میں اپنی بیٹی کو خود بھگا دوں‌ گی


ساؤتھ ایشین معاشرہ شادیوں‌ کے گرد گھومتا ہے۔ شادی ہر کسی کے لئیے نہیں اور ہر کوئی شادی کے لئیے نہیں، اور ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لئیے ہو۔ ایک بہت عام غلطی جو کافی لوگ کرتے دکھائی دیتے ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو محدود رکھنا اور خود اپنے بل بوتے پر ان کے رشتے جوڑنے کی کوشش کرنا ہے۔ حالانکہ دنیا میں‌ ہمیں‌ وہ نہیں ملتا جو ہم چاہتے ہیں، دنیا میں‌ ہمیں وہ ملتا ہے جو ہم ہوتے ہیں۔ ہر انسان اپنے اردگرد نظر دوڑا کر واضح‌ طور پر دیکھ سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ انہی لوگوں‌ کو دوستی کرنا اچھا لگتا ہے جن کی تعلیم اور خیالات آپ سے ملتے جلتے ہوں۔ اس لئیے اپنی بیٹیوں‌ کے لئیے اچھے ساتھی ملنے کا سب سے قابل بھروسہ طریقہ ان کو تعلیم یافتہ اور طاقت ور بنانا ہے۔

دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیوں‌ کو اطاعت شعار بننا اور ہر حکم کے جواب میں ہاں کہنا سکھایا جارہا ہے حالانکہ لوگوں‌ کو ان کی حدود میں‌ رکھنا اور ناں کہنا سیکھنا زندگی میں‌ زیادہ اہم ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ہر رشتے، دائرے اور تعلق میں لوگ آپ کا فائدہ اٹھائیں‌ گے۔ آج آپ اپنے بچوں‌ کو مارتے ہیں، کل وہ دنیا سے پٹیں گے۔

میرے ایک مریض انڈیا کے ہیں۔ وہ بوڑھے ہیں اور جب ان کے بچے بڑے ہوگئے اور ان کی بیگم کی وفات ہوگئی تو انہوں‌ نے حیدرآباد کی ایک نوجوان بیوہ سے شادی کرلی جن کی چار بیٹیاں تھیں، اس طرح‌ ان صاحب کو ایک رفیق مل گئی اور ان خاتون کو اپنی چاروں‌ بیٹیوں‌ کے ساتھ امریکہ آنے کا موقع ملا۔ وہ جب بھی اپنے شوہر کی نیک سلوکی کا زکر کرتیں تو دوپٹے سے آنسو صاف کرنے لگتیں۔ یہ لوگ اوکلاہوما کے ایک چھوٹے سے ٹاؤن میں‌ رہتے ہیں جہاں‌ زیادہ دیسی نہیں ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے شوہر کے ساتھ آتی ہیں اور ہمیشہ بہت بڑی مسکراہٹ کے ساتھ اس طرح‌ سلام کرتی ہیں جیسے ہم بچپن کے دوست ہوں۔ ان کے خلوص اور سادگی کو دیکھتے ہوئے میں‌ بھی ان کو آہستہ آہستہ دوست ہی محسوس کرنے لگی۔ ان کے ساتھ مجھے اس بات کی وجہ سے بھی ہمدردی تھی کہ میری اپنی امی بھی 24 سال کی بیوہ تھیں جن کے چار بچے تھے۔ لیکن میری امی نے اپنی زندگی سے سبق سیکھ لیا۔ انہوں‌ نے اپنے بھائیوں‌ کی مثال کو ہمارے سامنے رکھتے ہوئے خود کو تعلیم یافتہ بنانے اور اپنے پیروں‌ پر کھڑے ہونے کی تعلیم دی۔ آج سب اپنے پیروں‌ پر بھی کھڑے ہیں اور اپنے بچوں‌ کو بھی کالج بھیج سکتے ہیں۔ ہر معاشرے میں‌ انہی لوگوں‌ کی عزت ہوتی ہے جو اس کی ترقی میں‌ ہاتھ بٹائیں۔ اگر ملک کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی دھاگوں‌ کا حصہ بھی نہ بنیں‌ اور ویلفئر سسٹم پر بوجھ بنیں تو کون اچھی نظر سے دیکھے گا؟ بہت سارے ایک جیسے لوگ اگر ویلفئر سسٹم کا حصہ بنیں‌ تو پھر اسی لحاظ سے اسٹیریو ٹائپ بھی تخلیق ہو گا جس سے آنے والی نسلوں‌ کی زندگی، کیریر اور مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ان خاتون کی بچیاں‌ بھی ساتھ میں‌ آتیں اور وہ جیسے ہی سولہہ سترہ سال کی ہوتیں‌ تو یہ ان کی شادی کے پلان بنانے لگ جاتیں۔ مجھے بالکل اچھا نہیں‌ لگتا تھا لیکن ہر کسی کی اپنی مرضی ہے اور ویسے بھی میری جاب تو ان کے میاں‌ کا علاج کرنا تھی۔ پہلے ایک لڑکی انڈیا واپس لے جا کر بیاہی، پھر دوسری کسی عرب ملک میں۔ ایک سال بعد آئیں‌ تو پہلی کا ایک بچہ بھی ہوچکا تھا جس کی تصویریں دکھا کر بہت خوش لگ رہی تھیں۔  زندگی کے تجربے اور دنیا کے مشاہدے سے میں‌ بتا سکتی تھی کہ ان کی اگلی نسل بھی اسی دائرے کا سفر کرنے والی ہے جس کا انہوں‌ نے خود کیا تھا۔ زندگی مشکل ہے اور دنیا بہت پیچیدہ ہے۔ زندگی وقت کے ساتھ ساتھ آسان نہیں ہوتی جاتی بلکہ ہم اس کے ساتھ ڈیل کرنا بہتر سیکھ لیتے ہیں۔ قسمت نے ایک موقع بھی دیا تھا کہ وہ خود کو اور اپنی اولاد کو اس دائرے سے آزاد کردیتیں لیکن یہ فیصلہ ان کو خود آگے غلطیاں‌ کرکے سیکھنا تھا۔ انسان پڑھ کر یا سن کر نہیں بلکہ خود حادثات سے سیکھتے ہیں۔

جب بھی آتیں تو ایک گہرا سانس کھینچ کر کہتیں کہ مجھے بہت ڈر لگتا ہے یہاں‌ کے ماحول سے! ان سے ایک مرتبہ احتجاج بھی کیا کہ یہ آپ کیا کررہی ہیں؟ بچیوں‌ کو پڑھنے دیں۔ کیا خرابی ہے امریکہ کے ماحول میں‌؟ کھلا ماحول ہے، کوئی پریشان نہیں‌ کرتا، اسکول، کالج سب ہر جگہ ہیں۔ ہم لوگ خود کتنے سالوں‌ سے یہاں‌ رہ رہے ہیں۔ ایک مرتبہ میں لائبریری میں‌ اناٹومی کی وڈیوز دیکھتے دیکھتے آڈیو وڈیو کمرے میں‌ سو گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو لائبریری بند ہوگئی تھی اور سب لوگ جاچکے تھے۔ دروازہ بھی لاک تھا۔ ریسیپسن ڈیسک پر فون میں‌ زیرو ملا کر کیمپس سیکیورٹی کو بلایا۔ انہوں‌ نے دروازہ کھول دیا اور گاڑی تک بھی چھوڑ دیا۔ جو بھی لڑکیاں آگے پڑھنے میں‌ دلچسپی رکھتی ہیں اور امریکہ آنا چاہتی ہیں انہیں‌ ضرور آنا چاہئیے۔ یہاں‌ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سے کافی بہتر حالات ہیں۔ ان سولہ سال کی لڑکیوں‌ کو بیاہ کر کیا مقاصد حاصل ہوں گے؟ سترہ سال بعد ایک اور نئی سولہ سال کی فصل کھڑی ہوگی۔ یہ بچے ہی بچے پال رہے ہیں اور پورا معاشرہ بچوں‌ کی سوچ کے لیول پر چلایا جارہا ہے۔ بال سفید ضرور ہوں گے لیکن ذہنی بلوغت نہیں ہے۔

اگر یہ لڑکیاں کسی کو پسند کرلیں گی، اپنی مرضی سے شادی کرلیں گی تو کوئی آسمان نہیں‌ گرے گا اور کوئی زلزلہ بھی نہیں‌ آئے گا۔ اگر وہ انڈین اور پاکستانیوں سے باہر بھی شادی کرلیں  گی تو بھی زلزلہ نہیں آتا بلکہ جتنوں کو بھی میں‌ جانتی ہوں وہ کافی اچھے شوہر اور بیویاں ہیں۔ نسل در نسل ایک ہی غلطی دہرائی جارہی ہے۔

یہاں‌ ایک اور کہانی کا زکر کروں‌ گی۔ ماں باپ پاکستانی ڈاکٹرز تھے اور ان کی سترہ سال کی بچی کو ایک کالے لڑکے سے محبت ہوگئی۔ امریکی بچے ایک کھلی اور سیدھی زندگی جانتے ہیں، ان کو انڈیا کی طرح‌ دو زندگیاں‌ ساتھ میں‌ چلانا نہیں‌ آتا کہ ایک ماں‌ باپ کے سامنے اور ایک ان کے پیچھے۔ ماں باپ نے  یٹی کو گھر سے نکال دیا اور اس نے اس کالے سے شادی کرلی، دو بچے بھی ہوئے۔ اتنے کم عمر اور کم پڑھے لکھے دونوں ٹین ایجر خود کو اور اپنے بچوں‌ کو ظاہر ہے کہ بغیر کسی سپورٹ کے نہیں چلاسکتے تھے۔ اس لڑکی نے 21 سال کی عمر میں‌ ان حالات سے تنگ آکر خود کشی کرلی تھی۔ اس کے بعد اس کے ماں‌ باپ یہ دو نواسے پال رہے ہیں۔ کیا فائدہ ہوا بچی مرگئی۔ کچھ دن ٹین ایج محبت چلنی تھی پھر خود ہی بریک اپ کرلیتے یا کیا معلوم آگے چل کے شادی بھی کرلیتے تو وہ تو ویسے بھی کی تھی۔ یہ اتنی بڑی باتیں‌ نہیں‌ ہیں‌ کہ ان پر ہم نسل در نسل اپنی زندگیوں‌ کو قربان کرتے جائیں۔

انڈین کلچر میں‌ خواتین کی ناقدری ہے اور ان کم عمر لڑکیوں‌ کو ان کے سسرال والے بہت سخت پریشان کرتے ہیں۔ان لوگوں‌ کو ابھی یہ بات سیکھنے میں‌ کچھ وقت لگے گا کہ ایک شوہر، اس کی بیوی اور ان کے بچے ایک فیملی یونٹ ہیں جن پر ان بچوں‌ کی پرورش کی اہم ذمہ داری ہے اور باقی لوگ باہر کے رشتہ دار ہیں۔ وہ پہلا زمانہ تھا کہ لال جوڑے میں‌ گئی اور کفن میں‌ نکلی۔ شائد وہ اس لئیے تھا کہ ان خواتین کے سامنے کوئی راستہ نہیں‌ تھا اس لئیے وہ سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور تھیں۔ اور اب بھی کافی لوگوں‌ کے سامنے نہیں‌ ہے لیکن اس لڑکی کے پاس امریکی گرین کارڈ تھا۔ جب ان انڈین خاتون کی بیٹی نے روز فون پر رو رو کر اپنی ماں‌ کو اپنے حالات بتائے تو وہ جاکر اس کو واپس لے آئیں، اب طلاق کا پروسس چل رہا ہے۔ اتنی کم عمر ماں جس نے ہائی اسکول تک مکمل نہیں کیا، امریکہ میں‌ یا تو فاسٹ فوڈ میں‌ کام کرسکتی ہے یا کہیں صفائی کی۔ اب اس بچی کو صرف خود کو ہی نہیں‌ بلکہ اپنی بچی کو بھی پالنا ہے۔

کہیں‌ پڑھا تھا کہ عصمت چغتائی کے شوہر کا قد ان سے چھوٹا تھا اس لئیے وہ فلیٹ جوتے پہن کر چلتی تھیں تاکہ اپنے شوہر سے لمبی دکھائی نہ دیں۔ کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں‌ کا قد جان بوجھ کر اس لئیے چھوٹا رکھیں‌ کہ ان کے شوہروں‌ کو ان سے بہتر نظر آنے کا موقع ملے؟ ان کو اپنی زندگی میں‌ اپنا سو فیصد پوٹینشل دریافت کرنے کا پورا حق ہے۔ آسمان ان کا آدھا نہیں‌ ہے، نہ ہی سمندر۔ خود کو بہترین بنائیں‌ اور ہر روز پچھلے دن سے زیادہ خود کو بہتر بنائیں، جو لوگ ساتھ چلتے رہیں‌ گے وہ چلیں‌ گے ورنہ آگے نئے لوگ مل جائیں‌ گے جو آپ کے ساتھ قدم ملاسکیں۔ وقت کبھی ٹھہر کر انتظار نہیں کرتا اس لئیے ایک دوسرے کو پیچھے رکھنے سے پوری سوسائٹی پیچھے ہوتی ہے۔ اس دن جب میں‌ گھر پہنچی تو میری بیٹی جو بہت زیادہ ذہین اور پڑھاکو اور انتہائی کامیاب لڑکی ہے، وہ تیرہ سال کی تھی اور موٹی کتابوں‌ میں‌ سر دبا کر ہوم ورک کررہی تھی۔ اس پر بھی کبھی مضمون لکھوں‌ گی۔ میری بیٹی جو ایلامنٹری سے ہر مضمون میں‌ اے بناتی ہے، اسٹیٹ‌ لیول پر پیانو میں‌ ون پلس ہے، آرکیسٹرا میں‌ وائلن بجاتی ہے، گرل اسکاؤٹ ہے۔ اس کی اپنی گاڑی ہے۔ اس کو اسکیٹنگ کرنا، باکسنگ کرنا، بلاگ لکھنا، فوٹوگرافی کرنا اور اپنے لئیے ککنگ کرنا سب آتا ہے۔ 14 سال کی عمر میں‌ اس کو کومان میں‌ میتھ ٹیچر کی جاب بھی مل گئی تھی۔ پھر اس نے اور اس کی سہیلیوں نے کپ کیک بنائے اور شام کے مہاجرین کے لئیے فنڈز جمع کرنے کے لئیے گھر کے باہر کھڑے ہو کر فروخت کیے۔ یہ لڑکیاں‌ ابھی سے پیسہ بنانا جانتی ہیں۔ ابھی یہ لوگ آئے ایم ملالہ پڑھ رہی ہیں۔ وہ ملالہ کے ابو سے کافی متاثر ہوئیں اور میں‌ بھی ہوں۔ انہوں‌ نے صحیح کہا کہ صرف اتنا کیا کہ کہ ملالہ کے پر نہیں‌ کاٹے۔ بالکل ٹھیک بات ہے، ہمارے بچے پر لے کر پیدا ہوئے ہیں اور ہم سب ان پروں‌ کو کاٹنے میں‌ مصروف ہیں۔ میری خواہش ہے کہ وہ ہارورڈ چلی جائے۔ اس سے کہا کہ فلاں آنٹی اپنی بیٹی کی شادی کروا رہی ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر آپ نے میری شادی کروانے کی کوشش کی تو میں‌ گھر سے بھاگ جاؤں گی! تو میں‌ نے اس کو کہا تھا کہ بیٹا اگر آپ کی شادی کروانے کی کوشش کی گئی تو میں آپ کو خود بھگا دوں‌ گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).