پاکستان اور بھارت کے سابق انٹیلی جنس سربراہوں کے حیران کن انکشافات


سابق ڈائریکٹرجنرل(ڈی جی) انٹرسروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی دعویٰ کرتے ہیں کہ کارگل سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دماغ پر چھایا ہوا تھا اور یہ ایک احمقانہ آپریشن تھا۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے بارے میں نواز شریف بہت کم جانتے تھے وہ سب کچھ نہیں جانتے تھے لیکن انھوں نے اسے جاری رکھنے کا کہا تھا، لہذا انھیں سیاسی ذمہ داری لینی پڑے گی۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ملکر لکھی گئی اپنی نئی کتاب میں حیران کن انکشافات کیےہیں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے بھارت اور پاکستان سے متعلق تقریباًہر معاملے پر بات کی ہے۔ جنرل (ر) اسد درانی دعویٰ کرتے ہیں کہ کارگل آپریشن کے بعد مشرف دبائو میں تھے اورجانتے تھے کہ نواز شریف انھیں برطرف کردیں گے۔ لہذا انھوں نے ایک ہنگامی منصوبہ تیار کیا۔ جنرل (ر)درانی کے مطابق کارگل آپریشن بھارتی وزیراعظم واجپائی کے لاہور دورے کے بعد کیا گیا تھا۔ واجپائی کے اقدام سے بھارت کو فائدہ ہوا تھا کیونکہ ہر کوئی کارگل کیلئے پاکستان کو مودرِ الزام ٹھہرا رہا تھا جو ہر طرح سے ایک احمقانہ آپریشن تھا۔

بطور ٹو اسٹار ڈی جی ایم او انھوں نے بینظیر کے دوسرے دورِ حکومت میں ایسا کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لہذا انھوں نے کہا، ’وزیراعظم، ہم یہ کرسکتے ہیں،‘ جواب میں بینظیر نے کہا، ’’شاید تم یہ کرسکتے ہو لیکن سیاسی طورپر یہ پائیدار نہیں ہے۔ جنرل درانی کہتے ہیں،’’‘ جب وہ آرمی چیف بنے توانھوں نے کہا کہ نیوکلئیر تجربات کے بعد پاکستان آپریشن کیلئے بہتر پوزیشن میں ہے۔‘‘ جنرل درانی کے مطابق، اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اس آپریشن کے بارے میں بہت کم جانتے تھےتاہم انھوں نے مشرف کو آگے بڑھنے کا کہا۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ وہ انھیں شک کافائدہ دیں گے۔‘‘

باقی دنیا نے کس طرح مشرف کی غیرذمہ داری پر ردعمل ظاہر کیا۔ غالباً انھوں نے بھارت کے مضبوط ردِ عمل کا بھی غلط اندازہ لگایا۔ واجپائی جلد الیکشن کروا رہے تھے، لہذا اسے نظرانداز کرنے سے انھیں بھاری قیمت چکانی پڑتی۔ صرف چند لوگ منصوبے سے آگاہ تھے۔ جنرل درانی کہتے ہیں، ’’نواز شریف مکمل نہیں جانتے تھے، بہت کم جانتے تھے لیکن انھوں نے جاری رکھنے کا کہا تھا، لہذا انھیں سیاسی ذمہ داری لینی ہوگی۔ میں انھیں شک کا فائدہ دیتا ہوں کہ انھیں منصوبے کے بارے میں مکمل نہیں پتہ تھا۔ انھوں نے سوچا ہوگا کہ صرف تھوڑا سا علاقہ حاصل کیا جائے گا۔‘‘

جنرل(ر)اسد کا ماننا ہے کہ مشرف نے نیوکلئیرائزیشن تھیوری کا غلط اندازہ لگایا کہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد کشیدگی نہیں بڑھے گی۔ جنرل (ر) درانی کہتے ہیں،’’جوہری استثنیٰ پر اُن کی دلیل: کہ جوہری طاقت بننے کے بعد ہمیں کافی چیزوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ بے شک ان سے جو چیز غلط ہوئی وہ یہ تھی کہ اگر تم یہ چیزیں کرتے ہوتو ایٹمی جنگ نہیں ہوسکتی لیکن تم پر لاپروا اور بے وقوف ہونے کا الزام لگ سکتا ہے۔ کہ اس یقین کے ساتھ کہ ایٹمی جنگ نہ ہونےکاامکان 95 فیصد ہے اور آپ ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا کررہے ہو۔ لیکن 5 فیصد کا کیا ہو گا؟‘‘

جنرل(ر) درانی دعویٰ کرتے ہیں کہ ناکام آپریشن کے بعد جنرل مشرف پر کافی دبائو تھا اور ایک دن انھوں نے مجھے مشورے کیلئے بلایا۔ ’’اگست میں ہم نے ملاقات کی۔ مشرف نے مجھے اپنے آفس بلایا اور کہا کارگل کی ناکامی پر حکومت فوج کو مودرِ الزام ٹھہرانے پر تلی ہوئی ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے تو کیا کریں؟ انھوں نے کہا کہ وہ صرف میری رائے چاہتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ میں نے کہا، اگر میں نواز شریف کو جانتا تو وہ آپ کے ساتھ اچھا محسوس نہیں کرے گا بالکل ویسے ہی جس طرح وہ بیگ، آصف نواز،اور حتیٰ کہ جہانگیرکرامت کے ساتھ تھے جو بالکل فرینڈلی آرمی چیف، پیشہ ورانہ مضبوط اور جو اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ 1998 میں بھارتی جوہری تجربات کے بعد کرامت نے صرف اتنا کہا تھا، وزیراعظم صاحب، فوج کا یہ خیال ہے کہ آپ کو سیاسی اور معاشی نقصان کو مدِ نظر رکھنا ہو گا۔ لیکن اُن کے ساتھ بھی اچھا نہیں ہوا۔ ان کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل انھوں نے تلخ ہونے کی بجائے استعفیٰ دے دیا۔ لہذا میں نے مشرف کو بتایا آپ کے ساتھ بھی نہیں چل سکے گا۔ وہ آپ سے نجات حاصل کرنے کیلئے موقع تلاش کریں گے۔ لیکن بغاوت کیلئے یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سیاسی طور پر غیر مستحکم ممالک بھی ایک جمہوری چہرہ رکھتے ہیں۔‘‘ لہذا آگے بڑھو اور اگلے قدم کے بارے میں سوچو۔ یہاں میں اٹھ گیا۔

یہ واضح تھا کہ مشرف بغاوت نہیں کرسکتا تھا۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کےمطابق کارگل آپریشن کے بعد مشرف جانتے تھے کہ انھیں برطرف کیا جا سکتا ہے لہذا انھوں نے پہلے ہی ایک ہنگامی منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ ’’ستمبر میں نواز شریف اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر مشرف طاقت ور عہدے پر قائم رہتے ہیں تو یہ اچھا نہیں ہوگا۔ انھیں باہر رکھنے کا ایک اور راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ انھیں چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے عہدے پر ترقی دے دی جائے۔ اس عہدے کے ماتحت صرف ایک پی اے ہوتا ہے۔ مشرف کو پیغام دینے کے لئے ایک شخص کو بھیجا گیا لیکن انھوں نے رد کر دیا۔ تب نواز شریف انھیں آرمی چیف قائم رکھنا چاہتے تھے اور انھیں چیئرمیں کے عہدے پر بھی ترقی دے دی گئی۔ مشرف نے کہا کہ میں کر سکتا ہوں۔ مشرف پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ پہلا موقع ملتے ہی انھیں برطرف کر دیا جائے گا لہذا نھوں نے ایک منصوبہ بنا لیا تھا۔‘‘

امریکی نیوی کمانڈوز کی جانب سے اسامہ بن لادن کو مارنے کیلئے کیے گئےایبٹ آباد آپریشن پر بات کرتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل(ر) احمد شجاع پاشا پر روز دیا کہ اگر آپریشن سے متعقل کوئی ڈیل ہوئی تھی تو اسے منظرعام پر لے آئیں۔ میرا نہیں خیال کہ ان کیلئے یا پاشا کیلئے جو اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے خاموش رہنے کی کوئی وجہ ہوسکتی ہے۔ راز کو سامنے لائیں کیونکہ ہر جگہ ہمیں برا کہا جا رہا ہے۔ ہم پر نالائق ہونےاور ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگایا جا رہا ہےاور ہمیں بدلے میں کیا مل رہا ہے؟ میں یہ جاننا چاہتا ہوں۔‘‘

لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کا کہنا ہے کہ جس نے امریکیوں کو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات فراہم کیں وہ ایک ریٹائرڈ پاکستانی آفیسر تھا۔ انٹلیجنس میں ایک ریٹائر پاکستانی آفیسر تھا اور اس نے امریکیوں کو بتایا۔ میں اس کا نام نہیں لوں گا کیونکہ میں یہ ثابت نہیں کر سکتا اور میں اسے کوئی شہرت نہیں دلانا چاہتا۔ کون جانتا ہے کہ اسے 5 کروڑ ڈالر میں سے کتنا حصہ ملا۔ لیکن وہ پاکستان سے لاپتہ ہے۔

افغانستان میں بھارتی قونصلیٹ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں جنرل (ر) درانی نے کہاکہ اگربھارتی قونصل خانے استعمال کیے گئے تو ہم خوش ہوں گے۔ وہاں چارقونصل خانے اور ایک سفارتخانہ ہے لیکن ہمیں ان کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان میں کچھ لوگ جن کے پاس درست معلومات نہیں ہیں وہ بعض اوقات 9، 18 یا 23 کے بارے بتاتے ہیں۔ اگر بھارتیوں نےچار قونصل خانوں سےجاسوسی کی تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہم اس کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ بہرحال وہاں سے جاسوسی نہیں کی جاتی۔ چند تعمیراتی کمپنیاں یادیو جیسے چند افراد کو بھرتی کرسکتی ہیں۔ اس کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ غیرضروری طور پر ہم نے بھارتی اثررسوخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی یادیو کے کیس میں ایرانی پہلو سے ہوتی ہے۔ اس کے باعث پاکستان یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہے کہ جب ملا اخترمنصور ایران میں کسی سے ملاقات کرکے واپس آ رہا تھا تو ایرانی انٹلیجنس سے اس کی گاڑی میں ایک چپ لگا دی تھی جس سے امریکیوں کو اسے ٹریک کرنے میں مدد ملی۔

حتٰی کہ اگر یہ سچ بھی ہے تو میں اس کے بارے میں بات نہیں کروں گا۔ اس کے باعث پاکستان اور ایران کے درمیان مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ لیکن بلوچستان سے متعلق جاسوسی ہوتی ہے، لوگ ملوث ہیں۔ دوئم، میں نے ہمیشہ محسوس کیاہے کہ ہم بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ امریکی ملوث ہیں۔ کئی دیگر لوگوں کے پاس ملوث ہونے کی اور بہت سے وجوہات ہیں۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).