کشمیر کی نئی تحریکِ آزادی


\"inam-rana-3\"

میں کوئی دس برس کا تھا جب ابا مرحوم کی پوسٹنگ سیالکوٹ ہوئی۔ سیالکوٹ، لاہور اور لندن کے بعد میرا پسندیدہ شہر، پرسکون، تعلیم یافتہ اور پاکستان کے ان چند شہروں میں سے ایک جو ’سوک سینس‘)civic sense) رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیالکوٹ، میری پہلی محبت (اس سے پہلے والیاں فقط دیوانہ پن تھیں شاید)، نوجوانی کی طرف پہلے قدم اور پہلی نظم لکھنے کا شہر۔ اسی سیالکوٹ میں جب موسم یوں ابر آلود ہوتا کہ جموں میں دھوپ ہوتی تو دور پہاڑیاں نظر آتی تھیں، جموں کی، مقبوضہ جموں کشمیر کی۔ انہی دنوں کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے سے بھی آگاہی ہوئی اور کشمیریوں کی جدوجہد سے بھی کہ کئی گھرانے جموں کے مہاجر تھے۔ پھر ایک ڈرامہ چلا جس میں فریال گوہر کشمیری دوشیزہ تھی اور میں کشمیر اور فریال دونوں کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ مطالعے کا شوق بھی چڑھا تو پہلے ہاتھ ہی اے حمید مرحوم کی کوئی کتاب ہاتھ آئی، جس میں کشمیر تھا۔ ایک خوبصورت بیوہ کی زخمی روح جیسا کشمیر۔

قاری امتیاز آرمی پبلک سکول میں میرے اسلامیات کے استاد تھے۔ میری تلاوت بہت اچھی تھی اور قاری صاحب کا میں پسندیدہ تھا۔ سیالکوٹ سے ٹرانسفر ہونے کے بعد بھی ایک عرصہ ان سے تعلق رہا بلکہ آج بھی ہے۔ سیالکوٹ سے ٹرانسفر دور افتادہ لیاقت پور میں ہوئی تو مطالعے کا شوق اور بڑھ گیا کہ شہر سر شام ہی صدیوں قدیم ہو جاتا تھا۔ انہی دنوں میں ہتھے چڑھا طارق اسماعیل ساگر کے اور جو ساگر کو پڑھ کر بھی ہندوستان فتح کرنے پہ آمادہ نہ ہو، اس شخص سے ہمیشہ بچ کر رہیے۔ البتہ اس جذبہ جہاد میں نہ جانے جہاد زیادہ ہوتا ہے یا اس لڑکی کی آس جو ہر ناول میں کسی مجاہد یا جاسوس پہ فریفتہ ہو جاتی تھی۔ تو انہی دنوں ہم نے بھی سوچا کہ کشمیر پکار رہا ہے۔ قاری امتیاز صاحب کو ایک لمبا درد بھرا خط لکھا کہ کیسے میں تڑپ رہا ہوں اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کو اور جہاد پہ جانا چاہتا ہوں۔ ازراہ کرم میری مدد کیجیے۔ اب استاذی نے جوابی خط ڈالا جو ظاہر ہے میرے والد نے ہی کھولا۔ حیرت انگیز سکون کے ساتھ انھوں نے مجھے بلا کر خط دیا۔ قاری صاحب نے لکھا تھا ’مجھے خوشی ہے کہ میرا شاگرد اسلامی حمیت سے سرشار ہے۔ مگر آپ بڑے بیٹے ہیں، اپنے والدین کی خدمت کیجیے اور تعلیم پہ توجہ دیں، یہ بھی جہاد ہے‘۔ آج بھی کبھی یاد آئے تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ میرے استاد نے مجھے ایکسپلائیٹ نہیں کیا بلکہ سیدھی راہ دکھائی۔ بعد ازاں جب بہت سے جہادیوں سے پالا پڑا اور وہ مجھے اکساتے رہے، کہ کسی کو منا کر ساتھ کیمپ لے جانا ایک طرہ امتیاز سمجھا جاتا تھا، مگر میں اپنے استاد کی تعلیم پہ قائم رہا۔

بائیس سال کا برہان وانی اپنی ماں دھرتی پہ جان وار گیا۔ مگر برہان کا شوق آزادی و حریت کسی ٹی وی ڈرامے، کسی ساگر کے ناول یا پاکستانی جہادی جماعت کے اکسانے کے باعث نہ تھا۔ وہ غربت کے ہاتھوں کسی لالچ میں بھی اس راہ پر نہ چلا تھا۔ ایک متمول اور پڑھے لکھے کشمیری گھرانے کا برہان اس تحریک کا حصہ تھا جو کشمیریوں کی اپنی تھی۔ ہندوستانی میڈیا اور تجزیہ نگار خود مانتے ہیں کہ مشرف کے یو ٹرن اور پاکستانی مداخلت کی کمزوری کے باوجود، آزادی کی لہر کمزور نہیں پڑی۔ دو ہزار آٹھ، دس اور اب سولہ کی یہ بغاوتیں کسی کراس باڈر دہشت گردی کا شاخسانہ نہیں ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جو پاکستان سے ٹریننگ لے کر واپس نہیں گئی۔ یہ تو خود سے تیار ہوئی وہ نسل ہے جو شعوری طور پر غلامی کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ دو ہزار دس میں جب پندرہ سالہ وانی کو پولیس والوں نے پیٹا تو نہیں جانتے تھے کہ وہ نفرت کا بیج بو رہے ہیں اور جلد فصل بھی کاٹنا ہو گی۔ افسوس، بارڈر کا اس طرف ہو یا اس طرف، یہ سبق کسی کو بھی یاد نہیں رہتا۔

برہان وانی نے برسوں بعد آزادی کی جدوجہد کو ایک مہمیز دی۔ اپنی زندگی سے بھی اور موت سے بھی۔ اور شاید یہ آگ جو بھڑکی ہے، اب کہ خون سے بجھائی نہ جا سکے۔ نوجوان نسل جو وادی میں بیٹھی دہلی، مظفرآباد، لندن اور نیویارک سب سے یکساں منسلک ہے، شعور رکھتی ہے۔ وہ ہر دوسرے گھر میں موجود ماضی کی داستانوں سے بھی واقف ہیں اور موجودہ حالات سے بھی۔ ان کی سوچ پاکستانی پروپیگنڈے کے زیر اثر نہیں بلکہ اسی شعور کے تحت مسابقت مانگتی ہے۔ پاکستان تو ایک استعارہ ہے ان کے لیے آزادی کا، رہائی کا اور خوشی کا۔ حیرت کہ پاکستان کے دبک جانے کے باوجود وہ اس استعارے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ ہزاروں کا مجمع ہر شہید کو پاکستانی پرچم میں لپیٹے آزادی اور پاکستان زندہ باد للکارتا ہے۔ بھارت کو سوچنا ہو گا، بھارت کی نئی نسل کو سوچنا ہو گا، کہ تین نسلوں سے ہر ہتھکنڈے کے باوجود اگر نئی کشمیری نسل آزادی سے کم پر تیار نہیں تو ماضی کی پالیسیاں ناکام ہو چکیں۔ سنجیدہ مکالمہ وقت کی ضرورت ہے کہ وادی پھر سے خوں رنگ نہ ہو۔

موجودہ لہر ماضی سے یوں مختلف ہے کہ یہ مکمل طور پر مقامی ہے۔ بھارتی میڈیا تمام تر تعصب کے باوجود یہ ماننے پہ مجبور ہے کہ یہ لہر مقامی ہے اور پاکستان کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔ اور شاید اسی لیے تجزیہ نگاروں کے لہجوں میں سنجیدگی ہے۔ اس سے قبل پاکستانی مداخلت نے کشمیریوں کو مصیبت میں ہی ڈالا اور مقامی آبادی نے کئی بار خود مخبریاں کر کے پاکستانی مجاہدین کو پکڑوایا۔ ہمارے مجاہد (سب نہیں مگر اکثر) کشمیر میں جہاد کشمیریوں پر احسان کے طور پر کرتے رہے۔ جہاد فروش، لوگوں کے بچے وہاں بھیج کر مرواتے رہے اور خوشحال ہوتے رہے۔ کشمیری ان مجاہدین کے خلاف کاروائی کے نام پر بدحال ہوتے رہے، اور رہی سہی کسر مشرف نے فاتح کشمیر سے مفتوح رانی مکر جی بنتے بنتے نکال دی۔ پاکستان یا پاکستانی حکومتیں کشمیر کو بھول گئیں، مگر کشمیری پاکستان کو نہیں بھولے۔

موجودہ حالات میں اشد ضروری ہے کہ پاکستان کوئی بیوقوفی نہ کرے۔ زبانی، اخلاقی اور سفارتی بین الاقوامی حمایت ہی اس وقت پاکستان کی طرف سے بہترین حمایت ہے۔ دہشت گردی کی نئی تعریف کے نام پہ دنیا نے کشمیر کو بھلانا چاہا تھا مگر کشمیری خود کو یاد کروا رہے ہیں۔ ایسے وقت میں اگر کسی کا جذبہ جہاد و فتح ( یا جذبہ مال و متاع) جاگا تو یہ کشمیریوں اور نئی تحریک آزادی کے ساتھ دشمنی ہو گی۔ دنیا کو دیکھنے دیجیے کہ یہ جنگ کشمیریوں کی اپنی ہے، ہماری بھڑکائی ہوئی نہیں؛ یہ جدوجہد آزادی ہے، دہشت گردی نہیں۔ سفارتی اور اخلاقی کوششوں سے اگر یہ مسئلہ ابھارا جائے تو یہ بہترین فائدہ ہو گا جو ہم اپنے کشمیری بھائیوں کو پہنچا سکیں۔ کشمیر آزاد ضرور ہو گا، انشاللہ۔

انعام رانا

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments