سرمد کھوسٹ کی فلم ”زندگی تماشا“


میں برسوں سے ادب کا قاری اور فلم، ڈرامے کا ناظر ہوں اور ان کی تلاش میں رہتا ہوں۔ تقریباً روز ہی ایک فلم دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور بعض اوقات بہت اچھی فلم دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ بس ایسے ہی ”کہ آج کون سی فلم دیکھی جائے“ تلاش کرتے کرتے اچانک نظر پڑی کہ سرمد کھوسٹ نے سینما گھر پہ چلنے والی اپنی ایک فلم کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیا ہے۔ حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ سینما گھر میں تو کہیں نکیاں ہندیاں فلم دیکھی تھی۔

زندگی تماشا ”سرمد کھوسٹ کی ایک عمدہ فلم ہے۔ ہمارے سماج میں مذہبی تشدد پسندی کے بعد سیاسی مجاورت اور تشدد پسندی بھی در آئی ہے۔ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کا بری طرح شکار ہے اور اس فلم کا موضوع بھی مجھے عدم برداشت ہی لگا ہے۔ اس پر لکھنا، بولنا اور فلم بنانا آج کی اہم ضرورت ہے۔

فلم لکھی ہے نرمل بانو نے اور اسے ڈائرکٹ کیا ہے سرمد کھوسٹ اور کنول کھوسٹ نے۔ عرفان کھوسٹ صاحب سے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی ریکارڈنگ کے حوالے سے میری کافی ملاقاتیں رہیں۔ اس وقت سرمد اور کنول ابھی بچے تھے لیکن ان بچوں نے بڑے ہو کر اپنے باپ کا نام روشن کیا ہے اور خوب کیا ہے۔

موضوع تو جیسے کہ میں نے پہلے لکھا کہ عدم برداشت ہی ہے لیکن اس کو پردے پر جس خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے وہ کمال کا کام ہے۔ یہ کوئی عام سوڈو رومانس کی فلم نہیں بلکہ ایک بہت اہم موضوع پر ایک اہم فلم ہے اور مین سٹریم سینما سے اپنے سنجیدہ موضوع اور حقیقت نگاری کی وجہ سے بالکل الگ ہے۔ میں تو اسے آرٹ مووی ہی کہوں گا کہ اس میں میں وہ تمام تر خوبیاں موجود ہیں جو ایک آرٹ مووی میں ہوتی ہیں۔ فلم ساز کی انگلیاں سماجی سیاسی حالات کی نبض پر ہیں۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ فلم سینما بینوں کے لیے بنائی گئی ہے کیونکہ اس میں وہ گلیمر اور ”تفریح“ نہیں ہے جو وہاں والے کراوڈ کو پسند ہوتی ہے۔ مجھے تو یہ تجارتی کی بجائے ایک تجرباتی فلم لگی ہے۔ غیر روایتی اور علامتی۔

فلم کی کہانی ایک نعت خواں کے شب و روز کے گرد بنی گئی ہے۔ اندرون شہر کے ایک عام لیکن کسی حد تک مقبول نعت خوان کی روزمرہ کی زندگی۔ لیکن زندگی میں کبھی نہ کبھی کچھ غیر معمولی ہو جاتا ہے یا اسے غیر معمولی سمجھا اور بنا دیا جاتا ہے جس کی متشدد معاشروں میں سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ میں یہاں کہانی کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ یہ فلم دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور چونکہ اب یو ٹیوب پر آویزاں ہے تو ہر کوئی اسے دیکھ سکتا ہے۔

فلم میں مختلف لوگوں نے چھوٹے بڑے کردار ادا کیے ہیں، تیسری دنیا کے جھمیلوں میں پھنسے عام سے کردار، ہمارے دیکھے بھالے اور سب نے ہی اپنے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا ہے۔

فلم کا مرکزی کردار نعت خواں راحت خواجہ ( عارف حسن) ہے۔ اس رول میں ان کی اداکاری اس قدر حقیقی ہے کہ دیکھنے والا بھول جاتا ہے کہ وہ فلم دیکھ رہا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ نعت خواں بھی اسی کی طرح کا عام انسان ہے اور اس کا بھی دل ہے اور اسے محض نعت خواں ہونے کے باعث کسی پابندی کا شکار نہیں رکھنا چاہیے۔

صدف ( ایمان سلیمان ) نے نعت خوان کی بیٹی کا کردار نبھایا ہے اور خوب نبھایا ہے۔ ایک وقت ہوتا ہے جب بچے باپ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اور جب وہ بڑے ہو کر کسی مقام پر پہنچ جائیں تو ماں باپ ان کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ صدف ایک میڈیا ہاؤس میں کسی شعبے کی ٹیم لیڈ ہے اور جو غیر معمولی واقعہ راحت خواجہ کی وجہ سے برپا ہوتا ہے اس سے شدید متاثر ہوتی ہے۔ اپنے منصب کے حساب سے ایک تکلیف دہ جنگ اس کے دل و دماغ میں برپا ہوتی ہے۔ اس کے رول میں بیک وقت ایک بیٹی کی باپ کے لیے محبت اور معاشرے میں پھیلے عدم برداشت کے شواہد پوری طرح عیاں ہیں۔

اس فلم میں نعت خواں کی بیمار بیوی فرخندہ کا کردار معروف آرٹسٹ سمیعہ ممتاز نے کیا ہے۔ وہ ایک ماہر اور مانی ہوئی صف اول کی اداکارہ ہیں۔ شوہر، بیٹی اور داماد کی باتوں کا جواب وہ ایک دلکش انداز میں دیتی ہیں اور بیماری کی وجہ سے اپنے چڑچڑے مزاج کو اپنی گفتگو پر حاوی نہیں ہونے دیتیں۔ یہ فنی پختگی بذات خود بہت سی داد کے قابل ہے۔

سرمد کھوسٹ نے کتھک کا چھوٹا سا لیکن تگڑا ٹکرا پیش کیا۔ اس کی طوالت تھوڑی اور ہونا چاہیے تھی لیکن شاید سرمد نے سارا وقت فلم کی ہدایت کاری کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ ایسے اہم اور سنجیدہ موضوع کے انتخاب کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ہدایت کاری میں کوئی جھول نہ ہو۔ کامیاب ہدایت کاری نظر آتی ہے اس فلم میں اور مجھے یہ فلم ”منٹو“ سے کہیں زیادہ پسند آئی ہے۔

میری معلومات کے مطابق اس فلم کو کم جی سیوک ایوارڈ اور سنو لیپرڈ ایوارڈ مل چکے ہین، فلم آسکر کے لیے بھی شامل کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں سنسر سے پاس ہونے کے باوجود اسے سینماؤں میں پیش کرنے پر قدغن ہے اور یہ تماشا تب تک جاری رہے گا جب تک معاشرہ عدم برداشت، عدم تحفظ جیسی لعنتوں سے پاک نہیں ہو گا۔

فلم میں پنجابی زبان کے مکالمات کرداروں نے ایسے مناسب طریقے سے ادا کیے کہ لطف آ گیا۔
یو ٹیوب پر فلم شروع ہونے سے پہلے، سرمد کھوسٹ کی کہی باتیں نہایت قابل غور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments