’ڈبروگڑھ جیل‘ کی خصوصیات کیا ہیں جہاں خالصتان کے حامی امرت پال سنگھ کو رکھا جائے گا؟


ڈبروگڑھ جیل
BBC Sport
خالصتان کے حامی اور ’وارث پنجاب دے‘ تنظیم کے سربراہ امرت پال سنگھ کو گرفتار کر کے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کی ڈبرو گڑھ جیل میں لایا جا رہا ہے۔

امرت پال سنگھ کو اتوار کے روز موگا کے روڈے گاؤں سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد انھیں بھٹنڈہ ایئر فورس سٹیشن لے جایا گیا، جہاں سے انھیں ڈبرو گڑھ جیل لایا جا رہا ہے۔ وہ 18 مارچ سے مفرور تھے۔

پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (ہیڈ کوارٹر) سکھ چین سنگھ گل نے اتوار کی صبح ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ امرت پال سنگھ کو آسام کی ڈبروگڑھ سینٹرل جیل بھیج دیا گیا ہے۔

امرت پال سنگھ کی تنظیم ’وارث پنجاب دے‘ سے وابستہ کچھ افراد پہلے سے ہی ڈبرو گڑھ کی سینٹرل جیل میں بند ہیں اور ان پر قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔

امرت پال سنگھ کے چچا ہرجیت سنگھ اور ان کے ساتھی مارچ سے ہی یہاں قید ہیں۔ انھیں مارچ میں پنجاب سے گرفتار کر کے یہاں لایا گیا تھا۔

اس لیے اس وقت شمال مشرقی انڈیا کی قدیم ترین جیلوں میں سے ایک ’ڈبرو گڑھ سینٹرل جیل‘ شہ سرخیوں میں ہے۔

جب سے امرت پال کے ساتھیوں کو ڈبرو گڑھ جیل میں لایا گیا ہے، جیل کے احاطے میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔

امرت پال سنگھ

امرت پال سنگھ

امرت پال کو ڈبرو گڑھ جیل کیوں لایا جا رہا ہے؟

امرت پال کے ساتھیوں کو اتنی دور ڈبرو گڑھ جیل میں بند کرنے کے پیچھے حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی راجیو دتہ کہتے ہیں: ’دراصل، جس طرح سے امرت پال سنگھ کے حامیوں نے ہتھیاروں کے ساتھ پنجاب تھانے کے اندر ہنگامہ برپا کیا تھا ویسا اتنی دور آسام میں آ کر کرنا آسان نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں: ’یہی وجہ ہے کہ حکومت نے این ایس اے ایکٹ کے تحت گرفتار کیے گئے ان لوگوں کو پنجاب اور اس کی پڑوسی ریاستوں کی جیلوں میں نہیں بھیجا اور یہاں اب حفاظتی انتظامات اتنے ہیں کہ ان کا ریل یا پرواز کے ذریعے ڈبرو گڑھ پہنچنا بہت آسان نہیں۔‘

’اس کے علاوہ، وہ ڈبروگڑھ جیل میں وہ کوئی گروہ بندی نہیں کر سکتے۔ ایک تو انھیں الگ سیلز میں رکھا گیا ہے اور اس جیل میں زبان ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوگی۔ اس لیے وہ جیل کے اندر کچھ نہیں کر سکتے۔‘

اس سے قبل سنہ 2017 میں سیوا ساگر سے آزاد ایم ایل اے اور کسان لیڈر اکھل گوگوئی کو این ایس اے کے تحت ڈبرو گڑھ جیل میں رکھا گیا تھا۔

آسام حکومت کے مطابق، ریاست میں کل 31 جیلیں ہیں، جن میں چھ مرکزی جیلیں، 22 ضلعی جیلیں اور ایک خصوصی جیل شامل ہیں۔ ریاست میں ایک اوپن ایئر جیل اور ایک سب جیل بھی ہے۔

سکیورٹی کے انتظامات کیسے ہیں؟

جیل میں داخل ہونے والے گیٹ کے باہر جدید ہتھیاروں سے لیس سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔

اس کے علاوہ جیل کے احاطے میں اضافی سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے گئے ہیں۔

ڈبرو گڑھ سینٹرل جیل جو کہ برطانوی حکومت کے دور میں سنہ 1859-60 میں قائم کی گئی تھی اس سے پہلے کبھی اتنی زیادہ گفتگو کا موضوع نہیں تھی اور نہ ہی کسی دوسری ریاست سے نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہونے والے کسی قیدی کو اس جیل میں رکھا گیا تھا۔

گذشتہ ماہ جب امرت پال کے ساتھیوں کو یہاں لایا گیا تو ڈبرو گڑھ ضلع کے ڈپٹی کمشنر بسواجیت پیگو نے یہاں کے سیکورٹی انتظامات کے بارے میں صحافیوں کو آگاہ کیا۔

انھوں نے کہا تھا: ’این ایس اے ایکٹ کے تحت حراست میں لیے گئے سات افراد کو ڈبرو گڑھ لایا گیا ہے اور سینٹرل جیل میں رکھا گیا ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے جیل کے اندر اور باہر متعدد سطحوں پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔‘

ڈپٹی کمشنر پیگو نے بتایا کہ ’این ایس اے کے تحت آنے والے قیدیوں کو جن سیل میں رکھا گیا اس کے آس پاس بھی کئی سطح پر حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ آسام پولیس کے علاوہ سینٹرل آرمڈ فورسز کے اہلکاروں کو بھی سیل کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔‘

جیل میں اتنی چوکسی کیوں؟

اس سے قبل آسام پولیس کے ڈائریکٹر جنرل جی پی سنگھ نے ایک ٹویٹ کے جواب میں لکھا تھا: ’پنجاب سے این ایس اے کے سات قیدی آئے ہیں۔ چار کو 19 مارچ کو لایا گیا تھا۔ ایک 20 مارچ کو اور دو کو 21 مارچ کو لایا گیا ہے۔‘

دراصل امرت پال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی سے جڑا یہ معاملہ بہت حساس ہے۔ ایسے میں مقامی انتظامیہ ڈبرو گڑھ سینٹرل جیل کے سکیورٹی انتظامات کے بارے میں کافی محتاط نظر آ رہی ہے۔

ڈبروگڑھ شہر کے وسط میں آسام ٹرنک روڈ کے قریب پھول باغان کے علاقے میں واقع یہ سینٹرل جیل تقریباً 47 بیگھہ اراضی (76,203.19 مربع میٹر) کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ سنہ 1859-60 میں قائم ہونے والی اس جیل کے مرکزی احاطے کے ارد گرد 30 فٹ اونچی دیواریں ہیں۔

دراصل، جون سنہ 1991 کے مہینے میں کالعدم انتہا پسند تنظیم الفا یعنی یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام کے پانچ ہائی پروفائل قیدی ڈبرو گڑھ جیل سے فرار ہو گئے ہیں۔

سنہ 1990 کی دہائی میں الفا نے ریاست میں سب سے زیادہ پر تشدد واقعات انجام دیے۔ اس واقعے کے بعد حکام نے جیل کی دیواروں کی اونچائی بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

ایسے میں امرت پال کے سات ساتھیوں کو پنجاب سے ڈبرو گڑھ جیل لانے پر کئی سینیئر وکلا بھی حیران ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’وارث پنجاب دے‘ کے سربراہ امرت پال سنگھ کون ہیں اور انڈیا کو دوبارہ اُبھرتی خالصتان تحریک سے کتنا خطرہ ہے؟

انڈین پنجاب میں خالصتان حامی گروپ کے خلاف ریاست گیر مہم، امرت پال ’مفرور‘ قرار

خالصتان تحریک کیا ہے اور سکھوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ پہلی بار کب اٹھایا گیا؟

سینیئر ایڈوکیٹ جوگیندر ناتھ باروہ جو گذشتہ 53 سالوں سے ڈبرو گڑھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پریکٹس کر رہے ہیں انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’مجھے اس عدالت میں پریکٹس کرتے ہوئے 53 سال گزر چکے ہیں، لیکن میں نے ڈبرو گڑھ سینٹرل جیل کے بارے میں اتنی بات کبھی نہیں سنی۔‘

’میرے علم کے مطابق اس سے قبل ریاست کے باہر سے این ایس اے ایکٹ کے تحت کسی بھی قیدی کو ڈبروگڑھ سینٹرل جیل میں نہیں لایا گیا ہے۔‘

صرف 1975 کی ایمرجنسی کے دوران کچھ لوگوں کو اس جیل میں ایم آئی ایس اے یعنی مینٹیننس آف انٹرنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت رکھا گیا تھا۔ ریاست کے باہر کے قیدی کو اس جیل میں لانے کا یہ پہلا کیس ہے۔’

برطانوی دور حکومت میں بنائی گئی جیل

ڈبروگڑھ سینٹرل جیل کے قیام کے بارے میں ایڈوکیٹ بروا کہتے ہیں: ‘یہ جیل برطانوی دور حکومت میں بنائی گئی تھی۔ حالانکہ جیل انتظامیہ کے ریکارڈ میں اس جیل کے قیام کا سرکاری سال 1859-60 بتایا گیا ہے۔’

‘لیکن پرانے دستاویزات کے مطابق برطانوی انتظامیہ نے سب سے پہلے سنہ 1843 میں سینٹرل جیل کی جگہ ایک عدالت قائم کی تھی اور ایک بدنام زمانہ مجرم بساگام سنگفو اور اس کے کچھ ساتھیوں پر مقدمہ چلایا تھا۔’

1843 میں برطانوی انتظامیہ نے اس جگہ پر فوجداری عدالت بنائی تھی اور مجرموں کو سزا سنانے کے بعد یہاں لایا جاتا تھا۔

83 سالہ بروا بتاتے ہیں کہ ‘سنگفو کی گرفتاری کے بعد، برطانوی حکومت میں اس وقت کے اپر آسام کے ڈپٹی کمشنر ڈیوڈ سکاٹ نے اس جگہ کو موجودہ ڈبرو گڑھ سینٹرل جیل کے وارڈ نمبر ایک میں تبدیل کر دیا، کیونکہ اس وقت یہ چنائی اینٹوں سے بنی واحد جگہ تھی۔’

ڈبرو گڑھ سینٹرل جیل کے قیام کے بارے میں معروف مصنفہ پروفیسر دیپالی بروا نے 1994 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ‘اربن ہسٹری آف انڈیا اے کیس سٹڈی’ میں لکھا ہے کہ ‘1840 میں برطانوی حکومت نے اس کی تعمیر کے لیے 2700 روپے پر مبنی ڈبروگڑھ جیل کی عمارت کی منظوری دی تھی۔

‘ڈبرو گڑھ جیل کی تعمیر میں لاگت کو کم کرنے کے لیے اس وقت قیدیوں سے کام لیا جاتا تھا۔ اس دوران اس جیل کو چاروں طرف سے باڑے سے گھیر دیا گیا تھا جس میں ایک ہسپتال بھی تھا۔

‘جب برطانوی افسر مل سنہ 1853 میں آسام آئے تو انھوں نے ڈبرو گڑھ جیل کی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے اینٹوں سے بنی پکی عمارت تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی۔’

‘اس وقت جیل میں 50 قیدی تھے اور ان میں سے کچھ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر اور کمہار اور لوہار کے طور پر کام کرتے تھے۔ 1857-58 میں جیل میں قیدیوں کی روزانہ اوسط تعداد 45 تھی۔’

خواتین قیدیوں کے لیے چار وارڈ

دراصل برطانوی حکومت نے ڈبرو گڑھ میں ایک فوجی اڈہ قائم کیا تھا۔ ڈبرو گڑھ کو 1840 میں ہی ضلع کا صدر مقام بنایا گیا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ اس جیل کی تعمیر کے وقت یہاں 500 سے زائد قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش تھی۔

کچھ سال پہلے، قومی انسانی حقوق کمیشن کی ایک ٹیم نے حکومت ہند کے ایک فلیگ شپ پروگرام کے تحت ڈبرو گڑھ سینٹرل جیل کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران جیل میں قیدیوں کے لیے صرف ایک مرکزی باورچی خانہ تھا۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسی کچن میں خواتین قیدیوں کے لیے کھانا تیار کیا جاتا تھا اور بعد میں کھانا خواتین کے وارڈ میں بھیجا جاتا تھا۔

کمیشن کی رپورٹ میں مرد قیدیوں کے لیے 24 وارڈز جبکہ خواتین قیدیوں کے لیے چار علیحدہ وارڈز کا ذکر تھا۔

جیل میں سنگین جرائم یا شدت پسند تنظیموں کے خطرناک کیڈرز کو رکھنے کے لیے انتہائی محفوظ سیل

حالانکہ آج بھی اس جیل میں تمام قیدیوں کے لیے ایک ہی مین کچن ہے۔ ڈبروگڑھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے چیف ایڈمنسٹریٹو آفیسر ایم حسین نے کہا تھا: ‘اس وقت ڈبرو گڑھ سینٹرل جیل میں ایک مرکزی باورچی خانہ ہے، جسے تھوڑا بڑا بنانے کے لیے اس کی مرمت اور تزئین کی جا رہی ہے۔’

قیدیوں اور جیل میں موجود سہولیات کے بارے میں انتظامی افسر حسین نے کہا: گذشتہ فروری کے موجودہ سٹیٹمنٹ کے مطابق، ڈبرو گڑھ سینٹرل جیل میں کل 445 قیدی بند ہیں، جن میں سے 430 مرد قیدی اور 15 خواتین قیدی ہیں۔

ان قیدیوں میں دو غیر ملکی شہری بھی شامل ہیں۔ اس وقت اس جیل کی رجسٹرڈ گنجائش 680 ہے لیکن یہاں کبھی بھی قیدیوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ نہیں رہی ہے۔

اس کے علاوہ جیل میں پینے کے صاف پانی کا مکمل نظام موجود ہے۔ جیل میں مردوں اور عورتوں کے لیے کل 94 الگ الگ بیت الخلا ہیں۔

جیل کے اندر ایک ہسپتال ہے جس میں ڈاکٹر، نرسیں، لیب ٹیکنیشن، فارماسسٹ اور بہت سے دوسرے لوگ تعینات ہیں۔ جیل میں ایک سکول بھی ہے جہاں ایک استاد کو تعینات کیا گیا ہے۔

جیل کے اندر ایک بڑا باغ ہے جہاں سزا یافتہ قیدیوں کو کام پر لگایا جاتا ہے۔ بہت سے قیدیوں کو دستکاری کی تربیت دی جاتی ہے اور انھیں گھریلو سامان بنانا سکھایا جاتا ہے۔

ان کے مطابق اس جیل میں بدنام زمانہ مجرم، ڈاکو، زیر سماعت قیدی اور عمر قید کی سزا کاٹنے والے کئی بڑے مجرم قید ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق اس جیل میں سنگین جرائم یا شدت پسند تنظیموں کے خطرناک کیڈرز کو رکھنے کے لیے انتہائی محفوظ سیل موجود ہے۔ عام طور پر دوسرے قیدیوں کو اس سیل کی طرف جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ایمرجنسی اور ڈبروگڑھ سینٹرل جیل

ایمرجنسی کے دوران اس جیل میں 19 مہینے گزارنے والے ڈبروگڑھ کے ایک سینیئر وکیل اسیم دتہ اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘اس وقت کوئی این ایس اے ایکٹ نہیں تھا، اس لیے مجھے 25 جون 1975 کو انٹرنل سکیورٹی سسٹم ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔’

‘ہمیں عام قیدیوں کی طرح نہیں رکھا گیا۔ جیل میں حفاظتی اقدام کے تحت لائے جانے والے قیدیوں کے لیے کپڑوں سے لے کر کھانے پینے تک کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ عام قیدیوں سے ہمارے کام کروائے جاتے تھے۔’

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے آسام علاقے کے سنگھ چالک رہنے والے اسیم دتہ کے مطابق سنہ 1975 میں ڈبرو گڑھ جیل میں مردوں کے لیے 11 اور خواتین کے لیے صرف ایک وارڈ تھا۔

وہ کہتے ہیں: ‘مجھے نہیں لگتا کہ ڈبرو گڑھ جیل میں قیدیوں کی سہولیات کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی آئی ہو گی۔ کھانے پینے کی سہولیات پہلے ٹھیک ہوئی ہوں گی اور آج کل قیدیوں کو مچھر دانی دی جاتی ہے لیکن عام قیدی وہاں مصیبتوں کے ہی دن گزارتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32757 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments