لڑکیوں کی تنگ جینز، زلزلے اور بزرگوں کے تبصرے



ہم بچپن میں بڑوں بوڑھوں سے سنا کرتے تھے کہ زمین کو ایک بیل نے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب بیل تھک ہار کر زمین کو ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر منتقل کرتا ہے تو اسی لمحے زمین ہلنے لگتی ہے اور زلزلہ آتا ہے۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ہم پر یہ حقیقت اچھی طرح آشکار ہو چکی ہے کہ زلزلوں کے آنے کا وہ سبب نہیں جو بچپن میں بڑے یا بزرگ بیان کیا کرتے تھے۔ ویسے بزرگوں کو ہمارے مشرقی معاشرے میں بڑا اہم مقام حاصل ہے۔

ایک محترم لکھاری کے مطابق ”کسی“ بزرگ نے لڑکیوں کی چست جینز کو زلزلوں کی بنیادی وجہ قرار دے ڈالا ہے۔ موصوف کو شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ بزرگوں کا کام حسیناؤں کے کپڑوں کا پوسٹ مارٹم کرنا نہیں ہے۔ بھلا ان کو اس طرح کی گستاخی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خواتین کورے لٹھے کے پاجامے پہنیں یا تنگ جین زیب تن کریں بزرگوں کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ان کے لباس پر تنقید کرتے پھریں۔ ہو سکتا ہے کسی ایک منچلے بزرگ نے ایسی گساخی کر ڈالی ہو لیکن بزرگوں کی اکثریت اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ ان بیچاروں کو ان جھگڑوں میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے بھلا۔

اگر سوچا جائے تو آج کل کے بزرگ حضرات بڑے کام کی چیز بن چکے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ بغیر معاوضے کے ماسیوں والا کام بھی کرتے ہیں۔ بہو بیگم کو اگر بیوٹی پارلر یا پڑوس میں کسی سہیلی کے پاس گپ شپ کے لئے جانا پڑے تو اس کے بچے سنبھالنا، ٹوکری اٹھا کر بازار سے سودا سلف لانا، دودھ ابالنا اور اس طرح کے چھوٹے موٹے گھریلو امور نمٹانا بزرگوں کی ذمہ داری میں شامل کر دیے جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے جب ان کے کھانے کا وقت ہوتا ہے تو وہ کمرے میں اس انتظار میں بیٹھے دروازے کو یاس بھری نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اب، تب اور کب کھانا آئے گا اور وہ پیٹ پوجا کر سکیں اور پیٹ میں دوڑتے ہوئے چوہوں کو کچھ آرام مل سکے۔ کھانے کے اوقات میں وہ مکمل طور پر بہو بیگم کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل اکثر رنڈوے بزرگوں کو زیادہ فیس کرنے پڑتے ہیں۔ یہ ہر دوسرے گھر کا کڑوا سچ ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک بیوہ خاتون رہتی ہیں۔ ان کی اکلوتی صاحبزادی جب میری زوجہ محترمہ کو ملنے آتی ہے تو اپنے سسر جو کہ ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں، کے خلاف شکایتوں کا انبار لگا دیتی ہے۔

آنٹی وہ وقت بے وقت اپنے کمرے سے آوازیں دینے لگتے ہیں۔ کبھی باورچی خانے میں گھس کر ہانڈی میں چمچے چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ یا وہ رات دیر تک کھانستے رہتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو کہ ان صاحب کی اہلیہ حیات ہیں۔ ورنہ وہ کب کا ان کو کھڈے لائن لگا چکی ہوتی۔ اگر نیک نیتی سے سوچا جائے تو گھروں، محلوں اور سوسائٹی میں بزرگوں کے دم سے بہت رونق اور خیر و برکت ہے۔ اگر کسی گھر میں ان کا استحصال بھی ہو رہا ہو۔ تب بھی وہ کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائیں گے بلکہ وہ صبر و شکر کے ساتھ حالات کے ساتھ گزارا کرتے رہیں گے۔

صنف نازک کی جینز یا جدید لباس کو زلزلوں کی واحد وجہ قرار دینا شاید درست نہ ہو بلکہ اس میں چند دیگر عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں جو قدرت کے غضب کی وجہ بنتے ہیں، جن کا ذکر بعد میں کرتا ہوں۔ پہلے دور جدید کے فیشن کے بارے میں کچھ باتیں ہو جاہیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔

آج کل کے ماڈرن دور میں جدید فیشن کے لباس، زیورات اور جوتوں وغیرہ کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ خواتین کی جینز، ٹراؤزر یا ٹائٹس پہننا اب عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ ہم جیسے بڑی عمر کے لوگ اب اسے بالکل برا نہیں سمجھتے بلکہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اپنے آپ کو جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف خواتین موجودہ دور کے فیشن سے اغماض برتنے کو دقیانوسی سوچ سے تشبیہہ دیتی ہیں۔ بقول ان کے اگر ماڈرن تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو adjust نہ کیا جائے تو خاندان اور محلے والے طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کو اپنی ناک بھی تو اونچی رکھنی پڑھتی ہے۔

شادیوں میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی سج دھج تو دیکھنے والی ہوتی ہے۔ ساڑھی، لہنگے، چوڑی دار پاجامے اور زرق برق لباس میں ملبوس نوجوان لڑکیاں اور دیگر خواتین شادی کی محفل کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ اب تو مہندی، بارات اور ولیمے کی مووی بنانے کا رواج بھی عام ہو چکا ہے جیسے ڈراموں اور فلموں میں ہیرو اور ہیروئن کی شادی دکھائی جاتی ہے۔ اسی لئے ایک ڈائریکٹر کو ہائر کیا جاتا ہے جو دولہا، دلہن اور دیگر رشتے داروں کو ڈراموں کی طرح اٹھنے، بیٹھنے اور چلنے کے طریقے سکھاتا ہے تاکہ وڈیو ہو بہو ڈرامے کی کاپی لگے۔ دولہا اور دلہن جب ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے خراماں خراماں سٹیج کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ منظر دیکھنے والا ہوتا ہے۔

مختلف تقاریب جن میں مہندی اور بارات کے فنکشن شامل ہیں، میں دونوں اطراف کی لڑکیاں اور خواتین ڈانس کرتی ہیں۔ علاقائی رقص کے ساتھ مغربی ڈانس کا تڑکا بھی لگایا جاتا ہے۔ لڑکے اور لڑکی والوں کی طرف سے خوب موج مستی اور ہلہ گلہ ہوتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی طرح شادی میں بس پھیرے نہیں لگائے جاتے۔ باقی تمام رسمیں تقریباً  اسی طرح کی ہوتی ہیں۔ آخر روز روز شادیاں تو نہیں ہوتیں۔ لہٰذا دل کے سارے ارمان پورے کرنے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔

رسم و رواج اور فیشن اپنانے میں ہم کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اس میدان میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔

جہاں تک بزرگوں کی طرف سے خواتین کی تنگ جینز یا چست لباس کو زلزلوں کی وجہ قرار دینے کا تعلق ہے۔ اس پر کوئی مستند مفتی یا عالم دین ہی بہتر تبصرہ کر سکتا ہے۔ بزرگ اپنی ناقص رائے کا اظہار کرتے اچھے نہیں لگتے۔ ویسے جب زلزلہ آتا ہے تو جوان، بوڑھے، خواتین اور لڑکیاں سب بھاگ کر سڑکوں، گلیوں اور کھلی جگہ کا رخ کرتی/ کرتے ہیں۔ اس لمحے سب کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ زلزلے کیوں اور کس وجہ سے آتے ہیں۔ لیکن جب یہ لمحات گزر جاتے ہیں، اس وقت ہر کوئی انجان بن جاتا ہے اور بات بزرگوں پر ڈال کر سب بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

احادیث مبارکہ کے مطابق زلزلے، قحط، وبائیں اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا اصل سبب اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی ہے۔ جس کی وجہ سے مالک دوجہاں کا غضب جوش مارتا ہے۔ جب کسی علاقے میں برے اعمال حد سے بڑھ جاہیں تو قدرت کی طرف سے اس طرح کی قدرتی آفات نازل کی جاتی ہیں اور ان کا مقصد لوگوں کو برے اعمال سے باز رکھنے کے لیے تنبیہہ ہوتی ہے۔

نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرامؓ سے زلزلے آنے کے جو اسباب منقول ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: زنا اور عصمت دری کا عام ہونا، سود اور شراب نوشی، ناچ گانے کو اپنا مشغلہ بنانا، کسی فاسق آدمی کا قبیلے کا سردار بننا یا کسی رزیل اور کمینے آدمی کا علاقے کا سربراہ بننا، بیٹے کی طرف سے والد کی جگہ دوست کو ترجیح دینا۔ اس کے علاوہ لوگوں کا برے اعمال کو جائز اور وقت کی ضرورت سمجھنے لگنا۔

اگر برائی اور ظلم حد سے بڑھنا شروع ہو جائے تو زلزلے، شدید آندھی، طوفانی بارشیں اور سیلاب اس بستی، شہر اور علاقے پر آفت بن کر نازل کر دیے جاتے ہیں۔

ہم بڑے بے رحم اور سنگدل معاشرے کے باسی ہیں۔ ہمارا پیارا وطن اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ نفسانی خواہشات اور لالچ نے ہمیں اندھا کر دیا ہے۔ زر اور زمین کی ہوس میں خونی رشتے بھی سفید ہو چکے ہیں۔ چار، پانچ سے لے کر دس سال کی معصوم بچیاں ظالم اور وحشی درندوں کے ہتھے چڑھ کر نہ صرف ریپ کا شکار ہو جاتی ہیں بلکہ ظالم اور وحشی ان کو بڑی سفاکی سے قتل بھی کر دیتے ہیں۔ ان نازک کلیوں کو جنسی معاملات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ وہ نا سمجھ جو ہوتی ہیں، ان کے تو کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ مریم جیسی لڑکیاں جو حصول علم کے لئے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو بگڑے ہوئے نوجوان ان کو ورغلا کر اپنی ہوس کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ اس بے رحم معاشرے میں ظلم و بربریت کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں جو بڑے بڑوں کو خون کے آنسو رلا دیتی ہیں۔ اس طرح کے ظلم، زیادتی اور جبر کے حالات میں زلزلوں کا آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ آخر میں صوفی غلام تبسم کا ایک قطعہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔

جو سفر بھی تھا زندگانی کا
یونہی بے رسم و راہ ہم نے کیا
خود گناہوں کو شرم آئی ہے
ایسا ایسا گناہ ہم نے کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments