آیا ہے اب مزاج ترا امتحان پر!


جناب وزیراعظم نے اپنے وزیران باتدبیر سے سو یوم کے بعد ہی امتحان لینا شروع کر دیا ہے۔ اول تو امتحان دینے والے خواتین و حضرات کئی سال کے بعد آج دوبارہ اس تلخ اور منحوس تجربے سے گزر رہے ہیں جسے امتحان کہتے ہیں اور دوم یہ کہ تیاری کے لیے نصاب لامحدود، استاد زمانہ اور خودسر ووٹرز، امتحانی بورڈ مختلف، پیپر سیٹرز سخت گیر و بے رحم، نگران عملہ مستعد اور عقابی نظروں والا، پرچہ تقریباً آؤٹ آف کورس، وقت محض سو دن اور ممتحن عمران خان جیسا ہٹ دھرم، سخت گیر اور بے لچک آدمی۔ اوپر سے امتحانی مرکز پہلے سے مشکوک۔ امدادِ غیبی اور بوٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان نامساعد اور بے یقینی حالات میں امتحان کے لیے آنے والوں کی مسکین شکلوں پر یہ شعر لکھا صاف دکھائی دے رہا ہے کہ
ہاں مجھے خود ہے اعترافِ شکست
اب مرا امتحان رہنے دے
مرزا فرحت اللہ بیگ نے “امتحان” کے عنوان سے جو بے مثال مضمون لکھا ہے اس میں انہوں نے امتحان کی دونوں صورتوں فیل یا پاس کا ذکر کر کے امتحان دینے والوں کی زبردست ڈھارس بندھائی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امتحان چھوٹا ہو یا بڑا، روایتی ہو یا غیر روایتی، استاد لے یا زمانہ، محبوب مجازی کی طرف سے ہو یا محبوب حقیقی کی طرف سے، زندگی کا ہو یا بندگی کا;انسان کو خوفزدہ اور نفسیاتی اضطراب میں ضرور مبتلا کرتا ہے۔ امجد اسلام امجد امتحان میں بیٹھنے والوں کی اضطراری کیفیت کا نقشہ اپنی مشہور زمانہ نظم “ایک کمرہء امتحان میں” یوں کھینچتے ہیں
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں
سوچتے نہیں اتنا، جتنا سر کھجاتے ہیں
ہر طرف کنکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے
بے نشاں جوابوں کا کچھ پتہ ہی مل جائے
جناب وزیراعظم کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ سیاسی طالب علموں کی امتحان گاہ وزیراعظم کا آراستہ و پیراستہ محل نہیں بلکہ ان کی کارکردگی جانچنے کا اصل پیمانہ بے لاگ عوامی رائے کا گوشوارہ ہے اور یہ رائے عوام انتخابات میں ووٹ کی صورت میں دیتے ہیں۔ مگر سب جانتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم دھن کے پکے اور کان کے کچے ہیں اس لیے پہلے مرحلے میں 26 اور دوسرے میں 10 امیدواوں (وزرا) کو بلا کرامتحان لے چکے ہیں اور یہ سلسلہ زلف محبوب کی طرح اس وقت تک درازہوتا جائے گا جب تک ان کا اپنا پاؤں اس زلف میں پھنس نہیں جاتا۔ اس کی ایک جھلک یوں نظر آئی کہ جناب وزیراعظم نے تو خبر نہیں کتنے سوالوں پر مشتمل سوالنامہ تیار کر رکھا تھا مگر پہلے ہی امیدوار نے جو سنا ہے سیاسی موسمی پرندہ تھا جو ہر انتخابات سے قبل شجر سایہ دار میں اپنا مسکن بنانے کا عادی ہے، باقی وزرا کی مشکل کچھ آسان کردی۔ ہوا یہ کہ وزیر اعظم نے روایتی تناؤ، دباؤ، غصے اور دشنام کو بروئے کار لا کر جب اس سے پہلا ہی چبھتا ہوا سوال پوچھا تو اس نے سوال کا جواب دینے کے بجائے جرات رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پلٹ کر جناب وزیراعظم پر ہی سوال داغ دیا کہ جناب پہلے اپنی کارکردگی بتائیے؟ یہ خلاف توقع ، بے محل اور نامعقول جواب سن کر پہلے تو وزیراعظم سٹپٹائے۔ پھر ڈگمگائے اور آخر میں بڑبڑاتے ہوئے زیر لب یوں گویا ہوئے
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
عینی شاہد بتاتے ہیں کہ یہ نازک صورت حال دیکھ کر وزیراعظم نے اپنی سیاسی تاریخ کا ایک ہزارواں یو ٹرن لے کر وزرا سے محض تین آسان ترین سوال پوچھنے پر اکتفا کیا اور اس طرح تمام امیدواروں کو بطریق احسن اور فراخ دلی سے پاس کر ڈالا۔ اکثر وزرا نے سوال چنا جواب گندم کے مصداق بالکل ایسے جوابات دیے جو آج کل حکومتی نمائندے مختلف ٹی وی چینلز پر اینکر پرسنز کو دیتے پائے جاتے ہیں اس کے باوجود جناب وزیراعظم کی طرف سے کامیاب گردانے جانے پر ابھی تک صدمے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ سب سے عجیب و غریب حالت ن لیگ کے سات کڑیل اور لحیم و جسیم سیاست دانوں کو یکبارگی “این آر او”دینے والے مراد سعید کی بتائی جاتی ہے۔ موصوف عرق ریزی سے ان وجوہات کو تلاش کر رہے ہیں جو وزیراعظم کی طرف سے ان کو ملنے والی شاباش پر منتج ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے ہم مراد سعید اور تمام پاس ہونے والے وزرا کی تشفی کے لیے ایک لطیفہ نما حقیقت گوش گزار کر رہے ہیں تاکہ ہمارے نظام امتحانات کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی کی اصلیت بھی ان پر کھل سکے۔ ایسے ہی کسی انٹرویو پینل میں کچھ لوگ بیٹھے تھے جنہوں نے کل تین امیدواروں میں سے اپنے منظور نظر دو کو پاس اور ایک کو فیل کرنا تھا۔ انہوں نے تینوں امیدواروں کے لیے بالترتیب ایک ایک سوال منتخب کیا۔ پہلے دو کو رکھنا تھااور تیسرے کو فارغ کرنا تھا۔ اب دیکھیے کہ سوالوں کی نوعیت کیا ہے۔ پہلے سے سوال: ٹائیٹینک جہاز کس ملک کا تھا؟ امیدوار فوراً درست جواب دے کر کامیاب قرار پایا۔ اب دوسرے کی باری تھی۔ اس سے پوچھا کہ ٹائیٹینک جہاز کب ڈوبا اور کتنے مسافر لقمہء اجل بنے؟اس نےبھی پلک جھپکنے میں دونوں ںسوالوں کے جواب دے دیے۔ اب بیچارے حرماں نصیب تیسرے کا نمبر تھاجس کو صاف جواب دینا مقصود تھا۔ لہٰذا اس سے ایک ایسا ناقابل یقین بلکہ لاجواب سوال پوچھا جیسے سوالات آج کل نیب اور پچھلے سال جے آئی ٹی والے نواز شریف سے پوچھ رہے تھے۔ سوال یہ تھا کہ تم ٹائیٹینک جہاز کے سانحے میں ڈوبنے والے تمام مسافروں کے نام مع پتا سناؤ؟ جناب وزیراعظم نے تمام وزرا سے پہلی دو قسموں کے سوال پوچھ کر انہیں تین ماہ کے سیاسی امتحان میں کامیاب قرار دیا لیکن عملی طور پر ان وزرا کی کارکردگی نئے پاکستان کے مظلوم عوام “بھگت” رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اگر ان وزرا کا سچ مچ امتحان لینا ہے تو انہیں ایک ایک دن سرکاری لاؤ و شکر اور تام جھام کے بغیر ان کے حلقوں میں بھیج دیں اگر وہ سلامت گریبانوں کے ساتھ واپس ان کے پاس پہنچ گئے تو ہم نئے پاکستان کے تمام ٹھیکداروں، معماروں اور مزدورں کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازیں گے۔ دوسری صورت میں باشعور عوام اس ساری لاحاصل اور لایعنی مشق کو مضحکہ خیز اور کار فضول ہی گردانیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).