گدھ جاتی نے ریاست کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں


جڑواں شہروں کی سڑکوں پر تادم تحریر حیوانیت کا رقص جاری ہے۔ سینکڑوں ہزاروں افراد ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھائے سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں۔فیض آباد آپریشن کی ناکامی کے بعد ملک کے ہر بڑے شہر کا کم و بیش یہی حال ہے۔ مذہب اور مقدس ہستیوں کے نام کا استعمال کر کے مذہبی گدھ جاتی کے افراد نے سوچ سے محروم لاکھوں کروڑوں انسان نما زومبیز کو ریاست کے خلاف استعمال کر کے کامیابی سے اپنے اور اپنے آقاوں کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست کا مذہبی جنونیوں کے ہاتوں یرغمال بن جانا صرف نواز شریف یا مسلم لیگ نون کی شکست ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔

مذہبی جنونیوں کو سیاست کی لڑائی میں استعمال کر کے پس پشت قوتوں نے ایک بار پھر ریاست کی جڑیں کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا بھر میں ڈنڈا بردار مذہبی جنونیوں کی تصاویر اور جلاؤ گھیراؤ کے زریعے پبلک پراپرٹی کو نذر آتش کرنے کے مناظر نشر ہو رہے ہیں اور وطن عزیز کو شام اور افغانستان جیسے ملکوں کے برابر لا کھڑا کر رہے ہیں۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ آور بلوائی ہمارے پرامن اور مہذب معاشرہ ہونے کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھولتے ہوئے اس حقیقت کی جانب واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ سانپ پالنے کی پرانی عادت اور خود اپنے گھر کو جلا کر اس پر ہاتھ سینکنے کا شوق ہم نے کسی بھی صورت ترک نہیں کرنا۔

دھرنے اور احتجاج میں شامل بلوائیوں سے لے کر ان کی خاموش تائید کرنے والے گھروں میں بیٹھے عام افراد کی اکثریت تک کو شاید یہ علم بھی نہیں کہ آئینی ترمیم کی جس شق کو بنیاد بنا کر ریاست پاکستان پر دھاوا بولا گیا اس شق کے منررجات کیا ہیں۔ محض وحشیوں کی مانند گلے پھاڑتے ہوئے “مار دو، جلا دو” کے نعرے مارتے بلوائی دین یا قوم کی کیا خدمت کر رہے ہیں عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ البتہ ممتاز قادری کو ہیرو ماننے والے اور مولوی خادم جیسے طالع آزما کے پیچھے چلنے والے یہ افراد ریاست کے کھوکھلے مذہبی اور دفاعی بیانیئے کا منہ بولتا ثبوت ضرور ہیں۔ مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے ریاستی مذہبی بیانیے کی مہربانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مذہبی جنونیت اور حیوانیت سے بھرپور لاکھوں افراد اس خود کش جیکٹ کی مانند ہیں جنہیں ریاست نے خود جانتے بوجھتے اپنی چھاتی سے باندھ رکھا ہے۔

کسی روز کوئی بھی نان سٹیٹ ایکٹر اٹھ کر اس خود کش جیکٹ کا بٹن دبا سکتا ہے اور پل بھر میں سب کچھ خاکستر کر سکتا ہے۔ ماضی میں تحریک طالبان ہاکستان کی صورت میں ہم اس کی ہلکی سی جھلک دیکھ چکے ہیں لیکن کیا کیجئیے ہماری اذیت کوشی اور خود لذتی کا کہ بار بار ایک ہی جگہ سے ڈسوا کر ہم تسکین حاصل کرنے کی لت سے بعض ہی نہیں آتے۔ وگرنہ ریاستی مذہبی اور دفاعی بیانئے کو کنٹرول کرنے والی قوتوں کے لئے کیا یہ معمولی اور آسان سا نقطہ سمجھنا مشکل ہے کہ مذہبی تعصب کی ترویج، کافر اور غدار کے نعروں کے برعکس معاشرے میں مکالمے کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تا کہ دلیل اور منطق کی قوت سب کو باآسانی سمجھ آ سکے۔ دنیا کا آسان ترین کام بندوق اٹھانا اور گولی چلانا ہوتا ہے اور دنیا کا مشکل ترین کام دلیل منطق اور تعمیر سے اپنے نظریات اور خیالات کو منوانا ہوتا ہے۔ دنیا میں آج تک سائنس، ٹیکنالوجی ادب اور فنون لطیفہ میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ تخلیقی نظریات رکھنے والے افراد کے مرہون منت ہے۔ کوپرنیکس، گلیلیو، آئن سٹائن، سٹیفن ہاکنگز، سٹیو جابز، سیگمینڈ فرائیڈ، ملٹن، گوئٹے، بائرن برٹررنڈ رسل میلان کنڈیرا یہ لوگ بندوق یا تشدد نہیں بلکہ تخلیق اور علم کی روشنی پر یقین رکھتے تھے اور نتیجتاً آج ساری دنیا ان کی ایجادات اور نظریات و خیالات سے مستفید ہو رہی ہے۔ ہٹلر نپولین مسولینی یا پھر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نے دنیا میں تاریکی بانٹنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔

عقیدے کا تعلق آپ کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ علم و تحقیق کی دنیا عقائد پر نہیں بلکہ دلائل اور منطق کی بنا پر چلتی ہے ۔لیکن نجانے کیوں مذہبی اور دفاعی بیانیے کے ٹھیکیدار دلائل اور منطق کے بجائے تشدد اور بندوق کے دم پر ریاست کے امور چلانے کے خواہاں ہیں۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جانب جہاں پولیس کے جوان بلوائیوں سے لڑتے ہوئے اپنی جانوں کی بازی لگا رہے یں وہیں کچھ عناصر حکومت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دونوں فریقین تشدد سے گریز کرتے ہوئے گفت و شنید سے مسئلے کا حل نکالیں۔ گویا ریاست کے مقابلے میں مذہبی جنونیوں اور بلوائیوں کو برابر کا فریق بنا دیا گیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر بے پناہ وسائل وصول کرنے والا ادارہ آرام سے اس صورت حال سے منہ پھیر کر حکومت کو مذہبی جنونیوں سے مذاکرات کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ ایسے وقت میں سب ریاستی اداروں کو آئین کے تحت منتخب حکومت کی رٹ بحال کروانے میں فرنٹ لائن ہر کھڑا ہونا چائیے تھا لیکن اس کے برعکس یہ طبقہ وزیر اعظم کو بلوائیوں سے مذاکرات کی دعوت دیتا نظر آتا ہے۔

شاید اس طاقت کی کشمکش کی کہانی ختم ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے اسی لیے اس کہانی کے تمام کردار ایک ایک کر کے بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ریاستیں بہت مشکل سے بنتی ہیں اور انتہائی دشواری سے اپنا تشخص برقرار رکھ پاتی ہیں۔ حکومتوں کو کمزور کرتے کرتے ہمیشہ سے وطن عزیز میں ریاست کو کمزور کیا گیا ہے۔ یہ لنگڑی لولی ریاست جو مذہبی جنونیت کا شکار بلوائیوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے مزید کسی سانحے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بلھے شاہ، مرزا صاحباں، ہیر رانجھے اور سسی پنوں کی سرزمین کو مذہبی بلوائیوں کے ہاتھوں یرغمال بنوا کر ستر ہزار سے زیادہ لاشوں کا بوجھ معاشرے کے کاندھوں پر ڈالنے والے ناخداوں کو کاش کوئی یہ سمجھا پائے کہ اب یہ معاشرہ لاشیں ڈھوتے ڈھوتے تھک چکا ہے اور مزید لاشیں اس کی کمر توڑ کر اس کو مفلوج کر دیں گی۔ اس دھرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ہنگاموں نے جہاں ریاست پاکستان کو کمزور کیا ہے وہیں اس کی بدولت آج دستانے پہن کر جمہوریت کو مذہبی گدھ جاتی کے افراد کے ذریعے شکار کرنے والے کھل کر سامنے آ گئے ہیں ۔ ریاست کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنانے والے اس گٹھ جوڑ نے ایک بار پھر وطن کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).