پہاڑوں کی انگڑائیاں (4)


بہرحال اگلا دن ہمارا یہاں آخری دن تھا۔ الوداعی تقریب تھی۔ مختلف سر گرمیاں انجام دی گئیں۔ اس تقریب میں باہر سے کچھ مہمان بھی آئے تھے۔ میڈم راحیلہ عارف قصور سے تھیں۔ وہ گرلز گائیڈ کی کمشنر کے طور پر اپنے فرائض ادا کر رہی تھیں۔ دو خواتین پنڈی سے تھیں۔ انھوں نے سفید رنگ کی ساڑھی جس پر سبز رنگ کا ربن لگا ہوا تھا۔ گویا یہ بھی گرل گائیڈ کا یونیفارم تھا۔ مہمانان گرامی کا پر زور استعمال کیا گیا۔ گائیڈ کلیپ کی گونج دلوں کو بھا رہی تھی۔

میڈم راحیلہ نے اس کیمپ کی تمام سرگرمیوں کا سراہا۔ اخر میں گرل گائیڈ کیمپ میں شرکت کرنے والوں کو سرٹیفکیٹ تقسیم کیے۔ ایک ہفتے کی تمام سرگرمیوں میں شرکت کرتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون کیا گیا تھا۔ اب سب بچھڑنے کے باعث کچھ اداس تھے۔ رات کو طالبات نے ہلہ گلہ کیا، نیند کوسوں دور تھی۔ سب نے اپنی اپنی پیکنگ کی۔ اگلے دن ناشتہ کرنے کے بعد ایک دوسرے کے احوال دریافت کیے اور اپنے تجربات اور احساسات باہم بیان کیے۔

دوپہر کے کھانے کے بعد اسلام آ باد (لوک ورثہ) یادگار پاکستان عجائب گھر، فیصل مسجد جانا تھا۔ میڈم شکیلہ نے سب سے کہا گاڑیاں آنے والی ہیں سب اپنا سامان اوپر والے دروازے کے پاس لے جائیں۔ بہت سی سیڑھیاں چڑھ کر ہی جانا تھا۔ ہماری طالبات اور مس فائزہ نے سب کے بھاری بیگ باری باری اٹھا کر بڑے دروازے تک پہنچائے۔ سب گاڑیوں کا انتظار کرنے لگے۔ سب جاتے ہوئے لمحات اپنے اپنے موبائل میں قید کر رہے تھے۔ وہاں ایک درخت انجیر کا تھا سب نے پکے ہوئے انجیر توڑ کر کھائے۔

ایک پودا جاپانی ٹماٹر کا تھا ہم نے اتنا بڑا ٹماٹر کا پودا پہلی بار دیکھا تھا۔ ابھی ٹماٹر سبز دھاری دھار تھے، پکنے میں ابھی وقت تھا۔ گاڑیاں آ چکی تھیں سب سوار ہوئے اور گاڑیاں چل پڑیں۔ جیسے جیسے گاڑی اسلام آ باد کی طرف بڑھ رہی تھی گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ سڑکیں بھی کچھ کشادہ اور مری کی نسبت ہموار تھیں۔ چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد ہم سب ”یادگار پاکستان عجائب گھر (لوک ورثہ)“ پہنچے۔ وسیع رقبے پر پھیلا یہ عجائب گھر، تحریک پاکستان، پاکستانی ثقافت و تہذیب کی کہانی سنا رہا تھا۔

ٹکٹیں لے کر اندر داخل ہوئے تو ایسے لگا جیسے حال کے جھروکوں سے ماضی کو دیکھ رہے ہوں۔ علامہ اقبال کے مختلف انداز سے مجسمے موجود تھے۔ قائد اعظم، فاطمہ جناح، لیاقت علی خان اور بہت سے اہم رہنماؤں کے مجسمے موجود تھے۔ اسی طرح سکھوں، ہندووں کے مجسمے بھی تھے۔ گاندھی کا مجسمہ بھی تھا۔ میڈم شکیلہ علامہ اقبال کے ایک مجسمے کے پاس پہنچی جہاں علامہ اقبال اپنے رخسار پر ہاتھ رکھے کسی گہری سوچ میں ڈوبے نظر آ رہے تھے۔

ان کو دیکھ کر کہنے لگی ”بابیو (بزرگو) ! یہاں بیٹھے سوچ میں پڑے ہو۔ ہمارے ملک کے لیے بھی کوئی دعا کر دیں۔ پاکستان کن حالات سے دو چار ہے“ اس جگہ پہنچ کر لگ رہا تھا ہم بھی اسی دور میں ان لوگوں کے ساتھ پاکستان کے لیے جدوجہد میں شامل ہیں۔ انتہائی خوبصورت اور پر کشش جگہ ہے۔ یہ پاکستان کی کہانی سناتی نظر آتی ہے۔ یہاں ہم نے نماز عصر ادا کی۔ اور شکر پڑیاں کے کچھ راستے تک گئے اور وقت کی کمی آڑے آئی اور جلد ہی فیصل مسجد کا سفر شروع ہو گیا۔ فیصل مسجد ہم مغرب کے وقت پہنچے۔ وہاں مغرب کی نماز ادا کی نماز ادا کرنے کے بعد فیصل مسجد کے ہر کونے تک گئے۔ اس کی خوبصورتی دل کو اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔ معماروں کی ہنر مندی اور فن کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ عشا کی اذان دل و دماغ کو سکون بخش رہی تھی۔ امام مسجد کی امامت میں ہم نے عشا کی نماز ادا کی۔ ذہنی قلبی سکون محسوس ہوا۔ یہاں سے ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا۔

تقریباً ساڑھے گیارہ بجے رات پنڈی اسٹیشن پہنچے۔ وہاں جا کر کچھ دیر آرام کیا۔ پلیٹ فارم پر ہی کپڑے بچھا کر بیگ کو تکیہ بنا کر نیم دراز ہوئے۔ گاڑی آج کچھ تاخیر سے آئی۔ ایک بجے ٹرین چلنا شروع ہوئی۔ رات کے وقت سوئے۔ آنکھوں میں کاٹنا مشکل ہو رہا تھا۔ مس پروین تو حسب معمول برتھ پر چڑھ کر سو گئی۔ مس نبیلہ بھی پوری سیٹ پر دراز ہو کر جلد ہی خراٹے لینے لگی۔ طالبات بھی اوپر والی برتھ پر سو گئیں۔ ایک سیٹ پر میرے ساتھ مس فائزہ بھی تھی۔

ایک سیٹ پر ہم دو تو سو نہیں سکتی تھیں۔ اگرچہ میں تھک چکی تھی نیند سے برا حال تھا۔ پھر بھی جب میں نے دیکھا مس فائزہ پوری سیٹ پر دراز ہو چکی ہے۔ سوچا میں ہی اپنی نیند کی قربانی دے دوں۔ ساری رات اٹھتے بیٹھتے ہی گزار دی۔ دیکھ رہی تھی شاید کسی کو میرا خیال بھی آ جائے لیکن اپنی نیند کون خراب کرتا ہے؟ ان کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی نیند کتنی پیاری ہے سب کو۔ اللہ اللہ کر کے لاہور اسٹیشن پہنچے ابھی اترے ہی تھے کہ فرید ایکسپریس اسٹیشن پر آ گئی اور ہم سوار ہو کر تقریباً ایک گھنٹے بعد رائے ونڈ اسٹیشن پر پہنچے۔ یہاں سے میرے ساتھی راجہ جنگ اور میں اپنے گھر والی گاڑی میں سوار ہوئی۔ گھر بحفاظت پہنچ گئے۔ انتہائی تھکن کے آثار عیاں تھے۔ کئی دن تک تھکاوٹ رہی۔

یہ ایک یاد گار سفر تھا۔ جسے میں فراموش نہیں کر سکتی۔ پہاڑوں کی انگڑائیاں آج بھی آنکھوں میں سمائی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments