ہارنے والی پارٹیاں کیا کر سکتی ہیں؟


خان کو جیت مبارک مگر حقیقت یہ ہے کہ (جیسا کہ میں نے کل بھی کہا تھا) یہ ایسا الیکشن ہے کہ جس کی شروع ہونے سے پہلے ہی دھاندلی دھاندلی کا رولا تھا اور اتفاق یہ ہے کہ ہوا بھی سب کچھ اسی پلاٹ کے مطابق۔ یہ بات ملکی مفاد کے لئے انتہائی تشویشناک ہے۔ کیونکہ اگر باقی جماعتوں نے بھی اگلے پانچ سال (اللہ کرے پورے ہو جائیں) وہی کیا جو خان صاحب کرتے رہے ہیں (جو بیجا وہ کاٹنا پڑا) تو ہمارے لئے اور پاکستان کے لئے مشکل ہو جائے کی ان سیاسی پارٹیوں کا نہ کچھ پہلے بگڑا ہے نہ اب بگڑے گا۔ الیکشن کمیشن کی اعلی کارکردگی کو تو خیر جانے ہی دیجئے۔ رونا یہ ہے کہ ہر الیکشن کے بعد ہارنے والوں کا رونا پوری دنیا میں ہمارا ہاسا بنا دیتا ہے۔

اس بات پہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے مہربان تو خیر شرمندہ ہوں سو ہوں میں بحیثییت پاکستانی شرمندہ ہوں۔ اور سب سے بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کے ہم نے بحثیت قوم نہ کل سبق سیکھا نا آج۔ اور ہمارے پچھلے اور حالیہ الیکشن اور صوبوں کے تحفظات اس بات کے گواہ ہیں۔ خدا کرے خان صاحب کی حکومت اگلے پانچ سال پورے کرے اور اپنے بل بوتے پہ پورے کرے۔ اور وہ تمام وعدے جو وہ کرتے رہے ہیں وہ پورے ہوں۔

اللہ انہیں مستقل مزاجی اور اور فیصلوں کی خود مختاری میسر رکھے۔ مگر اس سے پہلے حکومت سازی تک کے گٹھ جوڑ کی پکچر ابھی باقی ہے(اللہ خان صاحب کے مینڈیٹ کو ویسے یرغمال بننے سے محفوظ رکھے جیسا حالیہ سینٹ الیکشن میں ہوا جو اخلاقی طور پر ایک انتہائی غیر جمہوری روایت ہے) اور سب سے بڑی بات کہ اس قسم کے الیکشن کے نتیجے میں ممکنہ نتائج کی ہولناکیوں سے ہمیں اور وطن عزیز کو محفوظ رکھے۔ کیونکہ ان پیادوں اور مہروں اور اس پوری بساط میں سے کسی کا کچھ نہیں جانا۔ جانا ہے(اللہ نہ کرے) تو ہمارا عوام کا اور پاکستان کا۔

پہلے بھی ہم نے بھگتا اور اب بھی ہمیں بھگتنا پڑے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان میں سے کسی نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا کیونکہ یہ سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد چھ پڑی پارٹیوں کے پاس دو ممکنہ آپشن ہو سکتے ہیں۔ اول یہ کہ کیا وہ بھٹو کے دوسرے الیکشن کے بعد کی طرح کا ڈیمو کریٹک الائنس بنائیں جس سے آگے کی صورتحال میں سوچنا بھی نہیں چاہتی۔ یا پھر پارلیمنٹ میں چھوٹے گروپس اور آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کراتحاد کر لیں (جو کہ انتہائی مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں) اس کے بعد خان صاحب کی برتری کا ہندسہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

یا پھر ایک تیسرا آپشن بھی ہے کہ حکومت خان صاحب کو بنانے دی جائے مگر کیا وہی یا اس سے بھی برا جائے جو خان صاحب نے کیا۔ یہ تینوں آپشن ایسے ہیں جن میں پانچ سال پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے اور نہ ہی ایک مضبوط مرکزی حکومت بنتی نظر ا رہی ہے(اللہ نہ کرے ایسا ہو) جو کہ سرا سر ہمارا نقصان ہے۔ ملک کا نقصان ہے۔

حالیہ ملکی حالات تو ایسے ہیں کہ ہم تو پچھلے پانچ سال جو کچھ اس ملک کی سڑکوں پر ہوتا رہا ہے وہی برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس سے زیادہ کسی اور سیاسی ایڈونچر کے کیا متحمل ہوں گے۔ مگر چھ سیاسی پارٹیوں کا بیک وقت انتخابی عمل پر سنجیدہ نوعیت کے تحفظات اور اس کے نتائج (خاص طور پر پنجاب میں ) کا بائیکاٹ انتہائی تشویش ناک ہے۔

اور اس سے ایک بات واضح ہے کہ حکومت (اللہ کرے بخیر عافیت بن جائے) خان صاحب کے لئے پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہونے والی۔ اور اپنے دور حکومت میں ان کو وہ تمام تبدیلی کے خواب جو انھوں نے ہمیں دکھائے ہیں ان کو حقیقت کا رنگ دینے کے ساتھ ساتھ سیاسی حریفوں سے بھی پنجہ آزمائی کرنی پڑے گی۔ اور کسی ایک سائڈ سے بھی اگر تھوڑی چوک ہوگئی تو نتیجہ توقع سے بھی برا نکلے گا۔ کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ توقعات اور وابستگی جتنی شدید ہوتی ہے اس میں تھوڑی سی بھی کوتاہی کا ردعمل اس سے بھی شدید ہوتا ہے۔

خان صاحب کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اگر وہ تیس سیٹوں کی اپوزیشن کے ساتھ اتنا کچھ کر سکتے ہیں تو پھر ساٹھ ستر سیٹوں والے کیا کریں گے۔ کیونکہ ملکی مفاد میں ہم نے تب بھی نہیں سوچا تو اب کیا سوچیں گے۔

مگر افسوس ہم نے نہیں سیکھا۔ نا ماضی سے نا حال سے۔ کوئی اپنے مفاد سے ہٹ کر ملک کا سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر مرکز میں مینڈیٹ کے احترام کی بات کی جاتی ہے تو کیا پنجاب میں ایسا ہونے دیا جائے گا؟ یہ دونوں سوال آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور بساط کیسے بچھتی ہے۔ دعا یہ ہے کہ جو بھی ہو ملکی مفاد میں بہتر ہو۔ اور عوام کو اگلے پانچ سال وہ نہ دیکھنا پڑے جو پچھلے پانچ سال اس ملک کی سڑکوں پر ہوتارہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).