شیخ مجیب الرحمن غدار نہیں تھا


50 برس بیت گئے، ملک دو لخت ہوگیا، دسمبر شروع ہوتے ہی ملک ٹوٹنے پر ٹسوے بہائے جاتے ہیں، کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا، وہی پرانی چال ، ڈھال، طریقہ واردات جاری ہے، ملک تباہی کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے مگر اب تک محب وطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا سلسلہ جاری ہے

جس نے ملک کے لئے آواز اٹھائی اس کو غدار قرار دیدیا گیا، ہم پاکستانیوں نے عجیب قسمت پائی ہے، ملک تڑوا کر بھی سکون نہ پا سکے، مشرقی پاکستان جو کہ اب بنگلہ دیش ہے وہ ہم سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے، تعلیم سمیت ہر شعبہ میں ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا نظر آرہا ہے مگر ہم وہی کھڑے ہیں، بس دوسروں کو غدار، غدار کی رٹ لگا کر مخالفین کو زیر کرنا ہی سیکھا ہے

کبھی مذہبی کارڈ کھیلے جاتے ہیں اور کبھی لسانی، قوم ٹوٹ کر رہ گئی، قوم ٹکڑوں میں تقسیم در تقسیم ہوتی جارہی ہے ، اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہم نے سیکھا ہی نہیں، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہے، ہر کوئی خود کو عقل کل سمجھتا ہے، کوئی خامیوں پر قابو پانے کے بارے میں غور نہیں کرتا

معروف صحافی عباس اطہر نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ 71ءمیں ملک ٹوٹ گیا، دانشور وں نے ایسا لفظ ڈھونڈ نکالا کہ کسی کو علم نہیں ہوا کہ ملک اور عوام پر کیا قیامت ٹوٹ گئی ہے، ملک کے دانشوروں نے میڈیا میں ملک ٹوٹنے کی خبر اس طرح عوام کو سنائی کہ عوام کئی دنوں تک بے خبر رہے کہ سسی اے بے خبرے تیرا لٹیا شہر بھنبھور۔۔۔۔

دانشوروں نے سقوط ڈھاکہ کی ٹرم متعارف کرائی، اخبارات میں یہی شائع ہوا اور ریڈیو، ٹی وی پر یہی نشر ہوتا رہا کہ سقوط ڈھاکہ ہوگیا ہے، یعنی قوم کو بتایا ہی نہیں گیا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے، لوگ اگلے روز ایک دوسرے کو بتاتے رہے کہ بھائی پتہ چلا ہے، سقوط ڈھاکہ ہوگیا ہے، کئی دنوں کے بعد قوم کو علم ہوا کہ ملک ٹوٹ گیا ہے

پاکستا ن ٹوٹنے پر آج تک بہت کچھ لکھاگیا کئی عینی شاہدین نے واقعات کو کہانیاں بنا کر پیش کیا اور خود بری الذمہ ہوتے رہے ، اب تاریخ میں لکیر ہی پیٹی جارہی ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں

میں یہ بات بہت دعوے سے لکھ رہا ہوں کہ شیخ مجیب الرحمن غدار نہیں تھا، وہ ایک محب وطن پاکستانی تھا جس کو ملک کی طاقتور قوتوں نے غدار بنا کر پیش کیا اور مغربی پاکستان میں اس کیخلاف نفرت پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کیاگیا، میں کسی کتاب کا حوالہ نہیں دوں گا، ایک عینی شاہد کی باتیں جو بچپن سے سنتا رہا وہ آج قوم کے سامنے پیش کررہا ہوں

ارشد کاظمی مرحوم میرے تایا تھے جو کہ عوامی لیگ (شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی) کے پنجاب کے آرگنائزر تھے، مغربی پاکستان میں عوامی لیگ اتنی مقبول نہیں تھی، پنجاب میں سارا انتظام ارشد کاظمی چلا رہے تھے، ارشد کاظمی کا انتقال 1982میں ہوا، اکثر محفلوں میں ان کی گفتگو سنتا تھا جو کہ دماغ میں آج تک محفوظ ہیں

1971ءکے الیکشن کے بعد شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان اکثریت حاصل کی جبکہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے واضح برتری حاصل کرلی، جس کے بعد اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی، ارشد کاظمی اکثر عوامی لیگ کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے ڈھاکہ جایا کرتے تھے

الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے اپنی پارٹی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلایا جس میں ارشد کاظمی بھی شریک تھے، اجلاس میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنی مختصر کابینہ کے ارکان کے نام بھی فائنل کرلئے تھے اور ارشد کاظمی کو ایران کا سفیر لگانے کا فیصلہ کرلیا تھا، اجلاس میں شیخ مجیب الرحمن نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم پاکستان کو ایک عظیم ملک بنائیں گے ، تمام سیاسی پارٹیوں سے باہمی روابط بنائیں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے، بقول ارشد کاظمی پہلے اجلاس میں شیخ مجیب الرحمن نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے شک گزرے کہ ان کی نیت خراب ہے

عوامی لیگ مجموعی طور پر اکثریت حاصل کرچکی تھی اور ان کی حکومت بننا یقینی تھا مگر حالات خراب ہوتے گئے ، جب حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے تو ارشد کاظمی ایک بار پھر اجلاس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ گئے، ارشد کاظمی بتاتے تھے کہ اجلاس کے بعد انہوں نے شیخ مجیب الرحمن سے علیحدگی میں وقت مانگا تو شیخ مجیب الرحمن ان کو ایک الگ کمرے میں لے گئے

ارشد کاظمی نے شیخ مجیب الرحمن سے کہا کہ حالات بہت خراب ہورہے ہیں، عوامی لیگ کی جانب سے علیحدگی کی باتیں سامنے آرہی ہیں اگر ایسی بات ہے مجھے صاف بتا دیں کیونکہ ہم نے تو وہاں ہی رہنا ہے اس لئے ہم اس کے مطابق چلیں اس پر شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں، سب پراپیگنڈا ہے، آپ کبھی سوچیں بھی نہیں کہ ہم الگ ہونا چاہتے ہیں

آپ مطمئن ہو کر لاہور جائیں اور سفیر بننے کی تیاری کریں ہماری پارٹی کی ہی حکومت بنے گی، کچھ دنوں بعد پھر ڈھاکہ میں اجلاس ہوا ارشد کاظمی اس میں شریک ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن نے اجلاس میں سب کے سامنے کہہ دیا کہ گزشتہ اجلاس میں کازمی (بنگالی ہونی کی وجہ سے کاظمی نہیں کہنا آتا تھا) نے مجھے سے پوچھا ہے کہ اگر میں الگ ہونا چاہتا ہوں تو صاف بتادیں، میں سب کے سامنے کہہ رہا ہوں کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم الگ ہونا نہیں چاہتے

شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ دیکھیں ابھی تک 25 سال مغربی پاکستان والوں نے حکومت کی ہے اب ہماری باری ہے، ہماری عورتیں ڈھائی گز کی ساڑھی پہنتی ہے، ایک طرف سے جسم ڈھانپتی ہےں تو دوسری طرف سے برہنہ ہوجاتی ہےں جبکہ مغربی پاکستان میں لوگ چھ، چھ گز کی پگڑیاں پہنتے ہیں، ہم سارے پاکستان سے غربت ختم کریں گے ، پاکستان ہمارا ملک ہے

شیخ مجیب الرحمن نے اجلاس میں ارشد کاظمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کازمی ایک بات یاد رکھیں، میں آج اگر علیحدگی کی بات کرونگا تو INDIA WILL BE HERE WITH IN TWO HOURS.I AM NOT FOOL، یہ کہہ کر انہوں نے اجلاس ختم کردیا اور اٹھتے ہوئے سب کو ہدایت کی کہ علیحدگی کی باتوں پر توجہ نہ دیں، ہم پاکستانی ہیں

رفتہ رفتہ حالات خراب ہوگئے ، پھر شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا گیا، گرفتاری کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے جن دو افراد سے ملنے کی فرمائش کی ان میں ایک ارشد کاظمی تھے اور دوسرے کراچی کے ایک وکیل تھے(نام یاد نہیں)، گرفتاری کے دوران ملاقات میں شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ بھارت کی سازش کامیاب ہوگئی، میں یہ کبھی نہیں چاہتا تھا

ملک ٹوٹنے(سقوط ڈھاکہ) کے بعد ارشد کاظمی کے گھر پرچھاپے پڑے ، سب ریکارڈ ضائع کردیا گیا اور کچھ اٹھا لیاگیا، ارشد کاظمی مرتے دم تک اس بات کی گواہی دیتے رہے کہ شیخ مجیب الرحمن محب وطن تھا ، اسے غدار بنادیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments