چین کی گلوبل گرین شراکت


حالیہ دنوں بعض مغربی حلقوں کی جانب سے چین کی گرین ترقی اور گرین مصنوعات پر ”حد سے زیادہ پیداواری صلاحیت“ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جو بین الاقوامی رائے عامہ میں گرما گرم بحث کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ تاہم عالمی سطح پر لوگوں بالخصوص معاشی ماہرین کی اکثریت ان الزامات کو عمومی طور پر بے بنیاد قرار دیتی ہے۔ معاشیات کے بنیادی قوانین کا استعمال کرتے ہوئے اس بیانیے کو دیکھا جائے تو صورتحال بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ تقابلی فوائد کے نظریے کے مطابق، اگر کوئی ملک کم قیمت پر کسی خاص مصنوعات کو تیار کرنے کے قابل ہے، تو دوسرے ممالک کو ٹیرف رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے اس مصنوعات کو درآمد کرنا چاہیے، جبکہ ان مصنوعات کو برآمد کرنا چاہیے جس میں ان کا تقابلی فائدہ ہے۔

ویسے بھی چین میں، سبز صنعتوں کو فروغ دینا اور سبز تجارت کو بڑھانا عالمی ترقیاتی رجحان کے مطابق ایک انتخاب ہے۔ فوٹو وولٹک، لیتھیم آئن بیٹریاں اور نئی توانائی کی گاڑیوں نے عالمی مارکیٹ میں ایک خاص مسابقتی فائدہ حاصل کیا ہے، جس سے دنیا بھر کے ممالک کو پائیدار ترقی کے لئے اقوام متحدہ کے 2030 ایجنڈے اور پیرس معاہدے کے اہداف پر عمل درآمد کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

یوں، عالمی معیشت میں چین کی گرین شراکت تعمیری اور واضح ہے۔ اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ عالمی اقتصادی چیلنجوں کے باوجود، چین کی جامع صنعتی چینز اعلیٰ معیار، موثر اور معقول قیمت والی سبز مصنوعات جیسے فوٹو وولٹک، لیتھیم آئن بیٹریاں اور نئی توانائی گاڑیاں پیش کر رہی ہیں، جو عالمی افراط زر کے دباؤ کو کم کرنے میں انتہائی مددگار ہیں اور سپلائی چین استحکام کی حمایت کرتی ہیں۔

اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو عالمی سطح پر 2023 میں، قابل تجدید توانائی کی نئی نصب شدہ صلاحیت 510 ملین کلو واٹ تک بڑھ چکی ہے، جس میں چین کا شیئر نصف سے زیادہ رہا ہے۔ چین کی اعلیٰ معیار کی صاف توانائی کی مصنوعات 200 سے زیادہ ممالک اور خطوں کو برآمد کی گئی ہیں۔ چین نے 100 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ گرین انرجی منصوبوں پر تعاون کو فروغ دیا ہے، جس سے ان کی بجلی کی فراہمی اور قیمتوں کے مسائل کو موثر طریقے سے حل کیا گیا ہے۔

بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران ونڈ اور فوٹو وولٹک بجلی کی لاگت میں نمایاں کمی آئی ہے، جس کی وجہ چینی جدت طرازی اور مینوفیکچرنگ کی صلاحیت ہے۔ عالمی سطح پر ہوا سے بجلی کی اوسط کلو واٹ گھنٹے کی لاگت میں 60 فیصد سے زیادہ اور فوٹو وولٹک بجلی کی پیداوار میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین چینی مصنوعات کو خطرات کے بجائے مارکیٹ کے مواقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ان کا استدلال ہے کہ صارفین کم قیمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور چینی جدت طرازی مینوفیکچررز کو بہتر بنانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس طرح، چین کی سبز ترقی سے حاصل ہونے والے مارکیٹ کے منافع کو پوری دنیا بانٹ رہی ہے۔ مغربی مبصرین کے خیال میں مغرب کم قیمتوں پر شمسی پینل اور ونڈ ٹربائن خرید سکتا ہے اور اگر جدید چینی الیکٹرک کاریں یورپی مینوفیکچررز کو بہتری لانے پر مجبور کرتی ہیں تو صارفین کو خوش ہونا چاہیے۔

دوسری جانب بے شمار حقائق چین کی مبینہ نئی توانائی کی حد سے زیادہ صلاحیت کی غلط فہمی کو دور کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ چین کی نئی توانائی کی صنعت کی آزادانہ جدت طرازی کی کامیابیاں ان حلقوں کے بہترین مفاد میں ہیں جو چین کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔ چین پر تنقید اور الزام تراشی کی کوششیں، گلوبلائزیشن مخالفت اور تجارتی تحفظ پسندی کو شدت دے سکتی ہیں، جو تشویشناک ہے۔

ویسے بھی معاشی اور تجارتی معاملات کو سیاسی رنگ دینے کے کبھی بھی مثبت اثرات برآمد نہیں ہوئے، تجارتی پابندیاں عائد کرنے اور مارکیٹ آرڈر کی خلاف ورزی ہمیشہ عالمی معیشت کے لیے خطرہ رہی ہے۔ اس سے نہ صرف پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے بلکہ گھریلو اور عالمی صارفین دونوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ حد سے زیادہ گنجائش کا بیانیہ تحفظ پسندی کا بہانہ فراہم کرتا ہے جو ممکنہ طور پر عالمی تجارت کے لیے خطرناک ہے۔

اس بیانیے کا مقصد چین جو ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی کرتا ہے، کی تکنیکی ترقی اور صنعتی اپ گریڈیشن کو روکنا اور غیر منصفانہ طریقوں سے عالمی سطح پر کچھ ممالک کی معاشی بالادستی کو برقرار رکھنا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک لازم ہے کہ کھلا پن ہمیشہ ترقی لاتا ہے جبکہ ڈی کپلنگ اور آئیسولیشن ناگزیر طور پر پسماندگی کا باعث بنتی ہے۔ ایک پائیدار ترقی پذیر اور زیادہ کھلا چین دنیا میں ترقی کے مزید مواقع کا موجب ہے۔ جب دنیا کے تمام ممالک مل کر کام کریں گے تب ہی پوری انسانیت کی مشترکہ ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments