ترکی اسرائیل تعلقات: سنہ 2008 کے بعد سے پہلے اسرائیلی رہنما کا دورہ ترکی کیا معنی رکھتا ہے؟


اردوگان
ترک صدر رجب طیب اردوغان کی دعوت پر اسرائیلی صدر آئزک ہیزروگ گذشتہ روز ترکی کے دو روزہ دورے پر دارالحکومت انقرہ پہنچے ہیں۔

ہیزروگ سنہ 2008 کے بعد وہ پہلے اسرائیلی رہنما ہیں جو ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ اردوغان نے جولائی میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہیزروگ سے چار مرتبہ فون پر بات کی ہے جسے اسرائیلی میڈیا کی جانب سے تعلقات میں ایک خوشگوار پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔

اردوغان اور ہیرزوگ کے درمیان ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں رہنماؤں نے توانائی سے متعلق تعاون پر زور دیا۔

مشرقی بحیرہ روم میں روس کی جانب سے کی گئی زیرِ سمندر تحقیق اور ڈرلنگ کے باعث اس کے یونان کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا تھا تاہم صدر اردوغان کا کہنا تھا کہ ‘ہم تعاون کی بنیاد پر اس تحقیق پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔’

انھوں نے اس موقع پر یہ اعلان بھی کیا کہ اسرائیلی صدر کے دورے کے فوراً بعد ترکی وزیرِ توانائی اور قدرتی وسائل اور وزیرِ خارجہ اسرائیل کا دورہ کریں گے۔

اردوغان نے کہا کہ ‘میرے نزدیک یہ توانائی سے متعلق تعاون کے دوبارہ آغاز کا ایک اچھا موقع ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمیں سنہ 2022 میں دونوں ممالک کی برآمدات کو 10 ارب ڈالر تک لے کر جانا ہے۔ ہمیں توانائی اور توانائی کی سکیورٹی جیسے شعبوں میں تعاون کی ضرورت ہے۔ ترکی کے پاس ایسے منصوبوں کو لاگو کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔’

اردوغان کا یوکرین روس تنازعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘ہمارے خطے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت سے ایک مرتبہ پھر توانائی کی سکیورٹی کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ ہمارے پاس سیاحت، سائنس، جدید ٹیکنالوجی، صحت، زراعت اور دفاعی صنعت میں تعاون کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔’

اسرائیلی صدر آئزک ہیرزوگ نے دونوں ممالک کے طویل باہمی روابط اور تعاون کے ذریعے خطے کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

تقریر کے آغاز میں ہیزروگ نے کہا کہ ‘میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ترکی آنے پر بہت خوش ہوں۔ ہمیں تمام شعبوں میں بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔’

اردوگان

جہاں دونوں رہنماؤں نے توانائی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کی بات کی وہیں صدر اردوغان نے اپنی تقریر میں فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا۔

انھوں نے کہا کہ ‘ملاقات میں دو ریاستی حل سے متعلق اپنے مشن کو جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔ میں فلسطینیوں کی سماجی اور معاشی صورتحال بہتر بنانے پر بھی توجہ دلوائی اور اسرائیلی حکام کی جانب سے ترک تنظیموں کی حمایت پر زور دیا تاکہ فلسطینیوں کی امداد کی جا سکے۔’

دوسری جانب اردوغان نے یہود مخالف بیانیے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘ترکوں اور یہودیوں نے صدیوں سے ایک ساتھ رہ کر ایک بہترین مثال قائم کی ہے۔

صدر اردوغان کی جانب سے دیے گیے بیان کے بعد بات کرتے ہوئے ہیزروگ نے فلسطین کا نام تو نہیں لیا لیکن یہ ضرور کہا کہ ‘ہمیں اس بات پر پہلے ہی اتفاق کرنا ہو گا کہ ہم ہر بات پر اتفاق نہیں کر سکتے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘ماضی میں بھی تنازعات چند روز میں ختم نہیں ہوئے بلکہ ہم ایک دوسرے کا احترام اور بھروسہ کر کے ہی آگے بڑھے ہیں۔ یہ ہمارے انتہائی بھرپور ماضی کے روابط میں ایک قدرتی بات ہے۔’

اس دو روزہ دورے پر دنیا کی نظریں لگی ہیں اور اس کی ایک وجہ یوکرین بحران بھی ہے۔ دونوں ممالک کا خیال ہے کہ وہ مذاکراتی میز پر دونوں فریقوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ یوکرین کے وزیرِ خارجہ اور ان کے روسی ہم منصب ترکی کے شہر انتالیہ میں 10 مارچ کو ملاقات کریں گے تاکہ جنگ کے خاتمے کے لیے ثالثی کی جا سکے۔

بحیرہ روم

اس دورے کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے؟

ترک صدر کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ 'دو طرفہ روابط کا تمام زاویوں سے جائزہ لیا جائے گا اور تعاون میں اضافہ کرنے کے لیے بات چیت کی جائے گی۔'

اسرائیلی صدر ہیرزوگ نے دورے سے قبل ایک بیان میں کہا کہ ان کا دورہ ترکی ‘اسرائیل، ترکی اور تمام خطے کے لیے اہم ہیں۔’

ہیرزوگ نے دورے سے قبل اسرائیلی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس دورے پر ہونے والی تمام باتوں پر اتفاق نہیں کریں گے۔ حالیہ سالوں میں ہمارے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آیا ہے، ہم اس رشتے کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ ‘میں امید کرتا ہوں کہ اس دورے کے بعد ترکی کے ساتھ گہرے اور سنجیدہ مذاکرات کا سلسلہ مختلف سطحوں پر شروع کیا جا سکے گا اور ہم رشتوں میں بہتری دیکھیں گے۔’

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اسرائیلی اخبار نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھیں امید ہے کہ اس دورے کے بعد دونوں ممالک اپنے سفیروں کو دوبارہ تعینات کریں گے اور ترکی میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اردوغان کے اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے سے متعلق سوال پر نجی چینل 12 کی بین الاقوامی خبروں کی مدیر ارد نیر کا کہنا تھا کہ ترکی کے ‘اتحادی اس سے دور ہو رہے ہیں’ اور اس کے مصر اور امریکہ کے ساتھ ‘مشکلات کا شکار تعلقات’ ہیں، خاص طور پر جب سے امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنا دفتر سنبھالا ہے۔ نیر کے مطابق ترکی کا خیال ہے کہ ‘واشنگٹن جانے کا راستہ یروشلم سے ہو کر گزرتا ہے۔’

اسرائیلی اخبار ہارٹز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ اردوغان نے اسرائیل سے ایک ایسے موقع پر تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے جب ترکی ایک بدترین مالی بحران کا شکار ہے اور وہ خطے میں دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں جن میں مصر سمیت دیگر خلیجی ممالک بھی شامل ہیں۔

اسرائیل میں صدارت ایک علامتی عہدہ ہے لیکن ہیزروگ ملک کے ایک معروف سیاست دان ہیں اور انھیں ملک میں ایک اعلیٰ سفارتی عہدہ دیا گیا ہے۔

اردوغان

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اردوغان اور ہیزروگ کے درمیان اجلاس کے دوران مشرقی بحیرہ روم سے متعلق تنازع کے پہلوؤں پر بات کی جائے گی۔

اس تنازع کا سب سے اہم پہلوں مشرقی میڈ فورم میں ہائڈروکاربن کے وسائل کی یورپی مارکیٹوں کو پائپ لائن کے ذریعے منتقلی ہے۔

اس فورم میں یونان، سائپرس، اسرائیل، مصر، فلسطین، اردن، فرانس اور اٹلی شامل ہیں۔ تاہم ترکی اس فورم میں شامل نہیں ہے۔

دوسری جانب انقرہ اس پالیسی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ‘خطے میں توانائی کے وسائل سے متعلق منصوبے ترکی کے بغیر نہیں چلائے جائیں گے۔’

اردوغان نے اسرائیل کی گذشتہ حکومت کے خلاف تو سخت بیانات دیے تھے، لیکن نئی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہیں اور اس حکومت نے ماضی میں ترکی کے ساتھ سخت رویہ نہیں رکھا۔

ترکی کی جانب سے جہاں خطے میں مصر، متحدہ عرب امارات اور یونان کے ساتھ تناؤ میں کمی لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں وہیں اسرائیل کے ساتھ روابط میں بہتری بھی اس کی اہم ترجیح دکھائی دے رہی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ اردوغان چاہتے ہیں کہ اسرائیلی گیس کی یورپ کو برآمد ترکی کے ذریعے کی جائے۔

ادھر یورپ میں یوکرین کے بحران کے بعد سے روس کی توانائی کے وسائل پر انحصار سے متعلق اہم بحث جاری ہے۔

ماوی مارمارا

دونوں ممالک کے درمیان سنہ 2010 کے بعد سے تعلقات کس طرح تبدیل ہوئے ہیں؟

انقرہ اور تل ابیب کے تعلقات کا سیاہ ترین واقعہ 31 مئی 2010 کو اس وقت پیش آیا جب ترکی سے غزہ جانے والے ترک بحری جہاز ماوی مارمارا کو بین الاقوامی پانیوں میں اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کے نتیجے میں نو ترک شہری ہلاک ہوئے۔

اس کے بعد سے دونوں ممالک نے اپنے سفیر واپس بلا لیے اور ترکی کی جانب سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے متاثرین کے لیے امداد، معافی نامہ اور غزہ جانے کی پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔

ان مذاکرات کے باعث جو بارہا تعطل کا شکار رہے مارچ 2013 میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس وقت کے وزیرِ اعظم اردوغان کو فون کر کے معافی مانگی۔ پھر جولائی 2016 میں دونوں ممالک نے غزہ کے لیے امداد فراہم کرنے پر اتفاق کیا اور چھ برس بعد دونوں ممالک کے سفیروں نے انقرہ اور تل ابیب میں ذمہ داریاں سنبھالیں۔

ماوی مارمارا واقعے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں نے اس پر تنقید کی اور ردِ عمل کا اظہار کیا۔ ان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس معاہدے کے خفیہ اور اضافی شقیں بھی شامل ہیں۔

احتجاج

جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دسمبر سنہ 2017 میں اعلان کیا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس فیصلے پر بھی ترکی کی جانب سے تنقید سامنے آئی تھی۔

مئی 2018 میں فلسطینی احتجاج کے دوران پولیس کی کارروائی کے باعث 60 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس موقع پر ترکی نے اپنا سفیر تل ابیب سے واپس بلا لیا تھا۔ اس وقت اسرائیل نے انقرہ کے لیے سفیر نامزد نہیں کیا ہوا۔

ہیزروگ کے بطور صدر انتخاب کے بعد سے ان کی اور اردوغان کا متعدد مرتبہ فون پر رابطہ ہوا ہے۔ ان میں سے سب سے اہم فون کال نومبر میں کی گئی تھی جب ایک اسرائیلی جوڑے کو مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں حراست میں لینے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔

نومبر 18 کو ہونے والے اجلاس میں اردوغان نے یہ کہا تھا کہ ترکی اسرائیل روابط مشرقِ وسطیٰ کی سالمیت اور استحکام کے لیے اہم ہیں اور اختلاف رائے کو محدود کیا جا سکتا ہے اگر خطے کے مسائل پر باہمی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔

ہیزروگ کی جانب سے بھی ترکی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات ہوں تاکہ خطے کے امن کو لاحق خطرات سے متعلق بات کی جا سکے۔

رواں برس ہیزروگ کی والدہ کی وفات پر اردوغان کی جانب سے فون پر تعزیت کی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32609 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments