وحشی سماج اور پھول جیسی فاطمہ


سندھ کے ضلع خیرپور میرس کے شہر رانی پور میں پیروں کی حویلی میں کام کرتی دس سالہ بچی فاطمہ کی جنسی زیادتی کے بعد درد بھری موت کا سارے ملک اور امید ہے کہ عالمی سطح پر بھی لوگوں کو پتا ہو گا۔ فاطمہ کی میڈیکل رپورٹ اتنی خطرناک اور دردناک ہے کہ میں اس طبی جملوں کو یہاں بیان نہیں کر پا رہا اس رپورٹ پر تفصیل لکھنے کے لیے میرے ہاتھ اور دماغ دونوں کام چھوڑ چکے ہیں۔

میڈیکل رپورٹ مطابق دس سال کی یہ بچی فاطمہ کئی بار جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکی ہے انہوں نے پرانے زخموں اور جسم پر تشدد کا بھی جائزہ لیا، وہ انل اور ویجئنل سیکس دونوں کا کئی بار نشانہ بن چکی ہے۔

سندھ میں ہر دن کوئی نہ کوئی فاطمہ اس جنسی زیادتی کا نشانہ بن رہی ہے، سندھ میں ان کمسن بچیوں کی زندگی کے داستان بہت عجیب ہیں، خون کے فیول سے چلتے زندگی کے ان درد بھرے چراغوں کی دھندلی اور سرخ روشنی سے سندھ ایک مقتل جیسی دکھائی دے رہی ہے۔ وقت کی رفتار سے جہاں دنیا دوسرے سیاروں پر زندگی بسر کرنے کے لیے تحقیقات میں مصروفِ عمل ہے وہاں سندھ تاریخ کا اک درد بھرا داستان بنی ہوئی ہے، دن بہ دن سندھ کے زخم گہرے ہوتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے جا رہے ہیں۔ سندھ میں پس پردہ جو حقائق اور ظلمتوں کے داستان ہیں ان کو دیکھ کر سندھ آپ کو اکیسویں صدی کا ایک دردناک نوحہ لگے گی جہاں ہر شام افسردہ، ہر شب آب دیدہ اور سحر اذیت ناک ہے۔

ان فراڈی پیروں، مرشدوں، وڈیروں اور سیاسی باشندوں کی درباروں کے احاطے میں ہماری اک بڑی سوسائٹی قید ہے، ان غلامی کے تسلسل کو نسلوں کی رگوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ یہاں میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ ان پیروں، مرشدوں، وڈیروں اور سیاسی جماعتوں کی بڑھتے رجحان میں کئی فیصد اس سماج کا بھی کردار ہے۔ یہاں مسائل سے ہر شخص الجھا ہوا ہے اور زندگی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے، خطے کے سارے وسائل کو اپنے پنجے میں لے کر عوام کو درگاہوں کے صحن کا رخ دکھا کر خود عیاشیوں میں مصروف رہنے والے ان فراڈی حکمرانوں، پیروں، مرشدوں اور وڈیروں کا بھی سوسائٹی کی شعوری سطح کو مسمار کرنے میں مرکزی کردار رہا ہے۔ ان لوگوں کا بھی اس میں بہت اہم کردار ہے جو زندگی کو فکری درسگاہوں کی زینت بنانے کے بجائے تقدیر کی ترازو میں رکھ کر جعلی پیروں کی درگاہوں کے احاطوں میں قید کر رکھا ہے۔ قسمت کی بازی کے چکر میں اس کھیل کے نتائج کے انتظار میں بہت ساری زندگیاں ایکسپائر ہو رہی ہیں، اس دستور کا تسلسل بھی نسلوں میں منتقل ہو رہا ہے اور جس کو اس ماڈرن ایج میں بھی کوئی شکست نہیں مل سکی۔

درگاہوں، درباروں اور پیروں کی حویلیوں کا فلسفہ عقیدوں تک محدود ہونا چاہیے، ہم رواداری کے حساب سے ہر نظریے کا احترام کرتے ہیں لیکن ریاست اور حکومت کی زمینداری بھی درگاہوں اور ان جعلی پیروں پر سونپ دینا عوام کے ساتھ فراڈ ہے۔ لوگوں کو حقوق دینا ریاست کی زمینداری ہے پیروں اور مرشدوں کی نہیں جبکہ ریاست اور حکومت اپنی جان چھڑانے کے لیے عوام کا ذہنی استحصال کر کے ان کو ان ہاتھ سے بنائے ہوئے پیروں اور مرشدوں کا غلام بنا دیا ہے جہاں لوگ زندگی کی بخشش کا راستہ ڈھونڈے کے چکر میں اپنی کمسن بچیوں کو قربان کر رہے ہیں اور حکمران لوگ قہقہے مار کر وسائل پر قابض ہو رہے ہیں۔ اگر ریاست اور حکومت لوگوں کو حقوق دینے میں ناکام نہ بنتی تو آج پیروں کی حویلی میں گلاب کی مہک جیسی فاطمہ ایسی دردناک موت کا شکار نہ بنتی۔ جہاں دس سالہ بچی فاطمہ نام اپنی معاشی زندگی اور بھوک کی لعنت کو مٹانے کے لیے پیروں کی حویلی میں کام کرتی ہو اس کے ساتھ وہ ہر دن جنسی زیادتی کا نشانہ بنے ہوئے ہو وہاں انسانی حقوق کا معیار کیا ہو گا وہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ صرف اک رانی پور والی فاطمہ کا قصہ ہی نہیں بلکہ ان پیروں اور وڈیروں کی حویلیوں اور سیاسی درباروں میں ایسی کتنی ہی فاطمہ جیسی کمسن بچیاں قید ہیں۔ عالمی حقوق والی تنظیموں اور چائلڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ سے گزارش ہے کہ اس سوسائٹی کے ہر احاطے پر ایسے کیسز پر پردہ ہٹانے کے لیے انویسٹیگیشن کریں جس میں ارلی چائلڈ میرج، زبردستی شادیاں، کمسن بچیوں سے ریپ، چائلڈ لیبر اور دیگر منفی عناصر شامل ہیں۔ دکھ یہ ہے کہ اس سوسائٹی میں اب جاہلیت کی تناسب زیادہ ہے، یہ وڈیروں اور پیر جو لوگوں پر ظلمتوں کو تقدیر کی آزمائش بتا کر ان کے وسائل پر قابض ہو رہے ہیں اور انہیں اپنے پاس غلام رکھا ہوا ہے۔ آج کا وڈیرا بھی ماڈرن پیری اور مرشدی کی شکل میں آ کر ان پڑھے لوگوں کے ذہنوں کو ہائی جیک کر کے انہوں کو اپنا غلام بنا رہا ہے۔ جب روایتیں عقیدوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں تب معاشرے میں کسی بھی تبدیلی کا رونما ہونا ناممکن ہے۔ لوگوں کو ترقی کی راہوں پر ہٹانے کے لیے فیوڈل سسٹم، عالمی سامراج، کیپٹلزم اور بزنس پالیٹکس نے بہت سارے حربے استعمال کیے، جب وڈیروں اور سیاسی باشندوں کے خلاف تحریکوں نے زور پکڑا تو اس وڈیرے نے اپنا چہرہ تبدیل کر کے پیری مرشدی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ آج جو بھی یہ پیر ہیں یہ سب مصنوعی ہیں ان لوگوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور یہ پیر، مرشد اور مرید ووٹ بیک کا بھی اہم سورس ہیں۔ یہ سارا مسئلہ فیوڈل سسٹم، کیپٹلزم اور بزنس پالیٹکس کی گرد گھومتا جس نے درسگاہیں ویران رکھ کر سیاسی درباروں، اور جعلی پیروں کی مزاروں کو آباد کر کے عوام کو لاشعوری طرف دکھلانا، زندگی کی دردوں کو نصیب کا لکھا بتانا اور لوگوں کے حقوق اور عصمتوں پر قابض ہو کر سارے معاشرے کو خراب کر دیا ہے۔

تب ہی تو کہیں پیروں کی حویلیوں سے پھول جیسی فاطمہ کی لاش ملتی ہے تو کہیں قصور شہر میں کچرے کے ڈھیر پر کمسن زینب کی لاش کی آہیں آسمان تلک جا پہنچتی ہیں۔

اس لیے آج سندھ کو اس حویلیوں، سیاسی درباروں اور جعلی پیروں کے احاطوں سے نکل کر درسگاہوں کے آنگن پر رقص کرنا چاہیے۔ اپنے آپ کو جدید تقاضوں سے واقف کرنا چاہیے اور وقت کی اس تیز رفتار دوڑ میں حصہ لے کر اپنے روشن مستقبل کے لیے کچھ نیا سوچنا چاہیے نہیں تو کسی نہ کسی حویلی اور وحشی سماج سے ہر پھول جیسی فاطمہ کا لاش ملتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments