مغلظات


غصہ انسانی جذبات اور احساسات کا ایسا رنگ ہے جو انسان کے اندر کے تمام رنگ نمایاں کر دیتا ہے اگر سادہ اور آسان زبان میں کہوں تو انسان کی اصلیت کا پتہ دیتا ہے بہت کم لوگ ہی ہوں گے جو غصے میں اپنی زبان پر قابو رکھ سکتے ہوں گے یا سامنے والے کی عمر اور رتبے کا یا کم از کم اپنی ہی عمر کا لحاظ رکھتے ہوں گے۔

جو جتنی بلند آواز میں چیختا ہے چلاتا ہے اتنا ہی زور آور کہلاتا ہے۔ اور پھر گالی، گالی تو جیسے غصے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئی ہے نفرت کا شدید ترین اظہار گالی سے ہی کیا جاتا ہے اور وہ بھی ماں اور بہن کی عجیب حیرت انگیز بات ہے کہ آپ اپنی ماں کے ہوتے ہوئے اپنی بہن کے ہوتے ہوئے کسی اور کی ماں بہن کی گالی دینا ہمارے معاشرے کا کلچر بنتا جا رہا ہے۔ یہ لحاظ اور شرم کے بغیر کہ یہ گالی جو دی جا رہی ہے اس کی گونج تو گھر میں بیٹھی بیوی اور بیٹی کے کان میں پڑی ہو گی آخر یہ لوگ کیسے سامنا کرتے ہوئے اپنی عزتوں سے۔

مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے سننے میں کمینہ، ذلیل منحوس طرح کی ہی گالیاں آئی ہیں ذرا بڑے ہوئے اور بھارتی فلموں کا رواج عام ہوا تو پتا چلا گالیاں بمباری بھی کرتی ہیں۔ دراصل یہیں سے باقاعدہ تعارف ہوا اعلی قسم کی گالیوں سے مگر یہ ہماری بھول ہے اعلی قسم کی گالی تو لوگ اور بھی ایجاد کر چکے ہیں۔

ہمیں یاد ہے ہم نے بچپن میں انیل کپور اور دلیپ کمار (جو کہ ہماری امی کا پسندیدہ ہیرو تھا) کی فلم لوہا دیکھی جس کو دیکھنے کے دوران ان ہماری امی نے پتا نہ کتنی بار لاحول پڑھی تھی کس قدر یہ لڑکا واہیات مغلظات بک رہا ہے اس وقت گالیوں کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا تھا اور پوچھنے کی جرات نہیں تھی۔ جبکہ ہماری اولاد تو بڑے مزے سے پوچھتی ہے اور ہم گھور کر چپ کروا دیتے ہیں۔

ایک دفعہ اسکول سے واپسی پر ہم تین لڑکیاں ساتھ ساتھ چل رہیں تھی کہ میری برابر والی ساتھی نے اپنا جرنل آگے والے لڑکے کی پیٹھ پہ زور دار مارا اور انیل کپور والی گالیاں دینے لگی اس کی پہلی حرکت پہ ہم سب چوکنا ہو گئے کہ اب لڑکے کو مارنا ہے کوئی حرکت کی ہوگی مگر وہ بھاگ گیا منحوس! مگر اس کی دوسری حرکت پہ تو میں حیران رہ گئی اس کے گھر کے ماحول سے بہت اچھی طرح واقف تھی اس پر ایسی گالیاں جو کہ شروع ہی ”ح“ سے ہوتی تھی ہمارے لیے یہی سب سے زیادہ ایٹم بم والی گالی تھی ہمارے پوچھنے پہ تو اس نے الٹا ہی سوال داغا تم انیل کپور کی فلمیں نہیں دیکھتی؟

زمانہ تیزی سے آگے سفر کرتا گیا اور اب نوجوان نسل نے ہر گالی کو بڑا ماڈرن بنا دیا ہے کہ ہم جیسے پرانے زمانے لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے پہلا اور دوسرا حرف ہی بولا جاتا ہے مخفف کی صورت میں۔

مگر کچھ پرانے لوگ جنہیں لگتا ہے ان سے بڑا طاقت ور، غصہ ور، انصاف پسند اور نڈر کوئی نہیں وہ غصہ کا اظہار ہی مکمل اردو کی گالیوں میں کرتے ہیں اور یہ سوچے بغیر کہ ان کی آواز کی بازگشت پورے محلے میں ان کی بیٹی ان کی بیوی سمیت اس محلے کے بچے اور بچیاں بھی سن رہے ہیں بزرگی کا لبادہ اوڑھے وہ اپنے اندر کے سارے رنگ نمایاں کر رہے ہوتے ہیں تمام ذہنی غلاظت انڈیل رہے ہوتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر بچے اس کا مطلب جاننا چاہیں تو اپنے لہراتے ہوئے کانوں اور جھنجھناتے ہوئے دماغ سے کیا بتاؤں؟

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments