اس آگ میں سب جلیں گے


آپ کو کیسا لگے گا جب آپ کو یہ سننے کو ملے کہ
”ایک خدا اور نبی کو ماننے والے آ پس میں ہی دست و گریباں ہیں“ ؟

ایک دوسرے پر صرف اس وجہ سے توہین مذہب کا الزام لگا رہے ہوں کہ دونوں کے فرقے مختلف ہیں؟ اگر فرقوں کی بنیاد پر کسی کے صحیح غلط کا فیصلہ ہونا ہے تو پھر اس ”رسی“ کا کیا بنے گا کہ ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں مت پڑو“ کیا فرقوں میں بٹ جانے والے خود توہین مذہب کے مرتکب نہیں ٹھہرتے جو ایک واضح حکم کو پس پشت ڈال کر فرقہ بندیوں میں گھر چکے ہیں؟

جو اس قدر تقسیم ہو چکے ہوں وہ دوسروں کو اکٹھا رہنے کی تلقین کیسے کر سکتے ہیں؟
جو خود اپنی ہی مذہبی تشریحات پر متفق نہ ہوں اور اسی بنیاد پر فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہوں وہ دوسروں پر توہین مذہب کا الزام کیسے لگا سکتے ہیں؟

چند روز پہلے قاری حنیف قریشی پر توہین مذہب کا مقدمہ درج ہوا، آپ کے خیال میں ان کے خلاف مقدمہ درج کروانے والے کون لوگ ہوں گے؟
کیا مسیحی ہوں گے؟
یا
سکھ، ہندو، یہودی، شیعہ یا قادیانی ہوں گے؟
نہیں جناب بالکل نہیں
بلکہ
انہی کے مذہبی بھائی بندے ہیں جن کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں اور انہوں نے موصوف پر مقدمہ درج کروا دیا۔

ریکارڈ کی درستگی کے لیے یاد دلانا بہت ضروری ہے کہ موصوف وہی حنیف قریشی ہیں جن کی شعلہ بیانی سے متاثر ہو کر کے ایلیٹ فورس کے ایک نوجوان جس کا باقاعدہ طور پر اب مزار بھی بن چکا ہے، نے بغیر سوچے سمجھے، پرکھے اور جانچے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا اور بعد میں خطیب موصوف نے ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔

اور آج خود پر توہین مذہب کا پرچہ انہی کے بھائی بندوں نے درج کروا ڈالا، بات ادھر ہی ختم ہو جاتی تو کسی حد تک بھرم رہ جاتا آج دوسرا گروہ تھانے پہنچ گیا انہوں نے اس بات پر توہین مذہب کا پرچہ دے ڈالا کہ پہلے گروپ کے ایک ملا نے بھی ختم نبوت کا انکار کیا ہے اور اپنے تئیں ثبوت تک پیش کر دیے۔

ابھی تو شروعات ہیں پس دیکھتے جائیں کہ آگے کیا کیا ہوتا ہے، جتنے فرقے اتنے ہی توہین مذہب کے پرچے، مسلمان تو شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے کون جانے؟

ہم تو بچپن سے اپنے علماء سے یہی سنتے آئے ہیں کہ ” مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“
اب اس فرمان کی روشنی میں آپ خود اپنے قرب و جوار کا جائزہ لے لیں حقیقت عیاں ہو جائے گی۔

دوسرے مذاہب کے لوگوں کا جو حشر ہم نے کیا ہے وہ تو ایک حقیقت ہے ہی مگر ہم نے آپس میں جو کیا ہے یا کرتے چلے آرہے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اب تو یہ حال ہے کہ ایک دوسرے پر ہی توہین مذہب کے پرچے درج کروانے شروع کر دیے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ بات یہاں تک کیسے پہنچی؟
اور اس قسم کی مضحکہ خیزیوں کا کون ذمہ دار ہے؟ ظاہر ہے کوئی تو ہو گا جس نے انسانوں کو تقسیم کر کے ان کے درمیان نفرتوں کی بلند و بالا سرحدیں قائم کی ہوں گی؟

اور دیواریں بھی ایسی جو ناقابل عبور ہوں اور ہر باؤنڈری کے مالک کا یہ دعوی ہو کہ
” جو ہماری چار دیواری کی حد تک ہیں بس وہی مسلمان اور جنت کے مستحق ہیں باقی سب کافر اور کاٹھ کباڑ ہیں“

انسانوں کے درمیان بات چیت اور ملنے ملانے کی گنجائش کو سکیڑنے والے کون لوگ ہیں؟
وہ وہی لوگ ہیں نا!
جو آج ایک دوسرے پر ہم مذہب ہونے کے باوجود صرف مختلف فرقہ ہونے کی بنیاد پر توہین مذہب کے مقدمات درج کروا رہے ہیں؟
جن کا ظرف اس درجے کا ہو وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے مثال بن سکتے ہیں؟
جو آپس میں اس قدر تقسیم ہو چکے ہوں وہ دوسروں پر توہین مذہب کا الزام کیسے عائد کر سکتے ہیں؟

ایسے معاشرے جہاں مذہب کے نام پر لوگوں کے درمیان نفرت اور تعصب کو پروان چڑھایا جاتا ہو وہاں برداشت ختم اور جنونیت کا کلچر فروغ پانے لگتا ہے۔

جنونیت اور عقل کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا، دونوں کی دنیائیں یا حدود ہی الگ ہیں، جہاں عقل کا راج ہوتا ہے وہاں برداشت اور بات چیت کے کلچر کے علاوہ سوال کو خود مختاری حاصل ہوتی ہے۔ کسی بھی طرح سے سوال کرنے کی مکمل آزادی اور سوال کرنے والے کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے اور کسی بھی طرح کا سوال کرنے والے پر توہین کا الزام عائد نہیں کیا جاتا بلکہ سوالات کو خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

اور جہاں جنونیت کا راج ہوتا ہے وہاں عقل والے منہ چھپاتے پھرتے ہیں، سوال کرنے والوں کو ڈھونڈا جاتا ہے اور عبرت کا نشان بنانے کے لیے کسی قسم کے تاخیری حربے استعمال نہیں کیے جاتے۔

ذرا سی مختلف اور غیر روایتی سوچ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور مختلف سوچ رکھنے والے پر نجانے کتنے کفریہ ٹیگ لگا دیے جاتے ہیں۔
ہمارے محترم علماء کرام کا رویہ ملاحظہ فرما لیں اور دیانت داری سے بتائیں کہ یہ لوگ غریب غربا کو گلے لگانا تو دور کی بات ہے مصافحہ تک کرنا پسند کرتے ہیں؟

ہمارے بہت سے نامی گرامی علماء چھوٹے موٹے بندے کو منہ تک نہیں لگاتے اور تگڑے بندوں کی پپیاں تک لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہم نے تو بچپن سے یہ روایت سن رکھی ہے کہ
” جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا“
اب اس روایت کی روشنی میں دیکھ لیجیے کہ کیا ہمارے علماء کے اندر اعلی درجے کا تکبر نہیں پایا جاتا؟ ہماری نظر میں تو دوسروں کو مذہبی رسومات ادا نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار یا گھٹیا سمجھنا بھی تکبر کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ انسان پہلے ہے اور مذہب بعد میں۔

اپنے فرقے کو اعلی و برتر اور دوسرے فرقوں کو گھٹیا اور جہنم کا مستحق سمجھنا بھی تکبر ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے علماء کرام خود کو اعلی پائے کی انوکھی مخلوق نہیں سمجھتے؟

جو چند سیکنڈ میں خدائی ہتھیار اپنے ہاتھ میں لے کر دوسروں کے متعلق ایک حتمی رائے قائم کر لیتے ہیں اور اپنی رائے کی بنیاد پر کسی کو بھی دائرہ مذہب سے خارج کرتے ہوئے ہجوم کے حوالے کر دیتے ہیں؟ کیا ہم پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ اس قسم کا اختیار آپ کو کس نے ودیعت کیا ہے؟
ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ آگ اور نفرت کی کوئی باؤنڈری نہیں ہوتی اور نا ہی کوئی مذہب ہوتا ہے، جب آگ پھیلتی ہے تو وہ کسی کو نہیں چھوڑتی۔ کیونکہ ہوا کسی کی نہیں ہوتی۔ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو کوئی بھی مسلک محفوظ نہیں رہے گا کیونکہ مسالک کے بیچ بھی بہت سارے جھگڑے ایسے ہیں جن پر بہت کچھ ہو سکتا ہے اور اب تو یہ آگ آپ کے دروازے تک بھی آن پہنچی ہے۔

اگر اب بھی عبرت نہیں پکڑی تو پھر آپ کی مرضی ہے۔
پھر کسی ہلاکو خان کا انتظار کیجئے جس نے سارے بغداد کو تاراج کر کے عبرت کا نشان بنا دیا تھا۔
انسانوں کے فیصلے تو بہرحال عقل و شعور والے ہی کرتے ہیں جبکہ انسان نما زومبیز کے فیصلے کرنے کے لیے ہلاکو خان ایسوں کو آنا پڑتا ہے۔
معزز علماء کرام کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور معاشرے کو اس طرح کا بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ جہاں سوال کو خوش آمدید کہا جائے اور پوچھنے والے کو کسی بھی قسم کا ڈر اور خوف نہ رہے ورنہ اس آگ میں سب جلیں گے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments