ہم پانی کا بجٹ کب بنائیں گے


ابھی کل ہی کی تو بات ہے اور بزرگوں کو بھی تو یاد ہے۔ دیہات میں جانور تو خیر جوہڑ سے ہی بارش کا پانی پیتے اور غسل کرتے تھے مگر انسانوں کا بھی حال کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں تھا۔ گاؤں سے دور ہونے پر یا با امر مجبوری پینا پڑتا تو پانی سطح زمین کے اس قدر قریب تھا کہ اگر ایک گڑھا کھودیں تو اس میں اتنا پانی رس کر اکٹھا ہو جاتا کہ اس پر کپڑا بطور فلٹر ڈال کر پیا جا سکتا تھا۔ پورے گاؤں میں دو یا تین کنویں تھے جہاں سے کھینچ کھینچ کر عورتیں پانی بھرتیں اور وہیں کنویں پر برتن اور کپڑے لے جا کر دھو لیے جاتے تھے۔ پینے کے لئے پانی مٹی کے گھڑوں میں اٹھا کر لایا جاتا اور گھونٹ گھونٹ بسم اللہ کہہ کر پیا جاتا۔ غسل کی عیاشی عام دستیاب نہ تھی اس کے لئے خصوصی جتن کیے جاتے تھے۔

پھر جب ستر کے عشرے میں پہلا ہینڈ پمپ لگا تو بتایا جاتا ہے کہ ایک خاتون اس قدر حیران ہوئیں کہ پانی پی پی کر ختم کرنے کا قصد کر لیا۔ پانی تو خیر کیا ختم ہوتا خود ہلکان ہو کر پڑ رہیں۔ مزید آگے زرعی انقلاب نے نہریں، کھالے، ٹیوب ویل اور پیٹر انجن کا رستہ کھول دیا اور یوں لوگ چمکتے، اچھلتے، جھاگ اڑاتے اور شور مچاتے لامحدود پانیوں کی دستیابی سے پہلی بار آشنا ہوئے اور ریڈیو پاکستان پر اس کے لئے ”ماہیے گاتے ٹیوب ویل“ کا استعمال ہوا۔ گھڑے اور کنویں قصہ پارینہ ہوئے اور پانی کی نعمت کھل کر لوگوں کی دسترس میں آئی اور یوں صفائی اور طہارت کا ایک نیا معیار لوگوں کی عمومی زندگیاں بدلنے لگا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارے بزرگ جس چند گھونٹ پانی کو پینے کے لئے ہر گھونٹ کے ساتھ بسمہ اللہ پڑھتے تھے اور با امر مجبوری جھک کر پینے پر مجبور تھے اس سے ہزار گنا شفاف پانی ہم لوٹے کے لوٹے لیٹرین میں بہاتے ہیں۔ ہماری بھینسیں اور ہماری گاڑیاں بیچ سڑکوں کے روزانہ سینکڑوں لیٹر سے غسل کرتی ہیں اور ہمارے صحن اور چھتوں کی روزمرہ دھلائی کے ساتھ خواتین کپڑوں میں سے سرف نکالتے ہوئے ہزاروں لیٹر پانی بہا دیتی ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے ہم کتنی فیس، کتنا بل اور کتنا ٹیکس دیتے ہیں اور ہماری آمدنی اور اخراجات کی تفریق کتنی زیادہ ہے مگر کھلے شاور کے نیچے کھڑے ہمیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہمارے گھر میں پانی کی ضرورت کتنی ہے اور استعمال کتنا ہے۔ ہم اس حیات افزا پانی کی کتنی مقدار روز گٹروں میں بہاتے ہیں؟ ہمارا پانی کا بجٹ کیا ہے؟

آج حالت یوں ہے کہ گاؤں کے چھپڑ معذور ہو گئے ہیں، سیوریج اور نالیاں چھوٹی پڑ گئی ہیں۔ کبھی ماہیے گاتا چمکدار پانی اب کالے اور متعفن پانی میں بدل کر گلی گلی ہمارے اجتماعی شعور کے نوحے گا رہا ہے۔ اس سب کے باوجود گھر گھر لگی برقی موٹریں روز ٹینکیوں کی ٹینکیاں پانی اگل رہی ہیں۔ تمام دیہات اور شہر جوہڑوں کا منظر پیش کرنے لگ گئے ہیں مگر حکومت سے لے کر مسجد، منبر، سکول، یونیورسٹی کوئی بھی اس پر آگاہی کے لئے اپنا کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا۔

کوئی تو ہو جو آج پانی کے عالمی دن ( 22 مارچ) پر اس قوم کو بتائے کہ گلیوں میں پھرتا، تعفن اڑاتا، راستے خراب کرتا اور بیماریاں پھیلاتا یہ ضائع شدہ پانی وہی پانی ہے جسے کمپنیاں بوتلوں میں بھر کر 30 روپے فی گلاس فروخت کرتی ہیں۔ یہ وہی نعمت ہے جو 20 فٹ گہرائی پر بھی دستیاب تھی اور اب 350 فٹ گہرائی پر بھی قسمت سے دستیاب ہوتی ہے۔ یہ وہی نعمت ہے جس پر مستقبل میں جنگیں لڑی جائیں گی۔ وہی نعمت ہے جس پر ہماری پچھلی نسلوں کی طرح اگلی نسلیں بھی ہر گھونٹ سے ساتھ بسم اللہ پڑھیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ہم احساس کب کریں گے؟ ہم پانی کا بجٹ کب بنائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments