وحدت جرمنی (جرمن قومی ریاست کی تشکیل) 1871


موجودہ جرمنی آبادی کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا بڑا ملک اور 357387 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے اس کے شمال میں بحیرہ شمالی، ڈنمارک اور بحیرہ بالٹک، مشرق میں پولینڈ اور چیک جمہوریہ جنوب میں آسٹریا اور سوئیزرلینڈ اور مغرب میں فرانس، لکسمبرگ، بلجئیم اور نیدر لینڈ واقع ہیں۔ ”جرمنی“ لاطینی لفظ جرمینیا سے مختص ہے۔ یہ نام نامور رومن جرنیل اور حکمران ”جولیس سیزر“ ( 59 ق م تا 44 ق م) نے شمال وسطی یورپ کے خطے، جہاں جرمنک باشندے آباد تھے کو دیا تھا۔

یہ خطہ مشرق میں دریا ویستولا ( Vistula) سے مغرب میں دریا رائن اور شمال میں جنوبی اسکینیڈانیوا سے جنوب میں بالائی ڈینیوب تک پھیلا تھا۔ شہنشاہ آگسٹس ( 31 ق م تا 13 عیسوی) کے دور میں رومن افواج نے جرمنک قبائل کے علاقوں پر حملہ کر کے ”دریا رائن“ اور ”دریا ایلبا“ کے درمیان مختصر مدت کا صوبہ ”جرمینیا بنایا۔ 9 عیسوی میں رومن افواج نے Teutoburg کی لڑائی میں جرمن قبائل سے شکست کے بعد جرمنی کو فتح کرنے کا خیال ترک کر دیا۔ تاہم رومنوں نے مغربی اور جنوبی جرمنی کے بعض علاقوں (“ بادین ورتیمبرگ، ”، جنوبی باویریا“ ، جنوبی ہسسے ”، اور“ مغربی رائن لینڈ) کو رومی صوبوں میں شامل کیا تھا۔ (ان جرمن علاقوں کے شہروں میں رومن اثرات آج تک پائے جاتے ہیں )

جرمنک قبائل جنوبی سکینڈینویہ اور شمالی جرمنی سے جنوب، مشرق اور مغرب کے جوانب پھیلتے گئے جس کے دوران ان کا ”سیلٹک“ بالٹک ”اور“ سلاوک ”قبائل کے ساتھ واسطہ رہا۔ 260 ع سے جرمنک قبائل رومن کے زیر کنٹرول علاقوں میں در اندازی کرنے لگے تھے۔ رومنوں کے زوال کے ساتھ 395 ع سے وہ مزید جنوب مغرب کی طرف بڑھنے لگے۔ رومن سلطنت کے انہدام کے بعد یورپ میں شہری ریاستوں کا دور رہا اپنی طویل تاریخ میں جرمن شاذ و نادر متحد رہے۔

بیشتر عرصہ وہ لاتعداد چھوٹی بڑی شہری ریاستوں، ڈچیز اور راجداہنیوں میں تقسیم چلے آئے تھے۔ مگر 5 ویں صدی عیسوی میں دریا رائن کے مغربی جانب جرمن قبیلے“ فرانکس ”نے سلطنت قائم کی۔ ان کی فرانکس سلطنت موجودہ بلجئیم، فرانس، جرمنی نیدر لینڈ اور شمالی آٹلی پر مشتمل تھی اس کے بادشاہ“ کلویس ”482 تا 511 ) نے عیسائی مذہب اختیار کیا۔ 7 ویں صدی میں اقتدار کارلونگئین شاہی خاندان کو ملا جس میں سب سے نامور“ شارلیمان ”768 تا 814 ) رہا ہے اس نے سلطنت کی مزید توسیع کی۔

800 میں پوپ نے شارلیمان کی بطور قیصر (شہنشاہ) تاج پوشی کی تو اس وقت اس کی سلطنت بیشتر فرانس، جرمنی، نیدر لینڈ اور سوئزر لینڈ پر مشتمل تھی۔ اور دارالحکومت اچین (Aschen) تھا۔ جرمن شارلیمان کے تحت متحد ہونے لگے تھے۔ مگر شارلیمان کی موت کے کچھ عرصے بعد 843 میں اس کی سلطنت تقسیم ہو گئی۔ اس کے بعد اس کی حیثیت محض علامتی رہ گئی تھی۔ سلطنت کا مشرقی حصہ (موجودہ جرمنی) مغرب میں“ دریا رائن ”سے مشرق میں دریا ایلبا اور شمال میں بحیرہ شمالی سے جنوب میں“ کوہ الپس ”تک پھیلا تھا۔

اس کے باشندے اسی دوران خود کو جرمن کہلانے لگے تھے ان کی زبان اپنے مغربی فرانکس ( موجودہ فرانس) کے پرانے رشتہ دار قبائل سے مختلف ہو گئی تھی۔ 9 ویں اور 10 ویں صدی میں جرمنی ( مشرقی فرانکس) 5 حکومتیں یونٹس (باویریا، فراکونیا، سیکسنی، سوابیا اور لورین) پر مشتمل ایک ڈھیلا ڈھالا سیاسی یونین تھا۔ مختلف عوامل (قبائلی، مذہبی، کلچرل) ان کے پائیدار قومی اتحاد میں حائل تھے۔ مرکز کے بجائے اپنے قبیلے کی روایات سے زیادہ وابستگی اور وفاداری شارلیمان کے دور سے جرمن باشندوں کا خاصا ریا۔

بادشاہت کی روایت اگرچہ جرمنوں میں پنپی تھی اور ریاست کے ڈچیز کے حکمران ( ڈیوک) ایک بادشاہ کا چناؤ بھی کر لیتے تھے مگر وہ حقیقی معنوں میں کچھ زیادہ با اختیار نہیں ہوتا تھا۔ جرمن تاریخ میں بادشاہ کا اہم کردار ادا کرنے کی شروعات ڈیوک آف سیکسنی“ ہنری فولر ”(Henery Fowler) کے دور بادشاہت ( 919 تا 936 ) سے ہوتی ہیں۔ ہنری“ نے بڑے ڈچیز کے حکمرانوں کی اطاعت کو یقینی بنانے کے ساتھ نارتھ مین ”، ہنگری اور سلاوک قبائل کے یلغاروں کو روک لیا۔

936 میں اس کا بیٹا“ اوٹو دی گریٹ ”اس کا جانشین بنا جس نے شاہی اقتدار کو مستحکم کرنے علاوہ مشرقی جانب سلاوک علاقے زیر کرنے کی پالیسی جاری رکھی۔“ اوٹو ”نے اپنے کزن“ گریگری ”کو پوپ مقرر کیا جو پہلا جرمن پوپ تھا۔ 962 میں“ گریگری ”نے اس کی بطور رومن شہنشاہ تاج پوشی کی۔“ اوٹو ”اور بعد کے شہنشاہ خود کو قدیم رومن سلطنت کے جانشین گردانتے تھے۔ اس لیے وہ اپنی سلطنت کو رومن سلطنت کہتے تھے۔ 1157 سے اس کو مقدس رومن سلطنت کہا جانے لگا۔

سالئین (Salian) قبیلے کے حکمرانوں کے دور بادشاہت ( 1024 تا 1125 ) میں شمالی اٹلی اور بارگنڈی کو سلطنت میں ضم کر لیا مگر اسی دوران“ اینویسیچر ”تنازعہ ( 1077 ) کے دوران شہنشاہوں کا“ بشپ ”مقرر کرنے اختیارات ختم ہو گئے۔ 1356 میں گولڈن بل (Golden Bull) کا شہنشاہ کا انتحاب 7 الیکٹرز کے تحت کرنے سے ان کا اختیار مزید کم ہو گیا۔ 1273 سے مقدس رومن سلطنت کی شہنشاہی منصب پر ہیسبرگ شاہی خاندان کا تقریباً مستقل آجارہ ہو گیا تھا جس کے تحت جرمنی اتحاد محض علامتی تھا۔

سلطنت کے اندر جرمن شہزادے حسب سابق ایک دوسرے خلاف برسرپیکار رہتے تھے۔ 1512 میں سلطنت کے نام میں اضافہ کر کے“ مقدس رومن سلطنت آف جرمن نیشن ”رکھا گیا۔ مگر جرمنوں کی نا اتفاقی جاری رہی۔ 1517 کی پروٹسٹنٹ اصلاحی تحریک نے ان کو مذہبی اتحاد سے بھی محروم کر دیا۔ 1618 تا 1648 تک 30 سالہ لڑی جانی والی مذہبی جنگ سے اختلافات اور عسکریت میں شدت آئی۔ ویسٹ فیلیا امن معاہدہ ( 1648 ) کے بعد جرمنی کا بجا کچھا اتحاد عنقا ہوا۔

اس کے 300 سے زیادہ تمام ریاستیں عملاً خودمختار ہو گئیں۔ جرمن شہزادوں کو یکجا کر سکنی والی مقدس رومن سلطنت کی حیثیت برائے نام رہ گئی تاہم سلطنت کے غیر جرمن علاقوں آسٹریا، بوہمیہ اور ہنگری) پر آسٹریا کے جرمن ہیسبرگ شاہی خاندان کو کنٹرول حاصل تھا۔ ویسٹ فلایا کے بعد اگلی دہائیوں میں سلطنت سے وابستہ“ برینڈن برگ ”کی جرمن ریاست مستحکم ہونے لگی اور 18 ویں صدی کے ابتداء سے“ پرشیا ”کے نام سے ایک نئی طاقتور بادشاہت کی حیثیت سے ابھر آیا۔

اس کے بعد صدی کی وسط تک اس کی مقدس رومن سلطنت دوسری طاقتور بادشاہت آسٹریا کے ساتھ رسہ کشی اور لڑائیاں ہوتی رہیں۔ 1789 میں انقلاب فرانس کے کچھ سال بعد“ نیپولین ”کا جنگی مہمات شروع ہونے سے یورپ کی صورت حال تبدیل ہو جاتی ہے۔ جرمن خطے پر“ نیپولین ”کے تسلط دوران 1806 میں مقدس رومن سلطنت کو تحلیل کر دیا گیا۔ اور اس کی جگہ 16 جرمن ریاستوں پر مشتمل“ رائن کنفیڈریشن ”قائم کر دی۔ نیولیین کی شکست کے بعد یورپ کی بڑی طاقتوں (آسٹریا، برطانیہ، روس، پرشیا) کے زیر اہتمام منعقد 1815 میں“ ویانا کانگریس ”کے تحت مقدس رومن سلطنت کے متبادل کے طور پر“ 39 جرمن ریاستوں کا کنفیڈریشن ”قائم کیا گیا اس کنفیڈریشن میں دو غالب ریاستیں“ آسٹریا ”اور“ پرشیا ”تھیں۔

مقدس رومن شہنشاہ کی رہائش گاہ ہونے کے سبب آسٹریا جرمنی کا قائد سمجھا جاتا تھا۔ آسٹریا کا دارالحکومت“ ویانا ”اگرچہ فن و ادب کا اہم ثقافتی مرکز تھا مگر آسٹریا کو شدید مسائل کا سامنا ایک تو اس وجہ سا تھا کہ اس کی سلطنت کی بیشتر آبادی غیر جرمن تھی جو آزادی کے خواہاں تھے۔ دوسرا یہ صنعتی لحاظ سے پسماندہ تھا۔ اس کے مقابلے میں“ پرشیا ”کی زیادہ تر آبادی جرمن نسل تھی اور صنعتی و تجارتی لحاظ سے ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ وسطی یورپ کی سب سے طاقتور فوجی ریاست تھی۔

اگرچہ اس کے تمام بالغ افراد کو ووٹ کا حق حاصل تھا مگر قدامت پسند ریاست ہونے کے باعث پارلیمنٹ کے بجائے شہنشاہ“ ولیہم اول ”کو لامحدود اختیارات رکھتا تھا۔ اس کی حکومتی اور فوجی افسران کا تعلق جاگیردار طبقے سے تھا۔ درمیانے طبقے کا سیاسی اثر بہت کم تھا۔ 1862 میں“ ولہیم اول ”نے کٹر قدامت پرست“ اوٹو بسمارک ”کو وزیراعظم بنایا۔ حقیقت پسندانہ سیاست کے ماہر بسمارک نے پرشیا کو متحدہ جرمنی کا قائد بنانے کو مقصد ٹھہرایا، اس ضمن میں وہ آسٹریا کو پرشیا کا حریف سمجھتا تھا۔ 1848 میں جرمنی کو متحد کرانے کے لیے لبرل رہنماؤں کی چلائی جانے والی (ناکام) تحریک کے جمہوری طرز کی بجائے بسمارک خون ریزی (جنگ) اورطاقت کا قائل تھا۔ اس پالیسی کے تحت اس نے 6 سال کے عرصے میں ڈنمارک، آسٹریا اور فرانس کے خلاف علیحدہ علیحدہ تین جنگیں لڑیں۔

1) ۔ بسمارک نے پہلی جنگ 1864 میں ڈنمارک کے خلاف لڑ کر اس سے دو سرحدی صوبے ”شلیس وگ“ اور ”ہولسٹن“ چھین لیے

2) 1866 میں اس نے اپنی حکمت عملی سے آسٹریا کو پرشیا کے خلاف جنگ پر اکسایا۔ 7 ہفتوں کی جنگ میں آسٹریا کو شکست دے کر نہ صرف اس کے کچھ علاقے قبضہ کر لیے بلکہ سب سے اہم کامیابی یہ حاصل کی کہ آسٹریا کو جرمن کنفیڈریشن سے نکال باہر کیا۔ جس کے بعد شمالی جرمنی پر ”پرشیا“ کا کنٹرول ہوجانے سے پرشیا بادشاہت کے مشرقی اور مغربی حصے باہم جوڑ گئے۔ 1867 میں شمال کی بقیہ ریاستیں پرشیا کے ماتحت ”شمالی جرمن کنفیڈریشن“ میں شامل ہو گئیں۔

دوسری طرف آسٹریا کی صورت حال یہ رہی کہ ”پرشیا“ سے شکست کے بعد اپنی طاقت کی تعمیر نو پر توجہ شروع کی۔ اس کا بڑا مسئلہ سلطنت کے اندر مختلف قومیتں تھیں جن میں بڑی قومیت ”ہنگری“ تھی۔ 1848 میں ہنگریوں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے بغاوت کی کوشش کی تھی۔ اس مسئلے کا حل یوں نکالا گیا کہ 1867 میں آسٹریا اور ہنگری دو آزاد اور مساوی ریاستیں قرار دیے گئے دونوں کے الگ الگ پارلیمنٹ اور افسران تھے۔ تاہم بادشاہ ایک تھا فوج اور خارجہ پالیسی مشترکہ تھی۔ اس کا نام ”آسٹریا ہنگری“ سلطنت رکھا گیا۔

3) ”فرانس پرشیا جنگ“ ۔ 1867 تک صرف چند جنوبی جرمن ریاستیں آزاد رہ گئیں تھیں۔ اس میں بنیادی رکاوٹ مذہبی اختلاف تھا جنوبی جرمنی کے بیشتر لوگ چونکہ کیھتولک تھے اور وہ ”پروٹسٹنٹ پرشیا“ کے زیر تسلط رہنے سے گریزاں تھے۔ اس کا حل بسمارک نے یہ سوچا کہ جرمنی کو کسی بیرونی خطرے کی صورت میں وہ جنوبی جرمن کی کیتھولک ریاستوں کی حمایت حاصل کر سکتا ہے اسی سوچ کے تحت اس نے فرانس کے ساتھ جنگ کرنے کی ٹھان لی۔ اس کا موقع اس کو 1868 میں یوں مل گیا کہ اسی سال ”اسپین“ کے انقلابیوں نے وہاں کی ملکہ ”اسبیلا دوم“ کا تختہ الٹ کر اس کی جگہ پرشیا کے بادشاہ ”ولئیم اول“ کے رشتہ دار ”لیو پولڈ“ کو تخت پر بٹھایا جس پر فرانس کے ”نیپولین سوم“ کے سخت احتجاج سے تناؤ بڑھ گیا۔

مسئلے کے حل کرانے کے لیے سفارتی کاوشوں کو ”بسمارک“ نے قصدا ناکام کرایا۔ جس پر 19 جولائی 1870 کو فرانس نے پرشیا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جس میں ”پرشیا“ کا پلہ اتنا بھاری رہا کہ اس کی افواج نے شمالی فرانس کا گھیراؤ کر لیا۔ اور ستمبر میں ”سیڈان“ کی لڑائی میں ”نیپولین سوم“ سمیت ایک لاکھ فرانسیسی فوجیوں کو قید کر لیا۔ ”پرشیا“ فوج کا آگے بڑھ کر چار ماہ تک ”پیرس“ کا محاصرہ کرنے کے بعد جنوری 1871 میں فرانس سرنگوں ہو گیا۔

بھاری تاوان جنگ کے علاوہ اپنے دو سرحدی صوبے ”السکس“ اور ”لورین“ سے بھی دستبردار ہو گیا۔ یہ فتح جرمنی کے متحد ہونے جانے میں آخری قدم ثابت ہوا۔ شمالی اور جنوبی جرمنی کے عوام مسلکی اختلافات بھلا کر قوم پرستانہ جذبے کے تحت یکجا ہو گئے اپنے دیرینہ تخفظات کے باوجود تمام جرمن ریاستوں نے ”پرشیا“ کی قیادت قبول کر لی۔ 18 جنوری 1871 کو مفتوحہ فرانسیسی محل ”ورسائی“ میں پرشیا کے بادشاہ (ولئیم اول ”کو نئی متحدہ جرمنی سلطنت کی بحیثیت قیصر (شہنشاہ) تاج پوشی کی گئی۔

جرمن کی تاریخ میں اس کو دوسری سلطنت (Second Reichi) کے نام سے یاد کیا جانے لگا (۔ مقدس رومن سلطنت کو پہلی جرمن سلطنت کہا جاتا تھا) ۔“ اوٹو بسمارک اس نئی قوم اور سلطنت کا پہلا چانسلر (وزیر اعظم) بن گیا۔ جو 1890 تک اس منصب پر رہا۔ متحد ہونے کے بعد اپنی مضبوط صنعتی اساس اور جدید تر فوج کے بنا جرمنی یورپ کی بڑی طاقت بنا۔ نیز ایم سیاسی اور سماجی اصلاحات بشمول آئینی بادشاہت اور حقوق کے لیے راہ ہموار کی۔

اگرچہ جرمنی کی شہریوں کے مابین مذہبی، لسانی سماجی اور کلچرل اختلافات تناؤ کا باعث بھی رہے۔ 1815 کے بعد یورپ کے تمام بڑے ممالک تقریباً یکسان طاقتور تھیں مگر مضبوط معاشی بنیاد اور فوج کے بنا جرمنی ابتدا ( 1871 ) سے یورپ میں معاشی اور فوجی لحاظ سے برطانیہ کا ہم پلہ تھا۔ آسٹریا، روس اور اٹلی کافی پیچھے تھے جبکہ فرانس کی حیثیت درمیانی نوعیت کی تھی۔ جرمن اتحاد کے یورپ پر اہم اثرات پڑے۔ متحدہ اور طاقتور جرمنی کے ظہور سے طاقت کا توازن بگڑ گیا نتیجتاً اسلحہ کی دوڑ اور سامراجی رقابتوں میں شدت اختیار کرنے سے ایک بڑے جنگ کا خطرہ بڑھنے لگا۔ جو بالآخر کئی دوسرے اسباب کے بنا پہلی جنگ عظیم ( 1914 تا 1918 ) کی صورت میں سامنے آیا۔ متحدہ جرمنی کے ورثے اور یورپ پر مابعد کے اثرات اتنے گہرے رہے ہیں کہ تاحال تک محسوس کیے جاتے ہیں۔

(دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتح اتحادی ممالک ( امریکہ روس برطانیہ اور فرانس) نے 1949 میں جرمنی کو دو ممالک مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی میں تقسیم کرایا 1990 میں جرمنی پھر سے متحد ہو کر ایک ملک بن گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments