تلسی میگھواڑ: پاکستان کی ’پہلی ہندو لڑکی‘ جو کھیلوں کی دنیا میں اپنا نام بنا رہی ہے

شمائلہ خان - صحافی


تلسی میگھواڑ

’آج تک کسی بھی ہندو لڑکی نے قدم آگے نہیں بڑھایا اور نہ ہی کوئی ہندو لڑکی سپورٹس میں آئی ہے، ہماری ہندو کمیونٹی میں تو والدین بچیوں کو پڑھائی تک کی بھی اجازت نہیں دیتے لیکن میں بہت خوش اور خوش نصیب ہوں کہ مجھے اچھے والدین ملے۔‘

یہ ہیں تلسی میگھواڑ جو سافٹ بال اور بیس بال کی نیشنل چیمپئن اور پہلی ہندو سپورٹس گرل ہیں۔

اکیس سالہ تلسی میگھواڑ پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کوٹری کے سادھو محلہ میں رہتی ہیں جو بٹوارے سے پہلے سے آباد ہے اور یہاں گرونانک کے بیٹے بابا سری چند کا قدیم دربار بھی موجود ہے۔

’ پتا نہیں تھا کہ بیس بال اور سافٹ بال بھی کوئی کھیل ہے‘

تلسی میگھواڑ

تلسی میگھواڑ بتاتی ہیں کہ سنہ 2016 میں جب وہ چھٹی کلاس میں پڑھتی تھیں تو سکول میں ایک سپورٹس کیمپ لگا، جس میں کافی لڑکیوں نے حصہ لیا۔ اُن کو بھی اس کیمپ میں حصہ لینے کا شوق ہوا اور خوش قسمتی سے اس کی سیلیکشن ہوگئی۔

’مجھے پتا نہیں تھا کہ بیس بال اور سافٹ بال بھی کوئی گیم ہے اور یہ کیسے کھیلی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں تو زیادہ کرکٹ ہی کھیلی جاتی ہے۔ میں نے جب کیمپ میں حصہ لیا تب مجھے پتا چلا کہ یہ امریکہ کا قومی کھیل ہے اور عالمی سطح پر کھیلا جاتا ہے۔‘

تلسی میگھواڑ اس وقت تک بیس بال کے نیشنل گیمز، دو سندھ گیمز اور تین مقامی اولمپکس کھیل چکی ہیں لہٰذا ان کے پاس سونے ، تانبے سمیت متعدد میڈلز اور تعریفی اسناد موجود ہیں۔

’لڑکوں کے میدان میں لڑکیاں‘

تلسی میگھواڑ

کوٹری دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ایک چھوٹا قصبہ ہے یہاں کے کھلاڑیوں اور عوام کے لیے صرف ایک ہی میدان ہے جہاں سبزہ یا گھاس ہے۔ سورج غروب ہونے سے پہلے یہ واحد گراؤنڈ کرکٹ، فٹبال سمیت بچوں کے کھیلنے کا میدان ہوتا ہے اور بعد میں فیملی پارک بن جاتا ہے۔

تلسی میگھواڑ بتاتی ہیں کہ ’یہاں لڑکیوں کے لیے الگ سے کوئی گراونڈ نہیں ہے۔ وہ اسی مقامی گراؤنڈ میں پریکٹس کرتی ہیں جہاں لڑکے بھی کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان ہی لڑکیاں بھی کھیل رہی ہوتی ہیں تو بہت مشکلات ہوتی ہیں۔ جب نیشنل گیمز کے لیے جانا ہوتا ہے تو پریکٹس لازمی ہے تو اس صورتحال میں جیسے تیسے ہی پریکٹس کرتے ہیں۔‘

گراونڈ کے علاوہ تلسی گھر کے اندر اپنی بہن کے ساتھ بھی پریکٹس کرتی ہے لیکن اس کے لیے بھی انھیں محدود وسائل دستیاب ہیں۔ ان کے پاس سیکھنے کا ایک وسیلہ انٹرنیٹ اور یو ٹیوب بھی ہے۔

’میں ٹی وی پہ دیکھتی ہوں، انٹرنیٹ پر بیس بال کے میچز کی ویڈیوز سرچ کرتی ہوں۔ جب لڑکیوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتی ہوں تو بہت خوش ہوتی ہوں۔ اِن ویڈیوز کو دیکھ کر اُن کے رولز سمجھتی ہوں کہ وہ کیسے کھیل رہی ہیں۔ اُن کو دیکھ دیکھ کر میں بھی کھیلتی ہوں اور ایسی پرفارمنس دینے کی کوشش کرتی ہوں۔‘

’ایک کان سے سنتی ہوں اور دوسرے سے نکال دیتی ہوں‘

تلسی میگھواڑ

تلسی میگھواڑ کے والد ہرجی میگھواڑ ایک صحافی ہیں۔ چند سال پہلے تک وہ ہندو کمیونٹی کا اخبار سندیش نکالتے تھے لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے وہ یہ کام جاری نہ رکھ سکے۔

ہرجی بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے اپنی بیٹیوں کو پڑھانا شروع کیا تو ان کی برادری کے لوگوں نے کہا کہ اُن میں غیرت نہیں ہے، لڑکیاں قابو میں نہیں رہیں گی، لیکن انھوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔‘

تلسی میگھواڑ اور اُن کی دو بڑی بہنیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ گھر میں سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں جن کو آن لائن فروخت کیا جاتا ہے۔ تلسی بائیک چلاتی ہیں اور پریکٹس کے لیے خود اپنی بائیک پر جاتی ہیں۔

تلسی میگھواڑ

تلسی کے مطابق جب وہ سپورٹس میں آئیں تو ہندو کمیونٹی میں سے کچھ لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کچھ نے تنقید۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہندو کمیونٹی میں کچھ لوگوں نے تعریف کی کہ بہت اچھی بات ہے، پاکستان کی پہلی ہندو لڑکی ہے جو آگے بڑھ رہی ہے لیکن ساتھ ہی بہت سارے لوگوں نے تنقید بھی کی کہ یہ اکیلی بچی کیسے باہر جائے گی اور والدین کیسے ایسے جانے دے رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں اُن کی باتیں ایک کان سے سنتی ہوں اور دوسرے سے نکال دیتی ہوں، مجھے مسلسل اپنا ایک مقام بنانا ہے، مجھے پتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے، مجھے آگے بڑھنا ہے، میں تو ابھی سندھ لیول پر ہوں اور میری اور میرے والدین کی یہی کوشش ہے کہ میں انٹرنیشنل لیول تک پہنچوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32609 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments