا کی وسطی ریاست آندھر پردیش میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ریاستی سیکریٹری رمیش نائڈو ناگوتھو نے گوڈسے کی تعریف کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کی جس میں انھوں نے لکھا: ’آج ان کی برسی پر میں ناتھو رام گوڈسے کو احسان مندی کے ساتھ سلام پیش کرتا ہوں۔ وہ بھارت بھومی (سرزمین ہند) پر پیدا ہونے والے سچے اور عظیم ترین وطن پرستوں میں سے ایک تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: سادھوی کی فائرنگ سے باراتی کی موت

گاندھی کے قاتل کو محبِ وطن قرار دینے پر تنازع

گاندھی کے قتل کی ڈرامائی عکاسی کرنے پر ہندو مہا سبھا کی رہنما گرفتار

ان کی ٹویٹ کو سوشل میڈیا پر جب شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو انھوں نے اس ٹویٹ کو ہٹا دیا اور شام کو تیلگو زبان میں یہ ٹویٹ بھی کیا کہ ’جس آئی ٹی سیل والے کی جانب سے یہ غلطی ہوئی تھی اسے ان کے کام سے ہٹا دیا گیا ہے۔‘

ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں کئی صارفین نے لکھا کہ جب پہلی ٹویٹ انگریزی زبان میں کی تھی تو وضاحت بھی انگریزی میں ہی ہونی چاہیے۔

بی جے پی اور گوڈسے

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بی جے پی کے کسی رہنما کی جانب سے گوڈسے کے حق میں بات کہی گئی ہو یا انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا ہوا۔

اس سے قبل سنہ 2019 میں متواتر اس قسم کی باتیں سامنے آئیں جب ناتھورام گوڈسے کی تعریف و توصیف کی گئی۔

انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے 17 مئی 2019 کو اپنی پارٹی کے ارکان کے خلاف تادیبی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کیا تھا۔

ہندی زبان میں کیے جانے والے اس ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: ’ان لوگوں نے اپنے بیان واپس لے لیے ہیں اور معافی مانگی ہے۔ تاہم عوامی زندگی اور بی جے پی کے وقار اور نظریے کے مخالف ان بیانوں کو پارٹی نے سنجیدگی سے لیا ہے اور تینوں بیانوں کو ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ تینوں رہنماؤں سے جواب طلب کر کے دس دنوں میں مطلع کی جانے کی بات انھیں بتائی گئی ہے۔

اسی زمانے میں پارلیمانی انتخابات کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس کے متعلق سخت موقف اپنایا تھا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں، یہ نہیں پتا چل سکا۔

سوشل میڈیا پر بحث

گذشتہ روز جہاں بڑے پیمانے پر بی جے پی رہنما کی ٹویٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں کچھ لوگ ان کی بات سے متفق نظر آئے۔

پنکج پرشانت نامی ایک ٹوئٹر صارف، جنھوں نے اپنی پروفائل پکچر کی جگہ معروف صحافی ارنب گوسوامی کی تصویر لگا رکھی ہے، نے ‘ناتھو رام گوڈسے امر رہے‘ کے ہیش ٹیگ کے تحت لکھا: ’انھوں نے ملک کو منافق گاندھی کو گولی مار کر بچایا۔ ہم ہمیشہ ناتھورام گوڈسے جی کو ملک کے لیے عظیم ترین قربانی دینے کے لیے یاد رکھیں گے۔‘

سخت گیر ہندو نظریات کے حامیوں نے ‘ناتھو رام گوڈسے امر رہے’ اور ‘ناتھورام گوڈسے زندہ باد’ ہیش ٹیگ کو کافی دیر تک ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رکھا۔

پیر کی صبح بھی ’ناتھو رام گوڈسے امر رہے‘ کے تحت 21 ہزار سے زیادہ ٹویٹس کیے گئے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ایک ہی ساتھ گاندھی اور گوڈسے دونوں کی شان میں قصیدے کیسے پڑھ سکتے ہیں۔

راکیش شرما نامی فلم ساز نے لکھا کہ آندھر پردیش میں بی جے پی کے سیکریٹری ایک جانب تو گوڈسے کو ’آج تک کا پیدا ہونے والا عظیم ترین محب وطن‘ کہتے ہیں اور دوسری جانب مہاتما گاندھی کو ’آزادی کی لڑائی کا عظیم ہیرو کہتے ہیں۔‘ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ یہ ’نظریاتی ذہنی خلل ہے؟ یا پھر سیاسی منافقت ہے؟‘

انجینیئر رشمی نامی ایک صارف نے ’ناتھورام گوڈسے امر رہے‘ کے تحت لکھا کہ ’نہ بھائی یہ تو غلط ہے ہم کسی قاتل کے لیے یہ نعرہ نہیں لگا سکتے چاہے وہ کوئی ہو۔ صرف ہمارے مجاہد آزادی اور ملک کی حفاظت کرنے والے امر رہیں۔‘

سخت گیر ہندو تنظیم ہندو مہا سبھا کھل کر گوڈسے کی تعریف کرتی ہے اور وہ کئی جگہ گوڈسے کا مجسمہ لگانے کا مطالبہ بھی کرتی رہی ہے۔

گذشتہ سال ان کی ایک رہنما کو گاندھی کے قتل ڈرامائی عکاسی کے لیے گرفتار کیا گیا تھا جب مہاتما گاندھی کی 70ویں برسی پر انھوں اس کا ایک ویڈیو جاری کیا تھا۔

اس کے بعد جب فلم ساز کمل ہاسن نے گوڈسے کو انڈیا کا پہلا دہشت گرد کہا تھا تو بی جے پی کی رکن پارلیمان پرگیا سنگھ ٹھاکر نے انڈین تحریکِ آزادی کے رہنما موہن داس گاندھی کے قاتل کی حمایت کرتے ہوئے انھیں ‘دیش بھگت’ یا ‘محبِ وطن’ قرار دیا تھا۔

کمل ہاسن کے بیان کا جواب دیتے ہوئے پرگیا سنگھ ٹھاکر کا کہنا تھا ‘ناتھو رام گوڈسے دیش بھگت تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان کو دہشت گرد کہنے والے لوگ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان انتخابات میں ایسی باتیں کرنے والے لوگوں کو جواب دے دیا جائے گا۔ اور ان کی جیت کی صورت میں یہ جواب مل گیا کہ ان کے خیالات کے حامیان بہت سے ہیں۔

گذشتہ روز صحافی اور کارکن پرشانت کنوجیا نے لکھا تھا: ‘آزاد ہندوستان کے پہلے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے کو 15 نومبر کو پھانسی دی گئی تھی۔ انھوں نے مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے مسٹر گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ گرچہ ہم سزائے موت کے حق میں نہیں ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گوڈسے پہلا دہشت گرد تھا۔’

مختلف گوشوں سے بی جے پی کے رہنما کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ہوا ہے جس میں کانگریس کی صوبائی اکائیاں بھی شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32732 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp