شاہ محمود قریشی کو پولیس کے دھکے اور ریاست کی مجبوریاں


اڈیالہ جیل سے شاہ محمود قریشی کی گرفتاری یوں تو پاکستان میں پولیس گردی کے تناظر میں کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن ملک میں ایک پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کے بارے میں اختیار کیے گئے ریاستی طرز عمل کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کو ناراض کرنے والے افراد یا پارٹی کو کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ یہ طریقہ افسوسناک اور ناقابل قبول ہے۔ اس سے جمہوریت کے علاوہ نظام عدل کی توہین کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ شاہ محمود نے یہی دہائی دیتے ہوئے پولیس کے دھکے کھائے۔

شہریوں کے خلاف پولیس کا رویہ کبھی بھی مناسب اور مہذب نہیں رہا۔ پولیس اہلکار افسران بالا کی ہدایات پر عمل کروانے کے لیے کسی بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس وقت تحریک انصاف اسی قسم کی شکایات سامنے لا رہی ہے۔ کہیں اس کے امید واروں سے کاغذات نامزدگی چھینے گئے اور کہیں امیدواروں اور ان کے حامیوں کو ہراساں کرنے کے دوسرے ہتھکنڈے استعمال میں آئے۔ یہ سارا کام ملک بھر میں پولیس اہلکاروں سے لیا جا رہا ہے۔ گویا یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ پولیس قانون و ضوابط کے مطابق کام کرنے والا کوئی ادارہ نہیں ہے بلکہ طاقت وروں کے ہاتھ میں ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے پاس اقتدار ہو گا، یہ ہتھیار اسی کے زیر استعمال ہو گا۔ کسی مہذب ملک میں ایسا طرز عمل قبول کرنا مشکل ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں پاکستان کے حوالے سے یہ کہنا بہتر ہو گا کہ پولیس کی اصلاح کیے بغیر ملک میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی یا انسانی حقوق کی بالادستی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

ابھی اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین جن میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی اکثریت تھی، کے خلاف پولیس تشدد کی خبریں ہی زیر بحث تھیں کہ اب شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہتک آمیز برتاؤ کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے نائب چیئرمین اڈیالہ جیل کے دروازے میں کھڑے ہیں اور باہر نکلنے سے انکار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ میڈیا کو قریب بلا کر ایک تقریر نما بیان ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ پولیس افسر و اہلکار سانحہ 9 مئی کے دوران میں جی ایچ کیو پر حملہ کیس میں ان کی گرفتاری کا پروانہ لیے منتظر ہیں کہ شاہ صاحب بات مختصر کریں اور جیل سے باہر قدم نکالیں تو انہیں گرفتار کیا جائے۔ تقریر کچھ طویل ہو گئی اور شاہ محمود قریشی نے سپریم کورٹ کے تین ججوں کے فیصلہ کی دہائی دیتے ہوئے پہلے ڈپٹی کمشنر کی طرف سے اندیشہ نقص امن کی دفعات کے تحت نظربندی کا پروانہ دکھایا، پھر یہ بتایا کہ اب پولیس انہیں گرفتار کرنا چاہتی ہے لیکن وہ جیل سے باہر ہی نہیں نکلیں گے۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عین اس موقع پر ایک پولیس افسر کے ’صبر کا پیمانہ لبریز‘ ہو جاتا ہے اور وہ ’بس بہت ہو گیا، اب چلیں‘ کہتا ہوا جیل کے دروازے میں داخل ہوتا ہے اور شاہ محمود قریشی کے اس احتجاج پر کہ ’کیا کر رہے ہو‘ انہیں دھکا دے کر پولیس وین کی طرف لے جانا شروع کر دیتا ہے۔ دیگر پولیس افسر بھی اس کاوش میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور تحریک انصاف کے لیڈر کو چند قدم کے فاصلے پر کھڑی پولیس گاڑی میں ڈال کر وہاں سے لے جایا جاتا ہے۔ یہاں صرف پولیس کے رویہ پر ہی سوال نہیں اٹھتا بلکہ شاہ محمود قریشی کے طرز عمل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ جب انہیں معلوم ہے کہ کس قانون اور کس الزام میں پولیس انہیں گرفتار کرنے آئی ہے تو مزاحمت سے وہ کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟ پولیس کو یہ بتانے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ کہ وہ بے گناہ اور معصوم ہیں۔ یا یہ کہ سپریم کورٹ کے تین ججوں نے ان کی ضمانت لی ہے تو پولیس کیسے انہیں گرفتار کر سکتی ہے؟ یہ سارے سوال جائز تو ہوسکتے ہیں لیکن ایک تو اس کا موقع مناسب نہیں تھا، دوسرے موجودہ ملکی نظام میں تمام ادارے ایسے ہی کام کر رہے ہیں۔ اس لیے اسے تبدیل کیے بغیر ایک گرفتاری پر واویلا کرنے اور نا انصافی کا نعرہ لگانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ شاہ محمود قریشی کو اس بات کی بہت اچھی طرح خبر تھی لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وہ پولیس رویہ کو تحریک انصاف پر ’ظلم‘ کا ثبوت بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے۔ یہ مان لینا چاہیے کہ وہ اس مقصد میں بہت اچھی طرح کامیاب ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی اور عمران خان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ شاہ محمود قریشی کے اہل خاندان کا خیال تھا کہ ان کے خلاف کوئی دوسرا مقدمہ نہیں ہے، اس لیے ضمانت کی کارروائی پوری ہونے کے بعد انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ البتہ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے اندیشہ نقص امن کے تحت رہائی کے ساتھ ہی نظر بندی کا حکم نامہ درحقیقت ریاست کا یہ پیغام تھا کہ شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے دیگر لیڈروں کی رہائی کا فیصلہ عدالتیں نہیں کریں گی بلکہ کہیں اور ہو گا۔ شاہ محمود قریشی نے اڈیالہ جیل کے دروازے پر اپنے ’شو‘ کے ذریعے اس ریاستی پیغام کو عام کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ البتہ وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ تحریک انصاف اور اس کے لیڈروں کے خلاف جیسے اقدامات کیے گئے ہیں، اور جیسے انہیں مسلسل قید رکھنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے، اس سے ریاست پوری ڈھٹائی سے اپنا موقف پہلے ہی کھل کر بیان کرچکی ہے۔ ایک مختصر تقریر یا احتجاج سے اسے اپنی شہرت کو نقصان پہنچنے کا کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہے۔ مزید یہ کہ سپریم کورٹ نے شاہ محمود قریشی کو بلینکٹ ضمانت نہیں دی تھی کہ پولیس انہیں کسی بھی دوسرے مقدمہ میں گرفتار نہ کر سکتی۔ اس لیے سیاسی شو کرنے کی حد تک تو بات قابل فہم ہے البتہ وہاں موجود افسروں کو نام سے پکار کر یہ دھمکی دینا مناسب طریقہ نہیں تھا کہ ’میں تمہیں سپریم کورٹ میں گھسیٹوں گا‘ ۔ پولیس کا کیا ہے۔ وہ کل تک تحریک انصاف کے وزیروں کے اشارے پر چلتی تھی اور نشانے پر وہ سیاسی لیڈر ہوتے تھے جنہیں اب پسندیدہ کی سند حاصل ہو چکی ہے۔ اب تحریک انصاف کے لیڈر اس کے نشانے پر ہیں۔ انفرادی افسروں کا اس معاملے میں کیا قصور ہو سکتا ہے کہ انہیں نام لے کر سیاسی مہم جوئی کا حصہ بنایا جائے؟

البتہ پولیس فورس کے اعلیٰ افسروں سے ضرور یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ تو تعلیم یافتہ اور قاعدہ قانون سمجھنے والے لوگ ہیں۔ وہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے پولیس فورس میں آتے ہیں۔ انہیں پولیس کے نچلے درجوں پر فائز افسروں یا اہلکاروں کے مقابلے میں بہتر طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یا افسران بالا، سیاسی حکام یا جو بھی اتھارٹی انہیں کسی سیاسی لیڈر یا شہری کے خلاف زور زبردستی کرنے کا ’حکم‘ دے رہی ہو، اس کو بتانا چاہیے کہ ان سے غیر قانونی کام کی توقع نہ کی جائے البتہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے پر تیار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ پولیس افسروں کا فرض بھی ہے اور انہیں اس بات کا استحقاق بھی ہے کہ وہ قانون اور ضابطہ کار کے خلاف کوئی کام کرنے سے انکار کر دیں۔ پولیس فورس کے اعلی افسر اگر یہ طریقہ اختیار کریں تو وہ ملک میں نظام کی اصلاح میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج اڈیالہ جیل میں شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کا معاملہ ہی دیکھ لیا جائے۔ کیا وجہ ہے کہ پولیس فورس صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہ محمود کے جیل کی دہلیز عبور کرنے کا انتظار نہیں کر سکی۔ وہ آخر کتنی لمبی تقریر کرلیتے۔ کیا جیل حکام ایک بار رہائی کا پروانہ جاری ہونے کے بعد ، انہیں واپس قبول کر لیتے؟ انہیں بہر حال باہر نکلنا پڑتا۔ پولیس مہذب رویہ اختیار کر کے بھی ان کی گرفتاری کا ’فریضہ‘ بخوبی ادا کر سکتی تھی۔

بھونڈے طریقے سے شاہ محمود قریشی کو گرفتار کرنے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں کو نیک نامی یا شہرت کی کوئی پرواہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ پیغام عام کرنا چاہتے ہیں کہ ’ناپسندیدہ عناصر‘ کو قبول نہیں کیا جائے گا خواہ ملکی عدالتیں یا قانون کی کتابیں کچھ بھی کیوں نہ کہتی رہیں۔ طاقت کے زور پر تشدد کے ایسے مظاہرے درحقیقت ملک میں انتخابات، ان کے نتائج اور سیاسی فیصلوں میں عوام کی حصہ داری کے بارے میں سنگین شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ عسکری قیادت کے لیے سانحہ 9 مئی ایک سنگین واقعہ ہے اور جس کسی پر بھی اس میں ملوث ہونے کا شبہ ہو گا، اسے نشان عبرت بنانا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ یہ طریقہ تو ملک کے نظام انصاف و قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اگر طاقت کے زور پر ہی معاملات حکومت چلانا مقصود ہے اور پاکستانی عوام کے ساتھ کسی نوآبادی میں رہنے والے لوگوں کی طرح کا غلاموں والا طریقہ ہی اختیار کرنا ہے تو پھر آئین و قانون، عدالت و انصاف کا راستہ بند کیا جائے اور ماضی کی طرح اس وقت تک ’غیرمعمولی اقدامات‘ کا اختیار ہاتھ میں لے لیا جائے جب تک فوج کے سب ’دشمنوں‘ کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا دیا جاتا۔ آخر ماضی میں بھی تو اس طریقے پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اب زور آور کا ہاتھ کون روک لے گا۔ البتہ تصویر واضح ہو جائے گی اور عوام جان لیں گے کہ کون ان سے عزت و احترام کے ساتھ جینے کا حق چھیننا چاہتا ہے۔ اسلام آباد میں دھرنا دینے والے بلوچ مظاہرین بھی تو یہی صدا لگا رہے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ فوج یا عسکری اداروں کے مستعد ہوئے بغیر ملکی نظام 9 مئی کو توڑ پھوڑ کرنے والوں سے جوب دہی کے قابل نہیں ہے۔ ملک کے سب شہری، سیاسی پارٹیاں اور ادارے فوج پر حملہ کرنے والوں یا عسکری اداروں میں افتراق پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ البتہ فوج کو معاملات ’اپنے ہاتھ‘ میں لینے کی بجائے سول نظام انصاف پر اعتبار کرنا ہو گا۔ اس بات پر اصرار چھوڑنا ہو گا کہ صرف فوجی عدالتیں ہی عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والے شہریوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ 9 مئی کے حوالے سے تحفظات کو بین السطور بیان کرنے اور بالواسطہ ہتھکنڈوں سے لوگوں کو ہراساں کرنے کی بجائے کسی عدالتی کمیشن کے ذریعے اس روز رونما ہونے والے واقعات کی پوری تفصیلات کا احاطہ کیا جائے اور سپریم کورٹ کے تعاون سے قومی سلامتی کے خلاف متحرک ہونے والے عناصر کو سزا دلوانے کا کوئی موثر مگر قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔

تاہم اگر سانحہ 9 مئی کو ایک خاص سیاسی پارٹی کے خلاف کچھ اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا مقصود ہے تو لوگوں میں یہ شبہات سر اٹھاتے رہیں گے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے اور تحریک انصاف کو کسی ایجنڈے کے تحت اس روز ہونے والے واقعات میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف اس صورت حال کو سیاسی طور سے اپنے حق میں استعمال کرنے میں ریاست سے زیادہ مستعد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2775 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments