وزیراعظم،جے آئی ٹی اور ممکنہ خودکش حملہ


معلوم نہیں تاریخ خود کو دہرا رہی ہے یا ایک نئی تاریخ مرتب ہو رہی ہے، یاروں نے بیس برس پرانا قصہ چھیڑ دیا ہے کہ ن لیگ نے پہلے بھی ججوں پر حملہ کیا اور ان کو جوتیاں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا،اب بھی ن لیگ وزراکے بیانوں کی توپیں مختلف اداروں پر حملہ آور ہیں، 1997کا ذکر چھڑا ہے تو ماضی کے دریچوں سے نکل کر بہت کچھ ذہن کے پردہ سکرین پر نمودار ہورہا ہے جب وزیراعظم نوازشریف نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کی ضد پر ان کی مرضی کے پانچ جج دے دئیے تھے لیکن شاہ صاحب کی انا کا غبارہ تھا کہ مسلسل پھولے جار ہا تھا، عقل والوں کو صاف نظر آرہا تھا کہ چیف جسٹس سجادعلی شاہ اور صدر فاروق لغاری جمہوریت کے خلاف ایک غلیظ سازش کے تحت آئین کی تیرھویں ترمیم معطل کر کے بدنام زمانہ 58/2B کے کلہاڑے سے منتخب حکومت کا جھٹکا کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس سجا د علی شاہ نے پہلے تو دنیا کی تاریخ کا ایک انوکھا کارنامہ انجام دیا کہ فلور کراسنگ سے متعلق پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظورہونے والی چودھویں آئینی ترمیم کو معطل کردیا، وزیر اعظم نواز شریف نے غیر آئینی اور بغیر کسی اخلاقی جواز کے پارلیمنٹ کے چھابے میں ہاتھ مارنے پر چوں چرا کی توان پر توہین عدالت لگا دی گئی، ملک کا وزیراعظم سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو پہلے تو غیر ضروری طور پر کبرو نخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں لمبا انتظار کرایا گیا پھر اعلی ترین اخلاقی قدروں کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ان کی وضاحت کو مسترد کردیا گیا اور انہیں دودن بعد 19نومبر کو دوبارہ عدالت کے کٹہرے میں طلب کر لیا گیا، معلوم نہیں چیف جسٹس سجاد علی شاہ خود کو خدا کا فرستادہ سمجھ بیٹھے تھے کہ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ضیا کی آمریت کی بدصورت نشانی 58/2B کو بحال کرنے کے لئے تیرھویں آئینی ترمیم کا بھی جھٹکا کردیا، تیرھویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے سازش کی بنیاد پر بنے اس کالے قانون کو متفقہ طور پر منسوخ کیا تھا، لیکن برے نصیب کہ شاہ جی کے اپنے ادارے میں بیٹھے ججوں کو ان کی یہ ادا ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے الٹا چیف جسٹس سجاد عالی شاہ کا ہی دھڑن تختہ کر دیا اور اس سے پہلے کہ صدر فاروق لغاری کوئی کارنامہ سرانجام دیتے سپریم کورٹ نے تیرھویں آئینی ترمیم کو بھی بحال کر دیا، صدر فاروق لغاری کی شدید خواہش تھی کہ وہ 58/2Bکے ذریعے شاہراہ دستور کے عین بیچ میاں نواز شریف کی حکومت اور پارلیمنٹ کا جھٹکا کریں لیکن ان کو راولپنڈی کی حمایت میسر نہ آسکی اور پھر وہ خود بھی تاریخ کا حصہ بن گئے،

آج صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف وہی نواز شریف بطور وزیراعظم سپریم کورٹ کو نہیں بلکہ اس کی بنائی ہوئی ایک تحقیقاتی ٹیم کو اپنے مرحوم باپ کا حساب کتاب دینے کا سزاوار ٹھہرایا گیا ہے بلکہ اس کی اولاد بھی تحقیقاتی ٹیم کے ملزموں کی قطار میں کھڑا کر دیا گیا ہے، اوپر والا جانتا ہے کہ میری نہ تو نواز شریف سے کوئی دوستی ہے نہ رشتہ داری اور نہ ہی میں اس حق میں ہوں کہ کوئی بھی شخص جو اس قوم کا پیسہ لوٹے اس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت برتی جائے، لیکن شریف فیملی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وزیراعظم کسی غریب یا مڈل کلاس فیملی کے فرد نہیں بلکہ ان کے والد میاں شریف نے اپنی محنت سے ایک صنعتی ایمپائر کی بنیاد رکھی اور اپنے اہل خانہ کی محنت سے اسے مسلسل ترقی دیتے گئے، وزیراعظم کو سیاست کے خار زار میں تیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اس دوران دوبار پیپلزپارٹی کی حکومت اورایک بار کمانڈو حکومت نے ان کا احتساب کیا، نوے کی دہائی میں احتساب الرحمان نے کیا گل کھلائے ان کی حمایت کی کوئی مجبوری اس خاکسار کو لاحق نہیں لیکن پرویز مشرف جیسے جانی دشمن کو اگر نواز شریف کے خلاف کچھ نہیں مل سکا تو جے آئی ٹی آج کس ادارے پراور کس بنیاد پر یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ سرکاری ادارے ریکارڈ میں ردو بدل کر رہے ہیں، ملک کی اعلی ترین عدالت نے اپنی بصیرت اور واٹس ایپ کی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے قوم کے بہترین دماغوں کو جے آئی ٹی میں اکٹھا کیا ہے، جنہوں نے صرف چوبیس گھنٹے میں تصویر لیک کرنے والے کا سراغ لگا لیا لیکن ایک مہینے میں وہ اس بات کا تعین نہیں کر سکے کہ کس ادارے میں بیٹھا کون سا ہاتھ سرکاری ریکارڈ میں کیا ردو بدل کر رہا ہے،

لال حویلی کے مکین سمیت سیاسی مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ نواز شریف خودکش حملوں کا عادی ہے، مجھے خدشہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وزیراعظم ایک اور خود کش حملہ کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے سوالوں کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ معزز ارکان جے آئی ٹی کو یہ گزارش کریں کہ حضور میری زندگی کے جو چند صفحات غائب ہیں وہ 1999 میں لاہور میں میری رہائش گاہ کی ایک کمانڈو کے ہاتھوں فتح کے دوران غائب ہو گئے تھے، براہ کرم اس کو طلب کر کے دریافت کیجئے، سنا ہے کوئٹہ کی عدالت اس کو بغیر کسی پیشی کے باعزت بری کر چکی ہے لیکن راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت روز اس کے نام کی دہائی دیتی ہے،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سنگین غداری کیس میں عدالت نے اسے دل کے ایک ہسپتال کی طرف سے کمر درد کا سرٹیفکیٹ دیکھ کر علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی اجاز ت دی تھی، باوثوق ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وہ دبئی میں ” ڈانس تھراپی “ کے ذریعے کمر درد کا علاج کروا رہا ہے، براہ کرم جے آئی ٹی میں ایک انٹرویو اس کا بھی کر لیجئے شائد یہ گھتی سلجھ جائے اور کھوئے ہوئے پنے واپس مل جائیں، ہو سکتا ہے کہ میاں صاحب اس سے بھی بڑا خود کش حملہ کرنے کا سوچیں اوریہ سمجھتے ہوئے کہ جے آئی ٹی تو اس قدر طاقت ور نہیں جس قدر عدالت عظمیٰ ہے،وہ عدالت عظمیٰ سے بصد احترام گزارش کریں کہ میں تو عدالت کے مقرر کئے تفتیش کاروں کے سامنے بمعہ اہل و عیال حاضر ی دے چکا ہوں، میرا قصور ثابت کیجئے اور مجھے انصاف کی سولی پر لٹکا دیجئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ براہ کرم ایک کام اور کر دیجئے، ریاست کا ایک اشتہاری ملزم کو جو کبھی ایک عدالت سے چھپتا ہے تو کبھی دوسری عدالت سے استثنیٰ مانگتا ہے،وہی جو پانامہ کیس میں روزانہ خوشبو لگا کر عدالت عظمی میں پیش ہوتا تھا اس سے گزارش کیجئے کہ وہ کچھ وقت نکال کر آپ کی ایک ماتحت عدالت میں ہی حاضر ہوجائے، دوسرا اشتہاری زکوة صدقات کی بھیک لینے تازہ تازہ کینیڈا سے آیا ہے، براہ کرم قانون اور انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے اس کی بھی طلبی کیجئے، چلئے مان لیا ان دونوں کے دل میں قانون اور عدالت کا رتی برابر احترام موجود نہیں لیکن آپ ہی کی برادری کے ایک چیف جسٹس ہوا کرتے تھے جو عدلیہ کا افتخار تھے، کچھ ناہنجاروں نے ان کے معصوم بیٹے پر بہت غلیظ الزامات لگائے تھے جس کی شفاف تحقیقات کے لئے خود چیف جسٹس نے بھی قرآن کو گواہ بنایا تھا براہ کرم اس معاملے کی تحقیقات کے لئے بھی ایک جے آئی ٹی بنا دیجئے، مائی لارڈ آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تمام غیر قانونی بھرتیوں کو کالعدم قرار دے دیا لیکن اس کے ذمہ دار معلوم نہیں کوہ قاف میں غائب ہو گئے ہیں، براہ کرم ایک جے آئی ٹی اس کے ذمہ داروں کی تلاش کے لئے بھی بنا دیجئے، حضور والا! اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ایک انتہائی آسان گزارش پیش خدمت ہے، حال ہی میں ایک معزز جج کے ساتھ دہشتگردی کرنے والے راولپنڈی کی خانقاہ کے سجادہ نشین کے بیٹے پر دہشت گردی کے مقدمے کا راتوں رات معلوم نہیں کیا ہوا کہ ملزم کو ساتھیوں سمیت ضمانت پر رہائی مل گئی، سنا ہے ان کی رہائی سے ایک دن پہلے دو چار اخباروں میں ملزم کے والد کی طرف سے معافی نامہ شائع کرایا گیا تھا، مائی لارڈ میں اپنے تمام گناہ بغیر کسی ثبوت کے تسلیم کرتا ہوں اور کل کے تمام اخبارات میں پورے صفحے کا رنگین معافی نامہ چھپوانے پر بھی تیار ہوں مجھے صرف یہ بتا دیا جائے کہ ایدھی کو کتنا ہرجانہ ادا کرنا ہے،

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).