کیا انڈین نژاد رشی سُونک برطانیہ کے وزیراعظم بن کر نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں؟

زبیر احمد - بی بی سی نیوز، لندن


رشی سونک
رشی سُونک برطانوی وزیر اعظم بننے کے دوڑ میں آگے ہیں
ایک وقت تھا جب انڈین نژاد لوگوں کو برطانیہ میں کئی طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ تب یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب ان میں سے کوئی شخص اس ملک کا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھے گا۔

برطانیہ میں حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ وریندر شرما اب 75 سال کے ہو گئے ہیں۔ وہ 55 سال قبل انڈین پنجاب سے لندن آئے تھے۔

اپنے ابتدائی دنوں میں ہونے والے امتیازی سلوک کا ذکر کرتے ہوئے وریندر شرما نے بی بی سی کو بتایا کہ ’1960 کی دہائی میں گھروں کے باہر لکھا ہوتا تھا کہ ’کرائے کے لیے دستیاب یہ گھر ایشیا سے تعلق رکھنے والوں اور سیاہ فاموں کے لیے نہیں ہے‘، اسی طرح کلبوں کے باہر لکھا ہوتا تھا کہ ’کتوں، آئرش، خانہ بدوشوں اور سیاہ فاموں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے‘۔ اسی طرح انگریز جب انڈیا کے لوگوں کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ تو ہمارے غلام تھے، اب ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں۔‘

لیکن اب برطانیہ میں وریندر شرما جیسے کئی انڈین نژاد رکن پارلیمان ہیں۔ بورس جانسن کی حکومت میں کابینہ کے کئی وزرا بھی انڈین نژاد تھے۔

رشی سُونک، جو بورس جانسن کی کابینہ کے وزیر تھے، آج وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔

سُونک برطانیہ کے وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں اور کنزرویٹو پارٹی کے اہم رہنما ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں 42 سالہ رشی سُونک کا مقابلہ لز ٹرس سے ہے۔ ٹرس پارٹی کی تجربہ کار رہنما بھی ہیں۔

کنزرویٹو پارٹی کے 160,000 اراکین برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم منتخب کرنے کے لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کو ووٹ دیں گے۔ اس دوڑ میں کون جیتے گا، یہ پانچ ستمبر کو پتہ چلے گا۔

رشی سنک کون ہیں؟

رشی سونک

سُونک بورس جانسن کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے

رشی سنُوک ’انفوسس‘ کے بانی این آر نارائن مورتی کے داماد ہیں۔ اُن کی اہلیہ اکشتا مورتی برطانیہ کی امیر ترین خواتین کی فہرست میں شامل ہیں۔

سُونک بورس جانسن کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے اور سنہ 2015 سے رچمنڈ، یارکشائر سے کنزرویٹو ایم پی منتخب ہوئے۔

ان کے والد ایک ڈاکٹر اور والدہ فارماسسٹ تھیں۔ اُن کے خاندان کے افراد مشرقی افریقہ سے برطانیہ آئے تھے۔

ان کی تعلیم ایک خصوصی پرائیویٹ سکول ونچسٹر کالج میں ہوئی جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ آکسفورڈ گئے تھے اور بعد میں سٹینفورڈ یونیورسٹی سے انھوں نے ایم بی اے کیا۔

سیاست میں آنے سے پہلے انھوں نے سرمایہ کاری بینک ’گولڈمین سیکس‘ میں کام کیا۔

تو کیا یہ ممکن ہے کہ برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم انڈین نژاد ہو؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے بی بی سی نے برطانوی معاشرے کی مختلف برادریوں اور برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے اراکین سے بات کی۔

فائل فوٹو

بورس جانسن کی کابینہ میں انڈین اور پاکستانی نژاد وزرا شامل تھے

ایک شاندار امیدوار لیکن۔۔۔

لندن سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر چیلٹن ہیم برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی کا گڑھ ہے۔ یہ بنیادی طور پر سفید فام لوگوں کا شہر ہے۔

شہر کی ایک نوجوان خاتون نے رشی سُونک کے وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں رہنے پر کہا کہ ’معیشت کے لیے تو وہ بہتر ثابت ہوں گے کیونکہ وہ ایک ماہر معاشیات ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اس لحاظ سے اُن کا کیس زیادہ مضبوط ہے۔‘

جبکہ ان کی ایک ساتھی نے کہا کہ ’ان کی پالیسیاں ان جیسے امیر لوگوں کے علاوہ کسی کی مدد نہیں کرتیں۔ اسی لیے میں ان میں سے کسی کی حمایت نہیں کرتی۔‘

میں نے ایک خاتون سے پوچھا، کیا برطانوی معاشرہ ایک غیر سفید فام وزیراعظم کے لیے تیار ہے؟

خاتون نے جواب دیا ’ذاتی طور پر میں اس کے بارے میں نہیں سوچتی لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں بالکل تیار ہوں۔ میرا جھکاؤ رشی کی جانب ہے۔‘

میں نے شہر کے بازار میں ایک آدمی سے پوچھا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہاں کا معاشرہ کسی براٰؤن نسل کے وزیراعظم کے لیے تیار ہے، اس شخص نے کہا ’میں ضرور تیار ہوں، میں کسی اور کے بارے میں نہیں جانتا لیکن ہاں، میرا خیال ہے کہ یہ اچھا ہو گا۔‘

برطانیہ

پاکستانی نژاد لوگ بھی رشی سُونک کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں

پاکستانی نژاد لوگوں کی حمایت

برمنگھم برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں کی آبادی میں تنوع نظر آتا ہے۔ شہر میں حال ہی میں دولت مشترکہ کھیلوں کی ثقافتی تقریبات میں اس تنوع کو محسوس کیا گیا۔

یہاں پاکستانی نژاد لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔ کیا پاکستانی نژاد لوگ انڈین نژاد رشی سُونک کو وزیر اعظم بنانا پسند کریں گے؟

جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلنے والے ایک شخص نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ اب پورا معاشرہ اتنا سمجھدار ہو گیا ہے کہ وہ قابلیت کو دیکھے گا، یہ نہیں دیکھے گا کہ اس آدمی کی نسل یا اس کا رنگ کیا ہے یا وہ کہاں سے آیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ رشی ایک قابل آدمی ہیں، اس لیے مجھے اُن پر یقین ہے کہ وہ ایک اچھے وزیر اعظم بھی بنیں گے۔‘

ایک اور شخص نے کہا ’میں سمجھتا ہوں کہ اقلیت ہونے کی وجہ سے، برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر رشی ایک بہترین امیدوار ہیں۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر میرپور سے انگلینڈ میں آباد ایک اور شخص نے کہا ’میرے خیال میں رشی سُونک کو وزیر اعظم بننا چاہیے کیونکہ پچھلے کئی برسوں سے ہم نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر سفید فام لوگ وزیر اعظم بنتے ہیں تو اب انڈین نژاد یا ایشیائی نژاد وزیر اعظم ہونا چاہیے، جس کی وجہ سے بھی کافی تبدیلی کی توقع ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

رشی سُونک: انڈین نژاد برطانوی وزیر خزانہ کون ہیں؟

ساجد جاوید مستعفی، رشی سونک برطانیہ کے نئے وزیر خزانہ

بورس جانسن پارٹی قیادت سے مستعفی، نئِے رہنما کے انتخاب تک وزیر اعظم رہیں گے

رشی سونک

PA Media
رشی سُونک کی پالیسیوں کے بارے میں لوگوں کی مثبت رائے دیکھنے میں آئی

رشی سُونک ایک ہندو ہیں اور مذہبی طور طریقے بھی اپناتے ہیں۔ سنہ 2015 میں پہلی بار پارلیمانی انتخابات جیتنے کے بعد، انھوں نے بھگوت گیتا پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا تھا۔ انڈین نژاد لوگ اُن کی جیت کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ لیکن کیا وہ واقعی وزیر اعظم بننے کے مضبوط دعویدار ہیں؟

رشی سُونک 12 مئی 1980 کو ساؤتھمپٹن شہر میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ ان کے والدین اب بھی اسی شہر میں رہتے ہیں، وہ اور ان کے خاندان کا ویدک سوسائٹی ’ہندو مندر‘ سے گہرا تعلق ہے۔

جب بی بی سی کی ٹیم اس مندر میں پہنچی تو ہماری ملاقات 75 سالہ نریش سونچاٹلا سے ہوئی۔ سون چاٹلا رشی سُونک کو بچپن سے جانتے ہیں۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ وہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو اس کی وجہ ان کی جلد کی رنگت ہو سکتی ہے۔‘

سنجے چندرانا اس مندر کے صدر ہیں۔ ان کے مطابق رشی کے ساتھ امتیازی سلوک کی کوئی امید نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’اس ملک میں دیکھا جاتا ہے کہ کس کی پالیسی اچھی ہے، کس کا رویہ درست ہے، کون اس ملک کو آگے لے کر جائے گا۔ رنگ یا نسل سے اتنا فرق نہیں پڑتا۔‘

بھلے ہی سماج میں رشی کی مقبولیت لِز ٹرس سے زیادہ دکھائی دے رہی ہے، لیکن جیت یا ہار کا فیصلہ ان کی پارٹی کے ارکان ہی کریں گے۔ کنزرویٹو پارٹی کی نوجوان نسل رشی کے حق میں نظر آتی ہے لیکن سینیئر ارکان رشی کے بارے میں مختلف خیالات رکھتے ہیں۔

لز ٹرسٹ اور رشی سُونک

وزیراعظم کے عہدے کے لیے لز ٹرسٹ اور رشی سُونک کے درمیان مقابلہ ہے

پارٹی کے اندر کا ماحول

پارٹی دونوں رہنماؤں کے درمیان ملک کے مختلف شہروں میں مباحثے کر رہی ہے۔ ان ایونٹس کو ’ہسٹنگز‘ کہا جاتا ہے۔

انتخابات میں لز ٹرس کو واضح برتری حاصل ہے، لیکن ہسٹنگز کے ساتھ ہونے والے پروگراموں میں، پارٹی کے ارکان لز ٹرس کے مقابلے رشی سُونک کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ سارا ماحول رشی کی جانب بنا ہوا لگتا ہے۔

رشی کی مہم ٹیم لز کی ٹیم سے زیادہ منظم دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ رشی کی ٹیم میں نوجوان زیادہ ہیں، اس لیے ان کے کیمپ میں زیادہ جوش و خروش ہے۔

لز کی ٹیم میں پارٹی کے پرانے لوگوں سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب رشی کے کیمپ میں ہر طرف مثبت رویہ دیکھا جا رہا ہے۔

رچرڈ گراہم گلوسٹر حلقے سے کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ہیں اور رشی سُونک کے حامی ہیں۔

رچرڈ گراہم

رچرڈ گراہم: کنزروٹیو کے رکن پارلیمان

رشی کے لیے تیار…

ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا لوگ رشی کے لیے تیار ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا ’میں تیار ہوں اور بہت سے دوسرے بھی۔ ان میں کنزرویٹو پارٹی کے زیادہ تر ارکاِن پارلیمنٹ شامل ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ ملک بھر میں ہمارے ممبران کی ایک بڑی تعداد تیار ہے۔ لیکن ہم اراکین کی رائے کا انتظار کریں گے۔ ہم سب رشی کو صحیح انتخاب کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس مقابلے میں جیت کے لیے کسی کا رنگ کوئی کردار ادا کرے گا۔‘

رشی سُونک کی مہم ٹیم کے ایک رکن نے امتیازی سلوک کے معاملے پر کہا ’یہ سوچیں بھی نہیں کہ یہ ایک قابل بحث مسئلہ ہے۔ میرے خیال میں ہم جس پر بحث کر رہے ہیں وہ امیدواروں کی پالیسیاں ہیں۔‘

ٹیم کے ایک نوجوان رکن نے کہا ’مجھے نہیں لگتا کہ رشی کا پس منظر کوئی تشویش کا باعث ہو گا۔ عام طور پر لوگوں کو ان کے کام کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے نہ کہ ان کی نسل یا بیک گراؤنڈ کی بنیاد پر۔ کووڈ کے دوران رشی سُونک کی فرلو جیسی پالیسی نے لاکھوں لوگوں کو ان کی ملازمتوں میں قائم رکھا، لاکھوں چھوٹے کاروباروں کی مالی مدد کی اور معیشت کو ڈوبنے سے بچایا۔‘

انڈین نژاد ہونے کے نقصانات؟

بات چیت میں بہت سے لز ٹرس کی حامی بھی موجود تھے، جن میں سے ایک نے کہا ’میرے خیال میں لز حقیقی قدامت پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ہمیں اس ملک میں اسی کی ضرورت ہے۔ رشی ہم میں سے زیادہ تر سے کٹے ہوئے ہیں، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا پس منظر کیا ہے؟ 2010 کے بعد سے اور گذشتہ پانچ برسوں میں میں واقعی بہت بدل چکا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس وقت سیاہ فام یا کسی یا نسل سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

ہم نے مارسیا جیکو نامی ایک ریٹائرڈ خاتون ٹیچر سے پوچھا کہ کیا انھیں رشی سُونک کے وزیر اعظم بننے سے کوئی مسئلہ ہے؟

مارسیا جیکو

مارسیا جیکو ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں

ان کا کہنا تھا ’اس سے تھوڑا سا فرق پڑتا ہے حالانکہ میرے شوہر یہاں برطانیہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ لیکن ووٹ دیتے ہوئے میں اس کا خیال رکھتی ہوں۔‘

اور پھر وہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنی پسند کو واضح کرتے ہوئے کہتی ہیں ’مجھے رشی پسند ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ بہت ہوشیار شخص ہیں لیکن میرے لیے اگلی وزیر اعظم لز ہیں۔‘

اب نہیں تو 2024…

اس سال جولائی میں بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے پہلے مرحلے میں آٹھ امیدوار سامنے آئے تھے۔ آخری راؤنڈ سے پہلے، پارٹی کے تمام ممبران پارلیمنٹ نے، جنھوں نے رشی اور لز کو منتخب کیا تھا، تمام راؤنڈ میں ووٹ ڈالنا تھا۔

اب آخری راؤنڈ میں پارٹی کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ارکان کو ووٹ ڈالنا ہے۔

مڈل سیکس یونیورسٹی کی ڈاکٹر نیلم رینا کا خیال ہے کہ اس ملک کی اقلیتی نسلوں کے لیے وزیر اعظم بننے کا راستہ کھل گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’آپ نے دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے۔ اگر آپ کے پاس ہنر ہے تو پہلے نمبر پر آنے کا دروازہ کھلا ہے۔ لیکن یہ دروازہ فی الحال ایک دولت مند انڈین کے لیے کھلا ہے۔‘

اگر رشی سُونک وزیر اعظم بنتے ہیں تو یہ ایک تاریخی لمحہ ہو گا۔ ایک لحاظ سے اس کا موازنہ 2008 میں امریکی صدر براک اوباما کی امریکہ میں فتح سے کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر رینا کہتی ہیں ’اس معنی میں دیکھیں تو یہ تاریخی لمحہ ہو گا کیونکہ وہ یہ ثابت کرے گا کہ گذشتہ بیس برسوں میں جس تنوع اور سب کو ساتھ لے کر چلنے پر جو بات ہوئی ہے کیا وہ واقعی کام کر رہی ہے۔ اگر ہم جیت جاتے ہیں تو یہ بہت بڑی بات ہو گی۔‘

لیکن پارٹی ارکان کی رائے منقسم نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس بار نہ سہی تو 2024 کے انتخابات میں انڈین نژاد شخص کے وزیر اعظم بننے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32588 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments