ایک تھا مشرقی پاکستان


شیخ مجیب الرحمن ایک سٹوڈنٹ کی حیثیت سے پاکستان کی تحریک کا سر گرم رکن تھا۔ یہ ان طلباء کے گروہ کا سر براہ بھی تھا جس نے قیام پاکستان کے قائد اعظم کی ڈھاکہ یونیورسٹی میں تقریر کے دوران واحد قومی زبان اردو کے خلاف” نہیں “”نہیں “کے نعرے لگائے۔ شیخ مجیب الرحمن نے مولانا بھاشانی اور حسین شہید سہروردی سے سیاست سیکھی اور مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ  کے  پلیٹ فارم سے قومی سطح پہ سیاست کی ۔ اگر ہم مولانا بھاشانی اور سہروردی کے پاکستان کی سیاست میں کردار کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ صرف احتجاج کی سیاست کر سکتے تھے ۔عوام میں اشتعال سے جلاو گھیراو کی پالیسی پہ گامزن ہو کر حکومت پہ اپنا دباو بڑھا تے اور اپنے مطالبات منواتے ۔ یہ کبھی بھی ڈیلیور نہیں کر سکے۔ سہروردی صاحب پڑھے لکھے آدمی تھے اور پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے مگر کامیاب نہیں ہو سکے۔ مجیب الرحمن بھی ایک احتجاجی سیاست دان تھا ۔ اس نے ہمیشہ بنگال کے لوگوں کے حقوق کی بات کی اور عوام میں اس ہمدردانہ مطالبے کی بنا پر بہت ہی زیادہ مقبول تھا۔لیکن یہ کبھی ڈیلیور نہیں کر سکا۔ مشرقی پاکستان آبادی کے اعتبار سے مغربی پاکستان کے مقابلے میں بڑا صوبہ تھا۔ اور سیاسی اعتبار پاکستان کا سب سے مضبوط حصہ تھا جہاں پچھلے سو برس سے سیاست کی شطرنج بچھی ہوئی تھی۔تعلیمی لحاظ سے بھی بنگال کا باقی پاکستان سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ 

ایوب خان کے دور میں جب ملک میں انڈسٹریل ریولیوشن آیا تو مشرق پاکستان میں اس کے ثمرات نہ پہنچ سکے ۔جس سے محرومی بڑھتی گئی ۔یہاں تک شیخ مجیب الرحمن نے حکومت کے ساتھ اپنے صوبے کے حقوق کی بات کرتے ہوئے چھ مطالبات رکھے۔ ان مطالبات کا منظر عام پہ آنا تھا کہ اس وقت کی فوجی حکومت کے مجیب الرحمن اور دیگر بنگالی قوم پرست رہنماوں کو” اگرتلہ سازش کیس” میں گرفتار کر لیا۔ آج سے ساٹھ برس قبل پیش کیے گئے چھ نکات کو اگر ہم آج کے پاکستان میں دیکھیں تو بڑی عجیب سی حیرت ہو گی۔ 

شیخ مجیب نے جو نکات پیش کیے جن کو حکومت وقت نے قومی مفاد کے منافی، اسے سیکورٹی رسک اور ارض پاک سے غداری سے تعبیر کیا اور پھر ملک ٹوٹنے دیا پر مطالبات پر سے اپنے موقف میں تبدیلی نہیں آنے دی۔شیخ مجیب الرحمن کے مطالبات یہ تھے۔ 

1۔ وقاق پاکستان کی تشکیل قرار داد پاکستان، بالغ رائے دہی کے اصول اور پارلیمانی طرز حکومت پر رکھی جائے۔ 

2۔ صوبوں کے لیے الگ مالیاتی پالیسی تشکیل دی جائے۔  

3۔ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار صوبوں کو دیا جائے۔ 

4۔ مشرقی پاکستان کو بیرونی ممالک سے الگ تجارتی روابط قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ 

5۔ مرکزی حکومت صرف دفاع اور خارجہ امور کی ذمہ دار ہو۔ 

6- مشرقی پاکستان کے لیے الگ نیم فوجی تنظیم کی تشکیل ہو۔ 

مجیب الرحمن نے مایوسی سے نکلنے کی راہ بتائی ۔جس کو ہم نے غداری کہا اور پنجابی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ملک کے مستقبل کو نئے خطوط پہ استوار کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے تک قبول کر لیا مگر شیخ مجیب الرحمن سے ان مطالبات پہ بات چیت گوارہ نہ کی۔شیخ مجیب نے ان مطالبات کو پورا نہ ہوتا دیکھ کر علیحدگی کی منصوبہ بندی کی جس کو ہمارے اپنوں نے بھرپور تعاون فراہم کیا۔ نصف صدی سے ہم نے نصاب کو افسانوں سے بھر کر نوجوان نسل کو گمراہ کیا۔ اب نصف صدی قبل کے واقعات کی ذمہ داری تو کوئی قبول کرنے کو تیا ر نہیں لیکن شیخ مجیب الرحمن کے مطالبات کا موجودہ حالات میں جائزہ لے کر تب کی صورتحال میں ذمہ داری کا تعین بھی ممکن ہے اور حال کے حالات سےمستقبل کابھی تعین ممکن ہے۔ 

چھ نکات میں پہلا مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان میں وقاق پاکستان کی تشکیل قرار داد پاکستان، بالغ رائے دہی کے اصول اور پارلیمانی طرز حکومت پر رکھی جائے۔(یہ ایوب کے دور میں چو نکہ مطالبا ت پیش کیے جا رہے تھے تب ملک میں صدارتی نظام تھا) تب ہم نے اس بات پہ باہمی اتفاق نہیں کیا لیکن سانحہ مشرقی پاکستان کے فوری بعد 1973کے دستور میں ہم نے وہی نظام ملک میں رائج کر دیا ۔ اور آج بھی وہی پارلیمانی نظام ہی رائج ہے جس کا مطالبہ شیخ مجیب نے سن 60کی دہائی میں کیا تھا۔ 

دوسرے مطالبے میں صوبوں کے لیے الگ مالیاتی پالیسی تشکیل دی جانے کی ڈیمانڈ کی گئی۔1973کے ہی دستور میں وفاق اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم کے لیے الگ الگ فہرستیں مرتب کی گئیں ۔ پھر ساتھ ہی مشترکہ امور کی بھی ایک فہرست تیار کئی گئی۔ جسے 2010میں صوبوں کے حق میں ختم کر دیا گیا جس سے صوبوں کو اپنے اپنے مالیاتی امور میں مکمل آزادی مل گئی۔ اسی مطالبے میں انکی یہ بھی ڈیمانڈ تھی کہ بنگال کے لوگوں کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرز پہ بنگ آف بنگال بنانے کی اجازت دی جائےہم نے اجازت نہ دی لیکن ہم نے دیکھ لیا کہ مشرقی پاکستان توڑ کر ہم نے بنک آف پنجاب بھی بنایا اور بنک آف سندھ ۔ خیبر بنک بھی۔اگر کل بنک آف بنگال بنانا غداری تھا تو آج بنک ٖآف پنجاب، بنک آف سندھ اور خیبر بنک کیو ں غداری نہیں ہیں ۔ در حقیقیت یہ مطالبہ نہ کل غداری تھا اور نہ آج۔ 

مشرقی پاکستان پیداوار کے اعتبار سے پاکستان کی معیشت میں بہت زیادہ حصہ ڈالتا تھا مگر اس تناسب سے مشرقی پاکستان پیسہ خرچ نہیں ہوتا تھا جس سے پاکستان کے اس حصے میں محرومی اس حد تک پیدا ہو گئی کہ اسلام آباد کی تعمیر پہ جب پہلی بار مجیب الرحمن اسلام آباد آئے تو انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے اسلام آباد سے بنگال کی پٹ سن کی بو آ رہی ہے۔ اس وجہ سے انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ٹیکس نافذ کرنے کا اختیا ر صوبوں کو دیا جائے ۔ اور مرکز کے اخراجات تناسب کے حساب سے صوبے ادا کریں ۔ اگر آج ہم دیکھیں تو صوبوں کو ٹیکس نافذ کرنے کی بھی اجازت ہے اور اکٹھا کرنے کی بھی۔ جب ہم نے مشترکہ امور کی فہرست ہی ختم کر دی تو ان امور کی انجام دہی کے لیے صوبوں کو وسائل پیدا کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔  

سب سے زیادہ شور اس بات پہ کیا گیا کہ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کو بیرونی ممالک سے الگ تجارتی روابط قائم کرنے کی اجازت مانگی تھی کیونکہ مشرقی اور مغربی بنگال میں صدیوں سے ایک جیسا تجارتی ماحول تھا اور وہ اس بات کی گارنٹی دینے کو تیار تھا کہ انڈیا کے ساتھ تجارت کرنے پہ ہمیں نقصان نہیں ہو گا۔ لیکن ہم نے اس مطالبے پہ بھی کوئی بات نہیں کی۔ سیدھا سیدھا” انڈیا کا جو یار ہے غدار ہے غدارہے” کےنعرے کے تحت ملک دشمنی کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا۔ وقت نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اسی بھارت کے ساتھ تجارت کی باتیں ہو ئیں۔ جہاں تک صوبوں کو بیرونی ممالک سے تجارت میں آزادی دینے کی بات تھی تو 2008 میں جب مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت تھی تو پنجاب ترکی اور چین کے ساتھ اپنے طور پر کاروبار کرتا رہا ہے۔ لیکن اب Sovereign Guaranty کے بغیر پنجاب کو کاروبار کرنے کی اجازت ہے تب بنگال کو نہیں تھی۔ 

شیخ مجیب الرحمن نے پانچویں مطالبے میں مرکزی حکومت صرف دفاع اور خارجہ امور کی ذمہ دار دینے کی بات کی ۔ یہ بات دنیا بھر میں ایک اچھے وفاق میں یہ بات دیکھنے کو آتی ہے کہ صوبوں میں زیادہ سے زیادہ اختیارات تفویض کیے جاتے ہیں اور چند امور میں مرکز کو ذمہ دار بنا یا جاتا ہے۔وفاق کی مضبوطی کا انحصار کثرت اختیار کی بجائے مضبوطی اعتبار ہوتا ہے۔ اگر صوبوں کے اختیار بڑھ جانے سے سالمیت کو خطرات لاحق ہوتے تو امریکہ کبھی بھی سپر پاور نہ ہوتا ۔ ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت بننے کی ضرورت ہے۔اگر آج ہم مرکز اور صوبوں کے اختیارات کا موازنہ کریں تو یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ شیخ مجیب بھی صرف اتنا ہی تنا سب تو مانگ رہا تھا ۔پھر ہم نے تب اس کو ہی ہاں کیوں نہیں کی؟ 

مشرقی پاکستان کے لیے الگ نیم فوجی تنظیم کی تشکیل ہو۔اس آخری مطالبے کو مجیب الرحمن خود ہی واپس لے لیتا اگر اسکے باقی پانچ مطالبے کچھ لو کچھ دو کے تحت مان لیے جاتے تو۔کیونکہ وہ اپنے مطالبات کے بارے میں خود ہی یہ کہہ چکے تھے کہ ان پہ بات ہو سکتی ہے یہ کوئی قرآن حدیث نہیں جو بدلے نہ جا سکتے ہوں۔ فوج میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کی نمائند گی اس حساب سے نہیں تھی جس حساب سے مغربی پاکستان سے تھی۔ جس کی وجہ مشرقی پاکستان کے لوگوں میں محرومی کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ جیوگرافیائی رد و بدل کے تحت بنگال کے لوگ قد و قامت میں مغربی پاکستان کی نسبت کم تھی۔ ہم نے اپنی فوج میں بھرتی کی پالیسی ان کے لیے ذرا بھی نرم نہ کی۔ وہ صرف قدو قامت میں کم تھے ہمت ، جوانمردی اور بہادری میں وہ کسی طرح بھی کم نہیں تھے۔ اس بات کا انہوں نے بھرپور ثبوت مغربی پاکستان سے جنگ میں دیا جب قد و قامت میں جوانمرد اور بہادرمغربی پاکستا ن کی کثیر تعداد میں افوج نے ہتھیا ر ڈالنے میں آفیت جانی۔ 

1971الیکشن میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ جیت گئی ہم نے ان کو حکومت نہیں کرنے دی۔ ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ مجیب کس کے شاگرد تھے ۔مجیب ایک اچھا احتجاجی سیاستدان تھا لیکن ہم نے اس کو روک کر اُسے بنگالیوں کا ہیرو بنا دیا ۔تاریخ نے دیکھا کہ اپنی قوم کا ہیرو ہونے کے باوجود وہ ان بنگالیوں پہ حکومت نہیں کر سکا ۔ کیونکہ وہ ڈلیور نہیں کر سکا ۔ اگر ہم اس کا حکومت بنانے دیتے تو یہی با شعور بنگالی انھیں ہٹا دیتے۔ بھٹو صاحب نے آخر کتنی دیر حکمرانی کر لی تھی؟  حالانکہ ان میں لا تعداد حکمرانی کے گُن تھے۔بھٹو صاحب ایک جلد باز انسان تھے انہیں اقتدار میں آنے کی اس قدر جلدی تھی کہ وہ اس کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔ اقتدار میں آنے اور اقتدا ر میں رہنے کی بھٹو کی خواہشات آج بھی ہماری سیاست کا جزو لاینفک ہے۔ بھٹو کی دونوں خواہشات کا انجام بہت بھیانک نکلا پاکستان کے لیے بھی اور خود بھٹو کے لیے بھی۔ 

سب سے زیادہ درد ناک پہلو 2016 میں  ریلیز ہونے والی امریکی لیکس ہیں جن کے مطابق سانحہ مشرقی پاکستان مکمل پلان کے مطابق تھا۔ پاکستان کی حکومت نکسن انتظامیہ کو یہ یقین دہانی کروا چکی تھی کہ مارچ 1972تک بنگلا دیش کو آزادی دے دی جائے گی۔امریکہ چونکہ ان دنوں پاکستان کے ذریعے چین کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بنا رہا تھا اسلیے اس پہلو کو خفیہ رکھا گیا۔ہم نے دیکھا کہ ہم جان بوجھ کر مشرقی پاکستان کو ساتھ لے کر چلنا ہی نہیں چاہتے تھے ۔ جس کا ایک ثبوت جسٹس منیر جو کہ ایوب خان کے وزیر قانون تھے اپنی کتاب جناح سے ضیاتک میں دیتے ہیں  کہ ایوب خان نے انہیں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک بنگالی وزیر رمیض الدین کے پاس مجھے بھیجا اور میں نے انہیں کہا کہ آپ ہم سے علیحدگی اختیار کرلیں یا کنفڈریشن بنا لیں۔ رمیض الدین نے جواب میں کہا کہ ہم اکثریت میں ہیں، آپ اقلیت ہیں، اگر آپ علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو ہو جائیں لیکن اصل پاکستان تو ہم ہیں۔ 

اگر شیخ مجب الرحمن کے مطالبات میں کچھ غلط ہو تا جس کی بناپہ وہ غدار ٹھہرایا گیا تھا تو وہ مطالبات آج بھی اسی طرح غلط ہی ہوتے ۔ لیکن وہ مطالبات نہ تب غلط تھے اور نہ آج ۔ در حقیقت مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کو اپنی کالونی سے زیادہ درجہ دے نہیں سکا اور مشرقی پاکستان کے لوگوں میں آزادی کا شعور جو انہوں کے صدی بھر کی مشقت سے حاصل کیا تھا انھیں غلام رکھ نہیں سکا۔ہم نے پنجاب یو نیورسٹی کے اوورینٹیل کالج میں دنیا بھر کی زبانوں سیکھانے کا اہتما م کیا مگر 25 بر س تک آبادی کے اعتبارسے سب سے بڑے صوبے بنگال کی زبان بنگالی کو اپنے دوسرے پاکستان کے لوگوں کو نہ سیکھائی۔آج ہمارے کالجز اور یونیورسٹیوں میں دیو مالائی کہانیاں سنائی جاتی ہیں اس سانحہ کے بارے میں مگر حقیقت چھپا لینے سے جھوٹ کو سچ کا نام نہیں دیا جا سکتا ۔ 

یہ تو وہ تھا جو ہم نے ماضی میں کیا اورآج تک اس پہ نہیں پچھتائے۔ذرا لمحہ بھر کو ٹھہر کے سوچیں تو ہمیں پتہ لگے گا آج بھی ہم وہ ہی راستہ چن رہے ہیں ۔ بلوچستان ۔ کے ۔پی کے اور سندھ کے ساتھ آج بھی مرکز اور پنجاب کا رویہ 60کی دہائی میں بنگال سے روا رکھے جانے والے سلوک سے ہر گز کم نہیں ۔ سی ۔پیک منصوبے کے ثمرات بھی پنجاب کی جھولی میں ڈالنے کی باتیں گردش کر رہی ہیں ۔ بلوچستان میں قائم بندرگاہ کے فوائد کو بھی پنجاب تک محدود کر دیا تو اختر مینگل نے جو چھ نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے وہ شیخ مجیب کا چھ نکاتی ایجنڈے کی طرح علیحدگی پہ ختم ہو سکتا ہے۔ 

ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ برداشت اور تنوع (Diversity) کو پیدا کرنا ہو گا صرف اپنا کیا ہوا ہی صحیح ہونے کے طرز عمل کو ختم کر کے دوسروں کو بھی مثبت زاویے سے دیکھنے کو روش اپنانی ہو گی۔ سی۔پیک سے جس طرح غیر ملکی سٹیکس ہمارے ہاں بڑھ رہیں ہم پہلے کی طرح خود مختا ر نہیں رہیں گے۔ہمیں اپنی دوستیاں اور دشمنیاں ان ممالک کے حساب سے کرنی ہوں گی جو خوشحالی ہماری دہلیز پہ لے کر آ رہے ہیں ۔ اگر اعتماد سازی کے لیے فضا پیدا نہ کی گئی تو سی پیک کےخاتمے کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان کی طرز کی کوئی ٹریجڈی بھی ہو سکتی ہے۔ 

اس دسمبر میں آج ہم آگے بڑھنے سے قبل ماضی کا بوجھ جو ہمارے پاوں میں بیڑیاں بن چکا ہے   پہلے اتار لیں تو آگے بڑھنے میں آسانی ہو گی۔ ہم قومی سطح پہ یہ اعتراف کریں کہ ہاں ہم نے تب نا انصافی کی تھی۔ مجیب الرحمن کے مطالبات غداری نہیں تھے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہم سے زیادتی ہوئی ۔اس کے ازالہ کے لیے قومی سطح پہ اقدامات کیے جائیں ۔ بڑے بڑے منصوبوں کو مشرقی پاکستان کے رہنماوں کے ناموں سے تعبیر کیا جائے۔سی ۔پیک کے منصوبوں کو بنگالی تحریک پاکستان کے رہنماوں سے منسوب کر کے شیخ حسنہ واجد کو اس کے افتتاح کی دعوت دی جانی چاہیے۔ جیسے 2016 میں ہی امریکی صدر باراک ابامہ نے دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہونے والے شہر ہیرو شیما کا دورہ کیا جہاں امریکی ایٹم بمب کے ذریعے لاکھوں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور بعد میں جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے 1942میں جاپانی فضائیہ کے ہاتھوں تباہ ہونے والے امریکی جزیرے پر ہارپر کا بھی دورہ کیا ۔جہاں ایروزونا بحری جہاز میں 2300شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیاجو دوسری جنگ میں امریکی آمد کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔سربراہانِ مملکت ایسے اقدامات سے اعتراف جرم کے ساتھ مستقبل کی نسل کو امن کے دامن میں رہنے کا سبق بھی دیتے ہیں ۔ 

مستقبل میں ماضی جیسی بد اعتمادی سے بچنے کے لیے آج اپنے حال میں ہی ایسے اقدامات تجویز کیے جائیں جس سے احساس محرومی جنم نہ لے۔جن میں چند ایک یہ ہیں ۔ 

1۔ وزارت عظمیٰ شریفوں اور بھٹوز  کی کوئی جاگیر نہیں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے یہ بات یقینی بنائی جائےوزارت عظمیٰ حروف تہجی کے اعتبار سے باری باری ہر صوبے میں جائےیعنی چاہیے جو بھی پاڑٹی جیت جائے وہ اپنا امیدوار اسی صوبے سےلائے گی جس کی باری ہو گی۔ 

2۔ اسی طرح آئینی طور پر وزراء کی تعداد مقرر کی جائے جن میں ہر صوبے سے وزراء کی تعداد بھی برابر مقرر کی جائے تاکہ ایک صوبے کی حکمرانی کا تاثر نہ ابھرے۔ 

3۔اس سے ساتھ ساتھ ہمیں الیکشن میں متناسب نمائندگی کے اصول کو اپنانا چاہیے جس میں ہر جماعت کو ملنے والے ووٹوں کے حسا ب سے ان کو نشتیں الاٹ کی جائیں جن پہ جماعت اپنے لوگ پارلیمان میں بھیجیں ۔اس میں ہر جماعت الیکشن سے قبل ہرصوبے سے اپنے امیدواروں کی فہرست جمع کروا دے پھر الیکشن میں ملنے والے ووٹوں کے حساب سے ہر جماعت کو نشستیں دے دی جائیں جس سے ہر جماعت کو پارلیمان میں کسی حد تک نمائندگی ضرور مل جائے گی ۔  

4۔ہر یو نیورسٹی کے لیے لازم ہو کہ وہ اپنا ایک ایک کیمپس ہر صوبے میں کھولے۔جس میں وہاں کے لوگ بھی پڑھائیں اور باقی صوبوں سے لوگ بھی جا کر پڑھا سکتےہوں۔ 

5۔ثقافتی تہواروں پہ باقی صوبوں کے لوگوں کو شریک کرنے نے کے لیے ہر صوبے میں بھرپو ر مہم چلائی جائے جس میں سپیشل ٹرینیں چلائی جائیں اور ہر صوبے کا چیف منسٹر اپنی کابینہ سمیت ان میں شرکت کرے۔جیسے سبی کا میلہ ، میلہ چراغاں لعل شہباز قلند کا عرس رحمان بابا کا عرس خوشحال خان خٹک کا عرس ان تہواروں کی تشہیر ہر صوبے میں ہو اور لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے قریب لانے کے مواقع ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔  

6۔یوم آزادی کی وفاقی سطح پہ تقریب ہر سال مختلف صوبے میں ہو جہاں ہر صوبے کے عوام اور حکمران جمع ہوں ۔ 

7۔ہر گریڈ 17کے افسر کے لیے ضروری ہو کہ وہ اپنی سروس کےفرائض چاروں صوبوں میں سر انجام دے۔ 

8۔آج پنجاب کے سکولوں میں چینی اور ترکی زبان سیکھانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جو کہ اپنی جگہ درست ہوں گی علم کوئی بھی غلط نہیں ہوتا مگر چاروں صوبوں میں الگ الگ بولی جانے والی صوبائی زبانیں بھی مڈل تک لازمی سیکھائی جانی چاہیے تا کہ ہم ایک دوسرے کے ہاں جا کر اجنبیت محسوس نہ کریں ۔ 

9۔نصاب کو اس طرز پہ ترتیب دیا جائے کہ طالبعلم خود کو پاکستانی کے طور پہ شناخت کروانی میں فخر محسوس کرے اور پاکستان کے ہر صوبے کی ثقافت ، کلچر اور جیوگرافیہ سے واقفیت ہو۔ سکولز اور کالجز کے بین لصوبائی روابط قائم کیے جائیں ۔ 

10۔یہاں تک کہ ملک کے ہر حصے میں بسنے والے کروڑوں غیر مسلموں کو اقلیت کے لفظ سے بھی آزادی دے دی جائے۔ ہمیں ان کے کے لیے غیر مسلم پاکستانی کا لفظ استعمال کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اکثریت کی بنا پر حقوق پہ تسلط کی روش نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے اب پاکستانی ہونے کی راہ لینی ہو گی۔ 

الغرض ایسی ہی بے شمار تجاویز اور بھی دی جا سکتی ہیں جس سے اعتبار سازی کی فضا قائم ہو سکے۔صوبوں کی ایک دوسرے پہ انحصاری کو بڑھانے سے صوبے مضبوط بندھن میں بندھ جائیں گے۔ہم آج عہد کریں کہ اپنی آنے والی نسلوں کو اس اذیت سے نہیں گزرنے دیں گے کہ وہ پاکستان کے کسی حصے کے بارے میں یوں کہیں جیسے آج ہم کہہ رہے ہیں کہ “ایک تھا مشرق پاکستان ” 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments