راجو بن گیا فلپس : کیف الحال سے تیسرا نمک پارہ


ابتدائیہ : یہ لگ بھگ پچیس سال پرانی تحریر ہے جو اس وقت لکھی گئی جب لکھاری حکومت پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کے ایک نیم فوجی ادارے دفاع المدنی (شہری دفاع) کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ تحریر کیے گئے ہر مضمون کا ایک خاص موضوع تھا۔ جس میں مزاح کے ساتھ معلومات تحریر کی گئی تھیں۔ راجو بن گیا فلپس کا بنیادی مقصد سعودی عرب میں رہنے والے غیر مسلم لوگوں کے مسائل اور ان سے تعلق رکھنے والی چند باتیں ہیں۔ مزاح کو اسی طرح پڑھیں کسی بھی بات کا مقصد نہ تو ایل سعودیہ کی دل آزاری ہے اور نہ غیر مسلم لوگوں کی۔ تمام مضامین کا مجموعہ ایک خود نوشت سفرنامے ”کیف الحال“ کی شکل میں یوسفی صاحب کے کہنے پر پندرہ بیس سال سے پالے میں رکھا ہوا ہے۔

اس دوران سعودی معاشرے کے پل کے نیچے سے صرف پانی ہی نہیں تبدیلیوں کا ایک سمندر گزر چکا ہے۔ اب کیا حالات ہیں۔ کچھ علم نہیں۔

٭٭٭

مدینۃ الریاض (شہر ریاض) میں سر چھپانے کے لئے جو ٹھکانہ اللہ تعالی نے ہمارے حصے میں لکھا، وہ شارع مطار قدیم (اولڈ ائر پورٹ روڈ) پر حیات ریجنسی، فندق یمامہ (یمامہ ہوٹل) اور مدیریۃ سامبا ( ہیڈ کوارٹر سعودی امریکن بنک) کے وسط میں تھا۔ عمارت کے دورِ ارضی ( گراؤنڈ فلور ) پر کرنل حمیر محمود غازی نے ہمیں اپنے پڑوسی کے طور پر رہنے کے لئے منتخب کیا۔ ہم شقہ رقم واحد ( فلیٹ نمبر ون) کے مقیم تھے اور وہ شقہ رقم ثلاثہ (یعنی تین نمبر) کے۔ مگر جو مشکل شروع میں ہمیں پیش آئی، وہ تھی شقہ نمبر دو میں انڈین راجو کی موجودگی۔

سر حمیر کی اجازت سے ہم نے مسلمانی کا حق ادا کرنے کے لئے پڑوسی راجو کو ”کال آن“ کرنے کی دل میں ٹھانی مگر کوئی مناسب موقع نہ مل سکا۔ ایک دن پڑوس سے لوبان ٹائپ کی کسی چیز کی دھونی کی دھانس، جب ہمارے گھر کو زیادہ ہی مہکانے اور ہمیں بہکانے لگی، تو ہم نے راجو کا دھرم بھرشٹ کرنے کی شرارت کا سوچا اور اس کے فلیٹ کو کھٹکھٹا بیٹھے۔

راجو ایک اچھا نفیس انسان نکلا، جس کی دھرم پتنی (بیوی) اس سے اتنی ہی مختلف نکلی جتنا مشرق اور مغرب کی سمت میں فرق ہوتا ہے، گھر کے ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں ہنومان اور دوسرے میں گنیش جی چوہے پر بیٹھے نظر آئے، جس نے بغیر پوچھے بتلا دیا کہ ہم ایک انڈین اور وہ بھی ہندو کے پڑوسی بننے کا شرف حاصل کر بیٹھے ہیں۔ نک چڑھی بیگم راجو کے طفیل ہماری یہ تین سالہ دور میں واحد زیارۃ بیت راجو تھی ( یعنی راجو کے گھر کی پہلی اور آخری بار سیر ) ۔

راجو کی بغل میں رہتے ہوئے ڈھائی سال ہو گئے تھے کہ ایک دن ہماری بلڈنگ میں رہنے والے ہندوستانی مدراسی مسلمان ہاشم بھائی جاسوس (کیوں کہ وہ ہر ایک کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے ) سے، ہم کسی بات پر یہ سوال کر بیٹھے کہ راجو جی، نچلی ذات کے ہندو ہیں یا بلند اوقات کے۔

ہاشم صاحب ہنس کر بولے، ”پاگل ہوئے کیا؟ کرنٹوں یعنی کرسچن حضرات میں کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈوکس تو سنا ہے، یہ اونچی نیچی ذات کہاں سے آ گئی؟“ ۔

جواباً ہم نے کہا آپ کی بات صحیح، مگر راجو تو ہندو ہے۔

” بولے غلط، میاں صاحب زادے تم جتنے مہینوں سے مملکت میں ہو میں اتنے سالوں سے یہاں ہوں۔ اپنی تصحیح کرلو تمہارا پڑوسی راجو ہندو نہیں بلکہ کرسچن ہے، جس کا پورا نام ’راجو فلپس‘ ہے“ ۔

ہم نے کہا، ”ہاں گھر کے باہر نام تو یہی ہے، مگر راجو کے گھر میں موجود مورتیاں کچھ اور کہانی بتلا رہی ہیں“ ۔

کہنے لگے، ”اصل میں کہہ تم بھی صحیح رہے ہو، مگر مسئلہ یہ ہے کہ سالوں پہلے حکومت سعودیہ نے کچھ وجوہات کی بناء پر انڈر ہینڈ، انڈیا سے ہندؤوں کو ویزا دینے پر پابندی لگادی تھی اور بعض جگہوں پر تو کفیلوں (مالکان) نے ان لوگوں (ہندوستانی ہندوؤں ) کو نکالنا بھی شروع کر دیا تھا (مختلف مواقع مثلاً شہادت بابری مسجد، گلف وار اور ایک ہندو“ پی این بروک ”کے اس دعوی کے بعد کے خانہ کعبہ ہندوؤں کا مندر تھا، زم زم کا کنواں گنگا کی شاخ ہے اور مسلمانوں کا کالا مقدس حجر اسود ’شیوا‘ کا پتھر ہے ) ۔

ایسے مواقع پر کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر سچے جھوٹے دل سے اسلام قبول کر لیا اور داڑھی بڑھا کر نماز روزہ بھی شروع کردی مگر کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے بجائے مسلمان ہونے کے ہندو سے کرسچن ہونے کو ترجیح دی، کچھ نے اپنے کاغذات یہیں تبدیل کروا لئے اور کچھ لوگ جن ہوں نے اپنے ہندو رشتہ داروں کو انڈیا سے بلانا تھا ان کو کہلا بھیجا کہ انڈیا میں رہتے ہوئے، پہلے مشنری اداروں سے مال سمیٹو، کاغذات پر کرسچن بنو اور پھر یہاں سعودیہ آ جاؤ۔ ایسے لوگ پاسپورٹ اور اقامہ پر کرسچن تھے، جب کے گھر میں ماتھا یہ جس کے سامنے چاہے ٹیکتے تھے ”۔

بہر حال بعد تحقیق پتہ چلا کہ ایسے کئی نمونے ہمارے اطراف میں بکھرے تھے جو سعودیہ میں ’فلپس‘ کے نام سے مشہور تھے مگر جب واپس اپنی جنم بھومی پہنچتے تو اپنوں کے لئے راجو بن جاتے تھے اور ہم کہتے تھے کہ ”راجو بن گیا فلپس“ ۔

بہرحال سعودی عرب آ کر ایسے سینکڑوں فلپائنیوں سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے شرف اسلام نہ صرف قبول کیا تھا بلکہ وہ پردے سے لے کر ادائیگی ارکان اسلام کے حوالے سے عملاً بھی مسلمان تھے، اس میں کریڈٹ مملکت کے ماحول کو بھی جاتا ہے جہاں ایمان داری اور اسلام کے بہترین اصول کی مثالیں جا بجا بکھری ملتی ہیں اور بس لمحوں کی دیر ہوتی ہے کہ جانے کب کون سی بات کسی غیر مسلم کو پسند آ جائے اور وہ مائل بہ شرف اسلام ہو جائے۔

یہ تو نصیب نصیب کی باتیں ہیں کوئی دنیا کے لئے دین بدلتا ہے تو کوئی آخرت کے لئے۔

’انا سعودی‘ کے غرور میں ڈوبے بہت سارے (سب نہیں ) سعودیوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ self assumption کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، یعنی خود ہی کچھ سوچ کر فیصلہ کر لیتے ہیں اور پھر اپنے اسی تکبر میں ڈوبے فیصلے کو بلا تحقیق حرف آخر سمجھ لیتے ہیں چاہے ان کی فرض کی گئی بات صحیح ہو یا غلط۔ بقول غالب یہ لوگ: ”مستند ہے میرا فرمایا ہوا“ ، کی عملی تفسیر ہوتے ہیں۔

پھر اس غلط بات کا نتیجہ دوسروں بالخصوص خارجیوں (غیر سعودی) کے لئے کیا مسائل پیدا کرتا ہے ان کی بلا سے۔ ویسے ہمیں اس مسئلہ سے جب بھی یہاں درپیش ہونا پڑا ہینڈل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی، کیوں کہ فوج میں رہتے ہوئے بحیثیت جونیئر اپنے کئی ایسے سینیئرز کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ جو تھا۔

”اوم پوری“ نام کا ایک ان پڑھ ہندو مزدور سعودیہ پہنچا۔ اس کے کفیل (یعنی مالک) نے اس کا فارم عربی میں اپنے مندوب (یعنی قاصد) سے پر کروا کر کہا کہ جوازات یعنی امیگریشن (پاسپورٹ آفس) جا کر ”مسٹر اوم پوری“ کا اقامہ بنوا لاؤ۔ کفیل کا مندوب گیا اور فارم جوازات والوں کو دے آیا۔ جنہوں نے بْقرۃ یا بکرہ (یعنی اگلے دن) آنے کو کہا۔

[اقامہ، غیر سعودی کے لئے سعودی عرب میں رہنے کا اجازت نامہ ہے جو بیوی کے علاوہ گھر کے ہر بالغ مرد و زن کے لئے الگ الگ ضروری ہے۔ ورک پرمٹ یا کام کرنے کا اجازت نامہ اس کے علاوہ ہوتا ہے جس کی موجودگی میں کوئی یہاں جاب بھی کر سکتا ہے، گھر کے سربراہ سمیت تمام نا بالغ بچوں اور بیوی کا اندراج اسی اقامہ میں مع ان کی فیملی فوٹو اور سنہ پیدائش کے ہوتا ہے، مقامی سعودیوں کے لئے ”ایک شناختی کارڈ“ ہوتا ہے جسے بطاقہ کہتے ہیں۔

خارجیوں (غیر سعودیوں ) کے لئے لازم ہے کہ وہ جب بھی گھر سے نکلیں اس اقامہ کو ساتھ رکھیں ورنہ انہیں چیک ہونے کی صورت میں اقامے کی عدم موجودگی میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا اقامہ باہر سے ہرے رنگ کا اور غیر مسلمین کا گہرا کتھئی یا لال رنگ کا ہوتا ہے تاکہ دور سے دیکھتے ہی کسی ان پڑھ اہل کار بالخصوص مطوع (مذہبی پولیس کے لوگوں ) کو پتہ چل جائے کہ صاحب اقامہ مسلمان ہے یا نہیں ]۔

اب ہوا یوں کہ یہ فارم ایک ”انا سعودی“ کے مارے نیم حکیم سعودی اہل کار کے ہاتھ لگ گیا، جس کو عربی تو پوری آتی ہی تھی انگریزی بھی اْتنی ہی آتی تھی جتنی ہمیں سرکاری اسکول سے سیکھی عربی آتی ہے۔ چونکہ زیادہ تر جگہ عرب ممالک میں عربی طرز تحریر میں الف مد آ کی جگہ الف کے اوپر کھڑا زبر لگا دیا جاتا ہے اور کچھ یہ زحمت بھی نہیں کرتے اس لئے ”انا سعودی“ کے مارے نے ”اوم“ کے الف کو آ اور، واؤ کو ملتا جلتا دال سمجھا اور فارم کے ساتھ منسلک انگریزی اور ہندی میں چھپے جوازالسفر یعنی پاسپورٹ سے کنفرم کیے بغیر ”اوم“ کو ”اٰدم“ یعنی ”آدم“ متصور کر لیا۔ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ عربی میں ”پ“ نہ ہونے کے سبب مندوب نے پہلے ہی ”پوری“ کو ”بوری“ لکھ دیا تھا۔ یوں حضرت نے ”اوم پوری“ کو ”آدم بوری“ سمجھ لیا۔

اوم پوری کی بد قسمتی، اقامہ بنانے والے سعودی علامہ کی چونکہ معلومات عامہ بھی اچھی تھی اس لئے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ایک مسلمان فرقہ ”بوہری یا بوری“ بھی ہوتا ہے جن کے ماننے والے ہند و پاک میں بہت ہیں۔

لیکن یہ کیا! یہ مندوب بیوقوف نے ”الدیانہ (دین)“ کے آگے مسلم کی بجائے ”غیر مسلم“ پر کیوں ٹک کر دیا؟ حضرت آدم کے نام پر جان قربان، آدم اور ساتھ میں بوہری، غیر مسلم تو ہو ہی نہیں سکتا، یقیناً فارم بھرنے والے کو جلدی میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی لاؤ میں خود ہی فارم کو صحیح کر دیتا ہوں۔

یوں ان ہوں نے مسٹر اوم پوری جو کے ہندو تھے، مسلمان ”آدم بوہری“ سمجھتے ہوئے ان کا باقی ڈاٹا، داخل کمپیوٹر، بغیر پاسپورٹ چیک کیے کر دیا۔ کمپیوٹر کا بٹن دبا تو ”ہرے رنگ“ کا ایک اقامہ جو مسلمانوں کے لئے ہوتا ہے آدم بوری کے لئے سعودی عرب میں رہنے کی اجازت کے ساتھ جاری ہو گیا۔

سعودیہ میں نئے نئے پہنچے، مگر ان پڑھ، اوم پوری کو اگلے دن اقامہ ملا، بڑا خوش ہوا۔ اسی شام سفید قمیض کی اوپر والی جیب میں نئے نئے ہرے اقامہ کو رکھے اپنی ”حارہ“ میں قائم رہائش گاہ میں پہنچ گیا۔ اقامہ ملنے کے بعد پہلے ہی دن شام کو تیار ہو کر اور سر پر تیل چپڑ کر باہر نکلا تو راہ چلتے مذہب کے ٹھیکیدار، ایک مطوع نے دھر لیا اور پوچھا،

”کدھر جاتا ہے؟“ ۔ اِنہوں نے کہا، ”باہر سڑک پر سیر کو“ ۔
جواب ملا، ”مغرب کی نماز تمہارے ابا جی پڑھیں گے؟“ ۔
اوم پوری نے ہنستے ہوئے کہا، ”مگر میں تو غیر مسلم اور ہندو ہوں“ ۔

مطوع نے کہا، ”ہمیں کیا جاہل سمجھ رکھا ہے اور کس کو بیوقوف بناتے ہو، اپنا اقامہ دیکھو یہ تو ہرا ہے جس کا مطلب ہے تم مسلمان ہو“ ۔

اوم پوری نے لاکھ سمجھایا، مگر مطوع ’انا مطوع سعودی مخْ ماَفی‘ mukh maafi ہو چکا تھا، اور وہ صحیح بھی تھا! ( یعنی میں سعودی مولوی ہوں اور میرا مخ یعنی دماغ نہیں ہے ) ۔

مطوع گھسیٹتے ہوئے اوم پوری کو قریبی مسجد میں لے گیا۔
پوچھا وضو ہے؟ شکار نے کہا وہ کیا ہوتا ہے؟

جس پر اسے وضو کرنے کو کہا گیا۔ اوم پوری ان پڑھ تھا بیوقوف مطلق نہ تھا۔ اس نے نلکے کی ٹونٹی کے سامنے بیٹھ کر الٹے ہاتھ پر دیکھا، پڑوسی سر کا مسح کر رہا تھا، سو اِنہوں نے بھی تفصیل سے کر لیا۔

یہ اور بات کہ جب تک ان کا مسح مکمل ہوا، برابر میں جگہ خالی ہو چکی تھی۔ دائیں طرف دیکھا تو بندہ کلی کے بعد ناک سڑک رہا تھا، انہوں نے جب تک ناک منہ صاف کر کے دوبارہ دیکھا تو وہ پیر دھو رہا تھا، سو انہوں نے بھی اس کی پیروی کی۔ یہ سارا مباشر یعنی لائیو کھیل، مولوی مطوع نے دیکھا تو سوچا کہ، اس کم بخت کو تو وضو بھی کرنا نہیں آ تا الٹی جماعت جا رہی ہے اس لئے جلدی جلدی اس کے ہاتھ منہ ناک، سر اور پیر وغیرہ دھلائے اور اقامہ ضبط کرتے ہوئے کہا کہ نماز پڑھو!

بے چارے اوم پوری نے گردن بچانے کے لئے جماعت کے ساتھ نماز: عقل اور آنکھیں اِدھر اْدھر اور رکوع میں ہے رام اور سجدہ میں ہائے رام کا ورد کرتے ہوئے ادا کی۔ اس دوران مطوع بھی اوم پوری کو کن انکھیوں سے نماز میں دیکھتا رہا۔ بعد صلاۃ، مطوع اس نتیجہ پر پہنچا کہ بندہ ابھی کچا مسلمان ہے یا نماز اور وضو میں آنا کانی کرتا ہے اس لئے اس کو حیا میں لے جایا جانا چاہیے (ہیئۃ مطوعوں کا مذہبی تھانہ ہوتا ہے جسے حیا بولا جاتا ہے ) ۔

قصہ مختصر، اوم پوری کو آدم بوری بنانے میں مطوع نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی اور تین دن تک تیرہ چودہ وقت کے وضو اور نمازیں انہیں حیا میں سکھائیں رٹائیں اور جاتے جاتے اپنے کمپیوٹر کے لئے، ان پڑھ اوم پوری سے عربی میں سرٹیفیکیٹ بھی انگوٹھا لگوا لیا کے مجھے وضو اور نماز میں طاق کر دیا گیا ہے۔

تین دن کی غیر حاضری کے بعد اوم پوری مالک کے پاس پہنچا تو وہ جوتا اٹھائے انہیں جھاڑ نے کے لئے منتظر تھا۔ روتے ہوئے ماجرا سنایا تو کفیل نے اظہار ہمدردی بھی کی اور ساتھ میں کہا کہ میں کل ہی مندوب کو جوازات بھیجتا ہوں۔ مندوب جوازات، تصحیح اقامہ کے لئے گیا اور واپسی پر اپنا سا منہ لئے واپس آ گیا کہ جوازات والے کفیل اور صاحب اقامہ دونوں کو بلاتے ہیں۔

دونوں کو جوازات کے کپتان کے سامنے پیش کیا گیا۔ کپتان نے کہانی سنی اور مالک سے کہا کہ اِس سے پوچھو یہ یہاں ریال کمانے آیا ہے یا تماشا کرنے۔ بیوی کے زیور اور جدی زمین بیچ کر لاکھ روپے لگا کر آنے والے کا جواب واضح تھا۔

کپتان نے مشورہ دیا، ”بہتر ہو گا تم اسلام قبول کرلو یا پھر نماز کے وقت گھر میں چھپ جایا کرو تاکہ مطوع تمہیں پکڑ نہ سکے“ ۔ اوم پوری کی حمیت نے یہ گوارا نہ کیا۔

اس پر کپتان نے اس کے سامنے چار راستے رکھے۔

پہلا تھا، ”چلو فرض کرو ہم تمہارا اقامہ تبدیل کر کے ہرے سے لال کر دیتے ہیں، لیکن کچھ دن بعد وہی یا کوئی اور مطوع جو حارہ میں ہوتا ہے تمہیں پکڑ لیتا ہے اور حیا میں لے جاتا ہے۔ جہاں کمپیوٹر سے پتہ چلتا ہے کہ تم پہلے مسلمان تھے اور نماز نہ پڑھنے کے جرم میں آ چکے ہو تو جانتے ہو کیا ہو گا؟ مسلمان سے ہندو یعنی مرتد ہونے کے جرم میں اگلے جمعہ، مطوع تمہاری گردن دیرہ مسجد میں اڑوا دے گا“ ۔

دوئم مشکل کپتان نے بتلائی، ”اول تو ہمارے کمپیوٹر سسٹم میں دین کو اسلام سے کچھ اور تبدیل کرنے کی سہولت نہیں لیکن اگر ہم ایسا کسی طرح کر بھی لیں تو ظاہر ہے ایک طرف تو تمہیں گردن زنی کا خطرہ رہے گا تو دوسری طرف ہمیں اس چیز کا خوف رہے گا کہ کب تم کسی ہندو یا مخالف اسلامی تنظیم کے ہتھے چڑھتے ہو اور وہ تمہیں لاکھوں ریال دے کر یہ بیان لے لیتے ہیں کہ تم پہلے مسلمان تھے اور اب یہاں یعنی سعودی عرب آ کر ہندو ہو گئے ہو، ناممکن۔ اس صورت میں ہمیں اپنی گردن بچانی ہوگی“ ۔

”تیسرا حل یہ ہے کہ تم چپ چاپ اپنا ریٹرن ٹکٹ کفیل سے لے کر خروج نہایۃ (فائنل ایگزٹ) لگواؤ یعنی ڈی پورٹ ہو جاؤ اور یہاں سے واپس آنے کے لئے کفیل تمہیں نیا ویزا اور ٹکٹ دیتا ہے یا نہیں یہ تم دونوں کی انڈر اسٹینڈنگ ٹھہری“ ۔

”اور چوتھا حل وہی جو میں نے شروع میں بتایا یعنی خود کو مسلمان سمجھتے ہوئے رہنا شروع کردو اور ریال کماؤ“ ۔

مسٹر اوم پوری یا آدم بوری نے کیا فیصلہ کیا؟ گردن، خروج نہایۃ یا دھرم میں سے کیا بچایا؟ ہمیں پتہ نہ چل سکا، بات تو صرف ”انا سعودی“ سے نکلی تھی۔

ویسے جس طرح نائیجیرین اور خان صاحبان پر ساری دنیا کے کسٹم والے ہیروئن کے حوالے سے خصوصی نظر عنایات ڈالتے ہیں اسی طرح یہاں وہ تمام لوگ جن کے پاسپورٹ پر ”الدیانہ غیر مسلم“ ہو، ان کی ایک اور خصوصی حوالے سے کسٹم پر اسپیشل چیکنگ ہوتی ہے اور وہ ہے ایسی تمام علامات یا چیزوں کی ضبطگی جو اس مذہب کے ماننے والوں کا خاصہ ہو، مثلاً صلیب یا کراس، کرسمس ٹری، ہندوؤں کی مورتیاں، ہندو اور کرسچنوں کے بھجنوں یا مذہبی گانوں کی آڈیو یا ویڈیو کیسٹ یا سی ڈی وغیرہ۔

کسی بھی مذہب کا غیر اسلامی تبلیغی نصاب، کتب اور کتابچے، بائبل کے نسخے ( بالخصوص اگر ایک سے زیادہ تعداد میں ہوں ) ۔ یہی نہیں ایسے بہت سے قرآنی نسخے جن کے تراجم سرکار سعودیہ سے منظور شدہ نہیں انہیں بھی سعودی عرب میں کسٹم پر ضبط کر لیا جاتا ہے۔ صلیب یا کراس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ انہیں پہن کر یعنی گلے میں ڈال کر یا ہاتھ میں لٹکا کر یہاں سر عام چلنے پر بھی پابندی ہوتی ہے اور بصورت جرم، مطوع پکڑ کر ساتھ لے جاتا ہے اور اس جرات پر صلیبی دوست کوڑے بھی کھا سکتے ہیں۔

سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نہ صرف یہ کہ کسی شہری کا دین، اسلام کے علاوہ کچھ نہیں، بلکہ یہ بھی کہ سنی مسلمان کے علاوہ کسی دوسرے مذہب یا عقیدے کی عبادت گاہ یعنی چرچ، مندر اور امام بارگاہ وغیرہ بھی یہاں نہیں ہیں۔ یہ چرچ کو کلیسا کہتے ہیں، کلیسا ہی نہیں بلکہ سرکاری طور پر، ہر مذہب کے پیرو کاروں پر مسجد کے علاوہ کہیں پر بھی اجتماعی طور پر مل کر عبادت (مثلاً کسی کے گھر یا ہوٹل کے ہال میں ) کرنے کی بھی آزادی نہیں، اس لئے عام شام یہاں تبلیغ یا اجتماعی عبادت کے جرم میں عیسائی غیر ملکیوں بالخصوص فلپینوز یا برطانوی حضرات کو پکڑا جاتا رہتا ہے، جس کو یہاں خاصہ سنگین جرم سمجھا جاتا ہے، اتنا سنگین کے بندہ مرتا بھی نہیں اور اس کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ کہاں گیا! البتہ انفرادی طور پر یہاں گھروں میں پوجا پاٹ یا کچھ اور کرنے کی پابندی نہیں ہوتی۔

سفارت خانے کی دعوت میں ایک گوری میم سے ملاقات ہوئی، دوران گفتگو مختلف مسائل پر سیر حاصل گفتگو کے بعد فرمانے لگیں،

”آپ کو پتہ نہیں یہاں چرچ نہ ہونے سے ہمیں کتنی زیادہ تکلیف ہوتی ہے؟“ ۔
پوچھا، ”بی بی، کلیسا نہ ہونے کی آپ کو سب سے بڑی کیا تکلیف ہوتی ہے؟“ ۔

کہنے لگیں، ”میری دو بیٹیاں اب بڑی ہو گئی ہیں، میری تو چلو خیر ہے، ان سے آئے دن چھوٹے موٹے اور بڑے چھوٹے ہر طرح کے گناہ ہوتے رہتے ہیں، آخر کو بچیاں ہیں، ان کا بھی دل ہے!“ ۔

کہا، ”اس سے چرچ کے نہ ہونے کا کیا تعلق، ان کو لگام ڈال کر یا کنٹرول کر کے رکھیں“ ۔

سنی ان سنی کرتے بولیں، ”چرچ کے نہ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمیں اور ہماری بچیوں کو اعتراف گناہ یعنی confession کرنے کی سہولت نہیں ہوتی اور ہمیں سال میں دسیوں چکر سعودیہ سے صرف اسی لئے اٹلی کے، لگانے پڑ جاتے ہیں؟ یعنی اپنی مذہبی دھلائی کے لئے“ ۔

بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتیں!

ویسے اب یہ اجتماعی عبادت یہ لوگ کہیں کہیں مل کر ڈش کے ذریعہ یا انٹرنیٹ پر آن لائن رہ کر بھی کر رہے ہیں۔ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی KAST جسے یہاں ویب سائٹس ممنوع یعنی بند یا بین کرنے کا مذہبی فریضہ سونپا گیا ہے، چغلیاں ملنے پر آئے دن ایسی ویب سائٹس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر بلاک کر رہے ہوتے ہیں، جہاں آن لائن اعترافات یعنی confession ہو رہے ہوں یا غیر اسلامی درس و تدریس کا پرچار کیا جا رہا ہو۔

آج سن 2000 میں سعودی عرب میں انٹر نیٹ کی ویب سائٹس کیسے بین یعنی ممنوع ہیں یہ شاید اہالیان پاکستان کے لئے سمجھنا قدرے مشکل ہو۔ بہر حال بس یہ جان لیں کہ انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی تمام ISP کمپنیاں پہلے مل کر کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کے مین کمپیوٹر سسٹم سے کنیکٹ ہوتی ہیں، جہاں ایک فلٹر پوائنٹ یا فائر وال کے بعد یہ نظام ساری دنیا کی انٹر نیٹ سے منسلک ہوجاتا ہے۔ اس فلٹر میں وہاں موجود کام کرنے والے مطوع سائنسدان چھانٹ چھانٹ کر گندی، غیر اخلاقی، غیر اسلامی یا سعودی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والی ویب سائٹس کو اپنے پاس رکھ کر باقی جو کچھ بچتا ہے وہ مملکت کے باسیوں کے لئے آگے کر دیتے ہیں۔

اس فلٹر میں تین چار لاکھ ممنوعہ ویب سائٹس کے ناموں کی ایک لمبی لسٹ ہوتی ہے ( جو روزانہ بڑھ رہی ہے ) جیسے ہی انٹر نیٹ پر کام کرنے والا کسی ویب سائٹ پر جانے کے لئے اس کا ڈبلیو ڈبلیو نام اپنے کمپیوٹر پر ٹائپ کرتا ہے، یہ فلٹر اس نام کو اپنی لسٹ میں موجود ممنوعہ ناموں میں ڈھونڈتا ہے، اور ملنے کی صورت میں اس ویب سائٹ کی فرمائش کرنے والے کے کمپیوٹر کی اسکرین پر پامیلا اینڈرسن یا کیتھرین زیٹا جونز کی صورت دل پذیر دکھلانے کی بجائے ایک طمانچہ کی شکل میں ایک اطلاع عربی اور انگریزی میں دیتا ہے کہ ”اس ویب سائٹ پر جانا ممنوع قرار دیا گیا ہے اگر آپ کو اعتراض ہو یا آپ چاہیں کہ اسے کھول دیا جائے تو اس پتہ پر رابطہ کریں“ ۔ ظاہر ہے چونکہ لوگوں کو اپنی کھال اور گردن بہت پیاری ہوتی ہے اس لئے کوئی مائی کا لعل، مجال ہے جو کبھی شکایت تو کر لے۔ یہاں ایک زمانے میں کافی عرصے تک پوری ”یاہو“ ویب سائٹ بھی بین رہی ہے۔ کیوں!

ہمارے علاوہ اس سوال کا جواب شاید صرف قبلہ بڑے حکیم صاحب یا مرزا ماہر بیگ ماہر ہی کے پاس ہو؟

پاکستانی حضرات شاید یہ جان کر حیران اور پریشان ہوں کہ یہاں قوالی، میلاد شریف، محفل نعت اور پاکستانی اسٹائل میں کسی کے مرنے پر ختم قرآن اور فاتحہ وغیرہ کو بھی انتہائی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، بالخصوص میلاد کو۔ جہاں تک قرآن خوانی کا سوال ہے، کیوں کہ اس میں تو قرآن نظر آ بھی رہا ہوتا ہے اور سنائی بھی دے رہا ہوتا ہے اس لئے زیادہ گڑ بڑ نہیں ہوتی، جبکہ میلاد کی اجتماعی پارٹی میں چھاپہ پڑنے کی صورت میں سعودیوں کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ انتہائی عقیدت سے اردو میں کیا ہو رہا ہے، دوسرا یہاں، ”عید میلاد النبی“ یعنی ”نبی کی پیدائش کی خوشی“ ، (عربی میں تاریخ المیلاد کا مطلب ہے، ”تاریخ پیدائش“ ) ، ان کی دانست میں منانا شرک سے کچھ ہی کم ہے لیکن ہے بدعت یعنی لازم گناہ۔ بقول ایک سعودی ان کی تاریخ کی تمام کتابیں اس قسم کے کسی فعل یا جشن سے خالی ہیں کہ کسی صحابی یا تابعی یا امام ابوحنیفہ، مالک، احمد بن حنبل یا شافعی رحمۃ اللہ اجمعین وغیرہ کسی نے نبی اکرم صلی اللہ و علیہ و سلم کی پیدائش کی خوشی منائی ہو؟

”لکم دین کم ولی الدین“ ۔

[شیعہ حضرات کی مجالس، نوحے، ماتم، تعزیہ، سڑک اور ٹریفک بلاک کرتے جلوس، ننگے پیر آگ پر زنجیروں کے ماتم اور ماتھے پر لگائے جانے والے زخموں کا تو تذکرہ ہی کیا اور نہ ہی یہاں سرکاری طور پر کسی امام بارگاہ کا وجود ہے ]۔ اس کے علاوہ ہماری نعت جسے یہاں مدح سرائی سے ”مدیح نبی“ بھی کہا جاتا ہے، میں الفاظ کے تراکیب استعمال پر بھی کڑی شرائط ہیں اور یقین جانیں اگر ہمارے یہاں پڑھی جانے والی تمام نعتوں کو عربی میں ٹرانسلیٹ کر کے ان کی ویڈیو یہاں سعودی عرب میں چلا دی جائے تو ہمارے اکثر نعت خوانوں کی مملکت آمد پر پابندی لگ جائے گی اور کچھ کے تو ممکن ہے قتل کا فتوٰی بھی جاری ہو جائے۔

سعودی عرب میں رہ کر کب محرم آ کر چلا جاتا تھا یا کب یک دم بارہ ربیع الاول آ کر چلی جاتی تھی، خاک بھی پتہ نہ چل پاتا تھا۔ البتہ پہلی بار دس محرم کو اس وقت شرمندگی ضرور ہوئی، جب ارد گرد کے سارے سعودی روزے سے تھے اور ہم دفتر میں شرمندہ شرمندہ، چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ بہر حال جان لیں کہ یہاں عاشورہ والے دن سنت نبوی کی پیروی میں ”من حیث القوم“ ، مل کر روزہ رکھا جاتا ہے اور آٹھ نو تاریخ کو مساجد میں یاد بھی دلایا جاتا ہے، لیکن عربی میں۔

ویسے ایک حیران کردینے والی بات بتلاؤں، اہل عرب جس خط میں قرآن شریف کو لکھ کر پڑھتے ہیں اس کو ہم آسانی سے نہیں پڑھ سکتے، جب کہ اعراب لگے پاکستانیوں کے لئے چھپے قرآن شریف، انہیں پڑھنے میں تکلیف دیتے ہیں، اور بعض عرب لوگ تو اتنے پریشان ہوتے ہیں کہ نرے شک میں ہی رہتے ہیں کہ اس قرآن میں کچھ گڑ بڑ سی لگتی ہے؟ [ماضی میں اسی لئے بہت سارے قرآنی تراجم اور (ان کے خیال میں ) اغلاط سے مزین قرآنی نسخے شروع شروع میں انڈو پاک سے سعودیہ لانے پر پابندی تھی]۔

اب خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں طرح طرح کی رنگت والی جلدوں کے قرآن شریف رکھے ملتے ہیں۔ ”ازرق“ یعنی نیلی جلد والا قرآن شریف ہم بر صغیر کے لوگوں کے حساب سے مع مکمل اعراب کے ملتا ہے۔ جبکہ باہر سے ہرا یعنی گرین قرآنی نسخہ، تمام اہالیان عرب کے لئے ہوتا ہے۔ جن میں سعودیوں سے لے کر مصری اور سوڈانی سبھی شامل ہیں۔ لال اور دوسری رنگت والے قرآن شریف بھی ہوتے ہیں جو دوسرے مختلف ممالک کے لوگوں کی سہولت کے لئے ہوتے ہیں۔ مثلاً انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی وغیرہ۔

مسلمان مخالف تنظیمیں اکثر شور مچاتی رہتی ہیں کہ سعودی عرب میں مسلمان ہونے پر سرکاری طور پر مال ملتا ہے۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ سرکاری طور پر تبلیغ کے ادارے ضرور موجود ہیں لیکن مال والی بات غلط بھی ہے اور صحیح بھی۔ غلط اس لئے کہ سرکاری طور پر تو نہیں البتہ کئی مالدار شیوخ نے فی سبیل اللہ ایسے نئے مسلمان ہونے والے لوگوں کی مدد کے لئے ایک دفعہ کا وظیفہ یا امداد ضرور مقرر کی ہوئی ہے۔ اس وظیفہ کی بھی بنیادی شرط فقط کلمہ شہادت پڑھنا یا مسلمان ہونا نہیں ( یہاں نو مسلم کو کلمہ توحید نہیں پڑھایا جاتا بلکہ مسلمان کرتے وقت کلمہ شہادت پڑھایا جاتا ہے ) بلکہ زبانی مسلمان ہونے سے زیادہ ہسپتال سے مسلمانی ہو جانے کا جراحی ثبوت دکھائے جانے کا سرٹیفیکیٹ دکھانے پر ملتی ہے۔

ویسے سعودیہ میں واقعتاً جوازات والوں نے جگہ جگہ اتنی پخیں لگا رکھی ہیں کہ سعودی عرب جیسے ملک میں مسلمان ہونا بھی اتنا آسان نہیں۔ اس لئے بھی یہ امداد واقعتاً ً ضروری بھی ہے، وہ یوں کہ، نو مسلم کو یقیناً پہلے اپنی مسلمان ہونے کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لئے داخل ہسپتال ہونا پڑتا ہے۔ پینتیس چالیس سال کے عمر میں مسلمان ہونا کتنا مشکل ہے، مرد حضرات کو ہسپتال پہنچ کر لگ پتہ جاتا ہے۔ ویسے تو حضرت نو مسلم کو ہسپتال سے اسی دن بھی فراغت مل سکتی ہے لیکن عموماً بعض اوقات یار لوگوں کو دو، تین دن تک بھی مستشفی (ہسپتال) میں رہنا پڑ جاتا ہے، اب ظاہر ہے اس آپریشن اور ہسپتال کے اخراجات کا کچھ بل بھی بننا ہے، جس کو ادا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

پھر ہسپتال میں رہنے کی وجہ سے بھی ان حضرات کو اپنے کفیل سے چھٹی یا دفتر سے معاملات تنخواہ میں مشکل بھی پیش آ سکتی ہیں اور اس کے علاوہ غیر مسلم والے لال اقامے کو ہرا کرانے کے لئے مزید مال بھی نومسلم صاحب کو اقامہ تبدیلی کے لئے چاہیے ہوتا ہے، اس کے بعد اپنے ملک کے سفارت خانہ میں جاکر اپنے پاسپورٹ میں دین کا خانہ بھی مسلمان کروانے کے لئے ریال چاہئیں، انہی اسباب کی وجہ سے بہت سارے سخی حضرات نے نو مسلم خارجی لوگوں کی مدد کے لئے یہ فنڈ قائم کیے ہیں۔

لیکن پھر بھی آفرین ہے بہت سے ایسے نومسلم لوگوں پر جو زیادہ مال دار نہ ہونے کے باوجود بھی ایسے فنڈ یا اداروں سے دھیلا بھی مدد کے لئے نہیں لیتے اور سارے اخراجات تمام مشکلات کے باوجود خود برداشت کرتے ہیں، ان کا کہنا بس یہی ہوتا ہے کہ وہ مال ہی کیا جو ہم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کر سکیں، مزید وہ اپنے آپ کو اس الزام سے بھی بچانا چاہتے ہیں کہ کوئی ان کو یہ نہ کہہ سکے کے تم نے پانچ دس ہزار ریال کے لالچ کے لئے اپنے باپ دادا کا دین بیچ دیا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments