لزبن (پرتگال) کی سیاحت ۔(پہلی قسط)


میری خودنوشت سوانح ”ریاض نامہ“ کے بیسویں باب کی شروعاتی تحریر ملاحظہ فرمائیں :

”ہماری شادی کی سالگرہ کا دن انتیس فروری ہے اور اس دن کی مناسبت سے ہم کبھی بھی برلن میں ٹک کر نہیں بیٹھتے۔ بارسلونا، روم، وینس، پیرس، استنبول، بوڈا پیسٹ، پراگ، نیو یارک، واشنگٹن، ٹورنٹو اور دوسرے بہت سے خوبصورت شہروں کو دیکھ چکے ہیں۔“

امسال کی انتیس فروری کے لئے، کافی سوچ بچار کے بعد پرتگال کے دارالحکومت لزبن، جسے پرتگیزی زبان میں (Lisbos) لزبوس کہا جاتا ہے، کی مختصراً سیاحت کا پلان بنایا گیا۔ ایک غلطی جو ہمیشہ دہرائی جاتی ہے کہ ہوائی جہاز کی ٹکٹیں اور ہوٹل کے انتظامات، عین وقت پر کیے جاتے ہیں۔ ہم ہمیشہ شیڈولڈ ائر لائنز کی بجائے سستی ائر لائنز پر سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سستی ائر لائنز کی ٹکٹوں کے لئے بندے کو تاریخ روانگی سے ”صدیاں“ پہلے بک کرنا پڑتا ہے وگرنہ یہ بجٹ ائر لائنز برائے نام ہی سستی رہ جاتی ہیں۔ وسط فروری، رائین ائر کی ٹکٹیں اور لزبن شہر کے مرکز میں ایک خوبصورت ہوٹل بک کیا گیا۔

برلن کے مضافات میں واقع بیر نامی خوبصورت ائرپورٹ سے 28 فروری بوقت تین بجے بعد دوپہر روانگی تھی۔ تین گھنٹے دس منٹ کی فلائیٹ کے بعد ہم بخیریت لزبن کے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے۔ سی۔ ای۔ ٹی یعنی سینٹرل یورپین ٹائم اور پرتگال کے ٹائم میں ایک گھنٹے کا فرق ہے۔ پرتگال، یورپین براعظم کے جنوب میں آخری ملک ہے۔ اس کے بعد بحری علاقہ ہے۔ جس کا ذکر بعد میں آئے گا۔

پرتگال کے یورپین یونین کے رکن ہونے کی وجہ سے ہماری پاسپورٹ چیکنگ وغیرہ نہیں ہوئی۔ پرتگیزی زبان کی نابلدی کی وجہ سے زیادہ پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ تقریباً اکثریتی نوجوان لوگ، اسپینش، فرنچ یا انگریزی، بول سکتے ہیں۔ البتہ جرمن زبان کوئی نہیں بولتا۔

”مسافروں کی آمد“ پر پہنچ کر ہمیں اپنی شٹل سروس کے ڈرائیور کی تلاش تھی۔ یہ شٹل سروس، ہم نے اپنی ہوٹل بکنگ کے ساتھ ہی کر رکھی تھی۔ وہاں ایک بورڈ پر مسافروں کے نام تحریر تھے جنہوں نے شٹل سروس بک کرا رکھی تھی تاکہ شٹل کار کے ڈرائیوروں کا مسافروں سے رابطہ ہو سکے۔ یا پھر ڈرائیورز، اپنے ہاتھوں میں ناموں کے بینرز اٹھائے ہوئے ”آمد“ پر اپنے مسافروں کو لے جا رہے تھے۔ ہمیں بھی فوراً اپنا شٹل کار کا ڈرائیور مل گیا جس نے ہمیں تقریباً بیس منٹ کی رائیڈ کے بعد ، انجوز نامی انڈر گراؤنڈ ٹرین اسٹیشن کے پاس واقع ہمارے خوبصورت ہوٹل میں بخیریت پہنچا دیا۔ انجوز لزبن شہر کا ایک روایاتی مشہور قصبہ ہے۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم ہوٹل کے گردونواح کو ایکسپلور کرنے کے لئے پیدل ہی نکل پڑے۔ ہمارا ہوٹل ایک بڑی، مصروف اور بارونق سڑک پر واقع تھا۔ رہائشی کمرے ہوٹل کے پچھواڑے ہونے کی وجہ سے ہمیں، سڑک پر ٹریفک کا شور سنائی نہیں دیتا تھا۔

اگرچہ ہماری سڑک کے ساتھ ساتھ انڈر گراؤنڈ ٹرین بھی تھی لیکن آج ہم نے پیدل چلنے کو ترجیح دی اور المیدا نامی تیسرے ٹرین اسٹیشن تک پہنچے تو ایک بہت بڑا خوبصورت پارک نظر آیا۔ اس پارک میں ڈانسنگ فونٹین کے علاوہ بھی نہایت عمدہ طریقے سے پارک کے راستوں کو آراستہ کیا گیا تھا۔ ڈانسنگ فونٹین کا ٹائم ہم مس کر چکے تھے۔ اندھیرے کی وجہ سے ہم نے پارک میں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا اور ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے ہوٹل واپس آ گئے۔ ہمارے ہوٹل والی سڑک پر کچھ ڈھابے ٹائپ دیسی (پاکستانی اور بنگالی) ریستوران بھی نظر آئے تھے۔

دوسرے دن 29 فروری کو علی الصبح ہوٹل کے ریستوران میں بوفے کی طرز کا ناشتہ ہمارا منتظر تھا جہاں ہر قسم کی کھانے کی چیزیں وافر مقدار میں موجود تھیں۔ ناشتے کاوقت صبح 7 : 30 سے 10 : 30 تک مقرر تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر کمرے میں دوبارہ آئے اور لزبن شہر کی سیاحت کے لئے کمر کس ہو گئے۔ ہوٹل سے باہر نکل کر، سیڑھیوں اور اسکلیٹر کے ذریعے، انجوز میٹرو اسٹیشن یعنی انڈر گراؤنڈ ٹرین کی ٹکٹوں کی آٹومیٹک مشینوں کے پاس کھڑے ہو گئے۔ لندن کے اوئے سٹر کارڈ کی طرح، ”لزبوس کارڈ“ خرید کر ان میں یورو کرنسی کا بیلینس بھرا۔ جب تک کارڈ میں یورو بیلینس موجود ہے، بندہ لزبن میں بس، ٹرام، ریل گاڑی، بحری کشتیاں اور لفٹ چئیر استعمال کر سکتا ہے۔

ٹکٹ کے بغیر، انڈر گراؤنڈ ٹرین میں داخلہ ناممکنات میں سے ہے کیونکہ وہاں بیرئیرز لگے ہوئے ہیں جو صرف لزبوس کارڈ کو ڈالنے پر ہی کھلتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ باہر نکلنے کے لئے بھی آپ کو لزبوس کارڈ کا استعمال کرنا لازمی ہوتا ہے۔ البتہ بسوں اور ٹرام وغیرہ میں شاید کچھ لوگ بغیر ٹکٹ بھی سفر کرتے ہوں گے۔ کیونکہ ان میں، میٹرو ٹرین کے برعکس، دروازے کھلنے کے بعد بندہ، پنچنگ مشین میں اپنی ٹکٹ ویلیڈیٹ کرتاہے۔ یہاں ٹرام بھی برلن کی طرز پر، ایک بس کی طرح ہی ہوتی ہے۔ لزبن کا انڈر گراؤنڈ ریل سسٹم بھی استنبول اور لندن کی مانند ہے۔ لیکن برلن ان معاملات میں بہت پیچھے ہے۔ یہاں کوئی بیرئیرز نہیں ہیں اور روایاتی چیکرز آ کر مسافروں کی ٹکٹیں چیک کرتے ہیں۔

ہم انجوز میٹرو اسٹیشن سے باکسا۔ چھیاڈو نامی اسٹیشن پر پہنچے۔ اس اسٹیشن سے باہر نکلنے کے لئے پانچ۔ چھ ایسکلیٹرز (الیکٹرک سیڑھیاں ) استعمال کرنا تھیں۔ ویسے لفٹ بھی تھی لیکن اس کو ڈھونڈنا بھی ایک مرحلہ تھا۔ باہر کا راستہ لزبن کے اپر سٹی میں نکلتا ہے جبکہ میٹرو اسٹیشن لوئر سٹی میں تعمیر کیا گیا ہے۔ دراصل یہ ڈبل نیم اسٹیشن، لزبن اولڈ سٹی کا مرکز ہے۔ بائیکسا، لزبن کے لوئر سٹی میں اور چھیاڈو لزبن کے اپر سٹی میں واقع ہے۔ لزبن شہر سات پہاڑیوں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اور ناہمواریوں کی وجہ سے پیدل چلتے چلتے، بندے کی اچھی خاصی پریڈ ہو جاتی ہے۔

میٹرو اسٹیشن سے نکلتے ہی بہت ہی خوبصورت اور بارونق جگہ نظر آئی۔ کچھ دوری پر دریائے تاگس، جو لزبن شہر کے بیچوں بیچ اور پھر ساتھ ساتھ بہتا ہوا شمالی بحر اوقیانوس میں جا گرتا ہے، نظر آ رہا تھا۔ دریا کے کنارے جانے کے لئے، پیدل چلنے کی بجائے، صد سالہ پرانی تاریخی ٹرام نمبر 28 کا انتخاب کیا اور لزبن کی سب سے خوبصورت کیس ڈو سدرے نامی جگہ پہنچ گئے۔ یہاں پر ایک طرف ایک قوس دار نامی دروازے، جس کی چوٹی پر سے لزبن کا نظارہ دیکھا جا سکتا ہے، سے گزر کر اولڈ سٹی کے، الفاما نامی، لزبن کا دل و جان کہلانے والے علاقے کی چھوٹی چھوٹی خوبصورت گلیاں، مثلاً اگستا اسٹریٹ، آ جاتی ہیں اور دوسری طرف مشہور زمانہ تجارت چوک کے ساتھ دریائے تاگس کا دلکش کنارہ ہے۔

ہم نے لزبن کے مشہور سیاحتی مقام لزبن بیلیم ٹاور جانے کا فیصلہ کیا۔ ٹرام نمبر 15 میں بیٹھ کر ہم لزبن کے علاقے بیلیم پہنچے تو معلوم ہوا کہ بیلیم ٹاور تک تقریباً بیس منٹ پیدل چلنا ہے۔ اور یہ ٹاور دریائے تاگس کے کنارے پانی کے اندر تعمیر کیا ہوا ہے۔ بیلیم اسٹیشن پر، ٹرام سے اترنے پر نہایت خوبصورت چرچوں کا ایک سلسلہ نظر آیا۔ وہاں داخلے کا وقت پانچ بجے شام ختم ہونے کو تھا لیکن ہمیں تو بیلیم ٹاور جانا تھا۔

پیدل چلتے ہوئے بائیں ہاتھ کچھ فاصلے پر، دریا کے اندر مشہور پرتگیزی سیاح واسکوڈے گاما کی یادگار نظر آئی۔ ٹاور جانا یا اس یادگار کو اندر جا کر دیکھنا یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ بہر کیف ٹاور جانے پر اتفاق ہوا۔ کیونکہ یادگار میں داخلہ کا وقت بھی ختم ہونے کو تھا۔

بیلیم ٹاور پہنچتے پہنچتے کافی تھکاوٹ ہو گئی وہاں صرف غروب آفتاب کا مسحورکن نظارہ دیکھا جا سکا تھا۔ ٹاور کے پاس ایک ملحقہ پارک کے بنچوں پر سستانے کے بعد وہاں سے واپسی کا سفر شروع کیا۔ ٹاور کے اندر تک جانے کے اوقات ختم ہو چکے تھے۔ باہر سے ہی ٹاور کو دیکھا اور غروب آفتاب کے نظارے سے لطف اندوز ہونے کے بعد واپس لزبن اندورن شہر جانے کی ٹھانی۔ واپسی کی ٹرام لینے سے پہلے، شام چھ بجے، ٹی ٹائم انجوائے کرنا بھی ضروری تھا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تو پاس ہی ایک کیفے میں چلے گئے۔ وہاں پر پرتگال کی مشہور زمانہ پیسٹری پاسٹل ڈے ناٹا، بلکہ بیلیم کی مناسبت سے پاسٹل ڈے بیلیم کے ساتھ گرم گرم کافی سے اپنے آپ کو ترو تازہ کیا۔ ابھی تو ٹرام اسٹیشن تک بھی پیدل چلنا تھا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments