مفتاح اسمٰعیل کا بیان اور ہمارے جذباتی مصلحین


واشنگٹن میں ہمارے مشیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے سابق وزیراعظم پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوٸے کہا کہ انہوں نے سیاست کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہوٸے امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے ایک تحریک شروع کی تھی، جو ان کو عدم اعتماد سے نہ بچا سکی۔ بس یہ سننا تھا کہ ہمارے جذباتی مصلحین کے تیور غضبناک ہو گٸے۔ باچھیں کھل گٸیں۔ لہجے بدل گٸے۔ آنکھیں چنگاریاں اور زبانیں شعلے برسانے لگیں۔ غیظ و غضب کے عالم میں منہ سے جھاگ بہنے لگی اور سب ہی مفتاح پر پل پڑے۔ رمضان المبارک کے تقدس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب ہی اس دھارے کے ساتھ بہہ نکلے۔ لٹھ لے کر نکل پڑے اور مفتاح پر فتووں کی یلغار کردی۔
ہم نے جب غیر جانبداری سے مسٸلے پر غور کیا تو مفتاح کے ساتھ ساتھ ان پر طعن و تعریض کے کوڑے برسانے والوں پر بھی رحم آیا۔ اس میں کیا شک ہے کہ تسبیح رولنا ہو، شلوار قمیض کی موریاں ہوں، خانقاہوں اور مزاروں پر جبہ ساٸی کے مظاہر ہوں، ریاست مدینہ کے قیام کا جذباتی نعرہ ہو یا ترکی سے درآمد کیے گٸے “تاریخی اسلامی”ڈراموں کے فروغ کی تلقین ہو; عمران خان نے ہر موقعے پر اپنی حکومت کی نااہلیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مذہب کا غلط استعمال کیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر نااہل حکمران مذہب کا ایسے ہی استعمال کرتا ہے۔ یقین نہ آٸے تو ہمارے مرد مومن مرد حق ضیاالحق ضیاالحق کی شخصی اور حکومتی زندگی کی جھلکیاں دیکھ لیں جنہوں نے مذہب کے استعمال کے ایسے گھناٶنے طریقے اختراع کیے کہ بیچاری قوم جس کا خمیازہ آج تک بھگت رہی ہے۔
سیاست اور ریاست میں مذہب کے استعمال کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خود انسانی تاریخ۔ ہماری اپنی تاریخ ایسے بے شمار سفاک اور زہر ناک سانحات سے بھری پڑی ہے۔ کیا ہم قاتلین عثمان کو نہیں جانتے، جنہوں نے دین اور طرز حکمرانی میں اختلاف کر کے خلیفہٕ سوم کو مسجد میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوٸے شہید کردیا تھا؟
خلیفہٕ دوم کو حالت نماز میں زہریلے خنجر سے وار کر کے شہید کرنے والا بد بخت ابو لو لو فیروز ہمارے کچھ فرقوں کے نزدیک مسلمان نہیں تھا؟ خلیفہٕ چہارم کو شہید کرنے والے خارجی عبدالرحمٰن بن ملجم نے مذہب کے نام پر یہ قتل نہیں کیا تھا؟اسی بدبخت نے مذہب کے نام پر دو اور سخت گیر خارجیوں برک بن عبدااللہ اور عمرو بن بکر کو ساتھ ملا کر اس وقت کی تین عظیم مسلمان شخصیتوں حضرت علی ابن ابی طالب، معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو بن عاص کو قتل کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا؟
جنگ صفین کے بعد حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد پیدا ہونے والے خارجی گروہ نے مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم نہیں کیا تھا؟اتمام حجت کے بعد جب حضرت علی اور امیر معاویہ جنگ کرتے ہوٸے انہیں قتل کر رہے تھے تو ان کے بیان کے مطابق ان کے حلق سے قرآن کی تلاوت کی آواز آتی تھی۔ چند ہزار فتنہ پرور خوارج نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ جو مسلمان ان کا ساتھ نہیں دے گا، قتل کر دیا جاٸے گا۔ وہ اپنے عقاٸد میں نہایت پختہ، ہٹ دھرم، تلاوت قرآن پاک اور خوش الحانی میں یکتا، جہالت، تنگ نظری اور شدت پسندی میں انتہاٸی سخت گیر اور متعصب واقع ہو ٸے تھے۔ بدقسمتی سے یہ سب فتنہ و فساد انہوں نے مذہب کے نام پر برپا کر رکھا تھا۔
کربلا کے مقام پر بھی یزید نے مذہب ہی کے نام پر نواسہٕ رسولﷺ اور ان کے بہتر ساتھیوں کو ریگ صحرا پر تڑپا تڑپا کے قتل کیا تھا۔ ابھی کل کی بات ہے مذہبی جنونی طالبان نے مذہب کے نام پر پاکستان کے کوچہ و بازار کو بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگین کر دیا تھا۔ ہمار ے عسکری ادارے اب تک اس خونی عفریت پر قابو پانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرر ہے ہیں۔ ظہیر الدین بابر نے پانی پت کی پہلی جنگ میں اپنے مد مقابل کلمہ گو ابراہیم لودھی کے خلاف اپنی سپاہ کو قرآن اور مذہب کے نام پر اکسا کر کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے۔ امیر تیمور نے بھی مذہب ہی کا استعمال کر کے انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے تھے۔
ہمارے ہاں تو مذہب کے غلط استعمال کی بے شمار قبیح مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے اگر عمران خان کو یہ طعنہ دیا ہے کہ انہوں نے مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا ہے تو اس میں کیا غلط کہا ہے۔ دین کے ٹھیکیداروں نے غیظ و غضب کے عالم میں ان پر تبرا بازی شروع کر کے پہلے سے گھٹن زدہ معاشرے میں مزید کشیدگی اور زہرناکی پیدا کردی ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments