پاگل، ایک دم میڈ! عرف ایٹمی جنگ کا پاگل پن


\"husnain

بارڈروں پر سخت خطرہ ہے، جہاز مسلسل دشمن ملک پر حملہ کرنے کے لیے بارڈر پر منڈلا رہے ہیں، یہ حملہ کوئی معمولی حملہ نہیں ہو گا، اس حملے کا مطلب مکمل تباہی ہے۔ ایٹمی حملہ جو دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دے گا اور بے رحمی کی ایک انتہا ہو گی۔ جنونیوں کے نزدیک چوں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے اس لیے یہ بھی چلے گا۔ دونوں طرف کی فوجیں ہر وقت ہائی الرٹ پر ہیں۔ ان جہازوں کے علاوہ جو جہاز زمین پر کھڑے ہیں یا جتنا بھی ایٹمی ساز و سامان تیار موجود ہے اس میں سے زیادہ تر صرف پندرہ منٹ کے نوٹس کا منتظر ہے۔ یعنی جتنی دیر میں وہ جہاز تباہی مچائیں گے جو فضا میں پہلے سے موجود ہیں، اتنی دیر میں زمین سے تازہ کمک پہنچ جائے گی اور تباہی کا سلسلہ ایسا دراز ہو گا جو شاید دونوں ملک چاہیں بھی تب بھی رک نہیں سکے گا۔ سمندر میں آبدوزیں مختلف مقامات پر بے تاب کھڑی ہیں۔ آبدوزیں اس لیے بھی ضروری ہیں کہ جتنا بھی شدید حملہ ہو جائے، تمام آبدوزیں بہرحال ایک ہی وقت میں اڑائی نہیں جا سکتیں۔ ہر آبدوز پر اتنا ایٹمی مواد موجود ہے کہ دشمن کو بھرپور سے بھی کچھ بڑھ کر جواب دیا جا سکے۔ لیکن یہ بھرپور جنگ صرف ایک امر پر منحصر ہے۔ پہلا حملہ کون کرے گا۔

فلموں میں ایسے مناظر بہت دل چسپ لگتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں دیکھا جائے تو پہلے حملے کا مطلب مکمل موت کو دعوت دینا ہے۔ اس لیے پہلا حملہ بہرحال نہیں ہوا۔ بے تحاشا بے وقوفیوں کے باوجود پہلا ایٹمی حملہ دونوں جانب سے نہیں کیا گیا۔ تیس برس وہ جہاز ہواؤں میں اڑتے رہے، مسلسل اڑتے رہے کھربوں سے بھی زیادہ رقم دونوں جانب سے خرچ کی گئی، صرف اس لیے کہ فریقین کو حملے کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت حاصل رہے۔ اور 1960 کے اوائل میں شروع ہونے والا یہ پاگل پن 1990 میں تب ختم ہوا جب اتنی صلاحیت حاصل کر لی گئی کہ رن وے پر کھڑے جہاز دو تین منٹ کے الرٹ پر اڑائے جائے سکیں۔ پھر جنگ بھی اس کے ایک برس بعد ختم ہو گئی۔

\"atomic-mushroom\"

یہ تیس برس پر محیط منظر سرد جنگ کا تھا۔ 1945 میں جرمنی اور جاپان کی شکست کے بعد دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی اور تیسری عالمی جنگ کا ایک مسلسل خطرہ پوری دنیا کے لیے کھڑا ہو گیا۔ یہ لڑائی امریکہ اور روس کے درمیان ہونا تھی جس کی لپیٹ میں آہستہ آہستہ پوری دنیا کے آ جانے کا خطرہ تھا۔ چار برس بعد روس نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور اس کے دو تین ماہ بعد امریکی صدر نے ہائیڈروجن بم بنانے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔ یہ ایٹم بم سے آگے کا مرحلہ تھا۔ ایٹم بم کو مزید بھیانک بنانے کا آغاز تھا۔ اور پھر اس دوڑ میں چین، برطانیہ، فرانس، ہندوستان، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا بھی حسب توفیق شامل ہو گئے۔

یہ سب کچھ شروع اس لیے کیا گیا کہ دونوں ممالک سرد جنگ کے دوران سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یعنی، دشمن کی پہل کے بعد دوسرے کے پاس اس قدر صلاحیت ہو کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا سکے۔ یہاں سے اس نظرئیے کا آغاز ہوا جسے MAD کہا جاتا ہے، اردو میں دیکھئیے گا تو ایک دم پاگل پن، میڈ – میوچل اشورڈ ڈسٹرکشن۔ ایسی جنگی حکمت عملی جس میں دونوں فریق اپنے پاس موجود ایٹمی صلاحیت کا مکمل استعمال کریں اور حملے کا حاصل دونوں کی پوری پوری بربادی ہو۔ یہاں سے ایک اور مفروضہ سامنے آیا۔ وہ یہ تھا کہ جب دونوں ملکوں کے پاس برابر اسلحہ اور ایٹمی صلاحیت ہو گی تو وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے ہچکچائیں گے، حملہ نہیں کریں گے اور یہ صلاحیت خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھے گی۔ پھر اس مفروضے کے قائم ہونے کے بعد دنیا میں پاگل پن کی حد تک اسلحے اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ جب کوئی پوچھے گا تو وہی واقعہ ہو گا جو سردیوں کے شروع میں آج بھی ہر بچوں والے گھر میں ہوتا ہو گا۔ دو بھائی قلفی لے کر آتے ہیں، کھانا شروع کرتے ہیں تو امی دیکھ لیتی ہیں۔ وہ بڑے سے کہتی ہیں تم پھینکو قلفی، کھانسی ہو جائے گی، موسم بدل رہا ہے، بڑا کہے گا پہلے چھوٹے سے کہیں وہ پھینکے، اس طرح مذاکرات کے دوران دونوں اپنی اپنی قلفی ہضم کر کے آئندہ کے لیے احتیاط کا وعدہ کر لیں گے۔

\"heroshima-atomic-attack\"

یہ رونے پرانے ہو چکے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں اپنی ایٹمی صلاحیتیوں پر اتنی رقم خرچ کر چکے ہیں جس سے کئی غریب کئی سال تک روٹی کھا سکتے تھے، ہزاروں یونیورسٹیاں بن سکتی تھیں یا بہت سے جدید ترین ہسپتال بنائے جا سکتے تھے، نیا رونا یہ ہے کہ ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے شوقین دونوں ممالک میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ ایک دوسرے کو سبق سکھانے اور راکھ بنا دینے کا خواب دیکھنے والے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں، اور یہ ایک المیہ ہے۔

بارڈروں پر ٹینشن یا کشمیر کے مسئلے پر بیانات دونوں ممالک کے ایسے مسائل ہیں جو بعض اوقات جان بوجھ کر چھیڑے جاتے ہیں اور کبھی کبھی جانے پہچانے نامعلوم ہاتھ دونوں کو آپس میں لڑوا دیتے ہیں۔ یہ بڑے لوگوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب چھوٹے لوگ بھی اسی جنون کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں۔ سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیت بھی دونوں کے پاس موجود ہے۔ پاکستان کے پاس بھلے ہی ایٹمی ہتھیاروں کی عددی برتری ہو لیکن ایک دوسرے کا سرمہ بنانے کے لیے صرف چار پانچ ایٹمی حملے ہی کافی ہیں، کجا یہ کہ بھارت اپنے سو سے اوپر وار ہیڈز استعمال کرے اور پاکستان بھی ایک ایک کر کے داغتا رہے۔ اس کی نوبت ہی نہیں آنی۔ ان حالات میں عوام کا کسی \”کھڑاک\” کے لیے بے صبری سے انتظار کرنا یا قبائلی خوں ریز جذبوں کے ہاتھوں بے چین ہو کر دشمن کو للکارنا نری بے وقوفی ہی نہیں صورت حال کا ناکافی تجزیہ بھی ہے۔

کل ایک پیغام موصول ہوا کہ ایٹمی حملہ ہونے کی صورت میں بچا کیسے جا سکتا ہے۔ پورا مضمون ایسے مزے لے لے کر لکھا گیا تھا گویا مضمون نہیں ہے کوئی افسانہ ہے۔ ایٹمی حملہ ہو گا تو آپ کو ایک مشروم نظر آئے گا، اسے دیکھتے ہی کلمہ پڑھ لیں، اگر آپ ڈیڑھ دو میل کے دائرے میں ہیں تو کلمہ پڑھنے کے تین سیکنڈ بعد آپ پگھل چکے ہوں گے، اگر نہیں ہیں تو آپ بچ چکے ہیں (پھر باقاعدہ بچنے کی مبارک باد دی گئی) اور اب آپ تیزی سے بھاگ کر اس تہہ خانے میں جائیں جو زمین سے تیس فٹ گہرائی میں ہے اور جو آپ ایٹمی حملے سے بچنے کے چکر میں پہلے بنوا چکے ہیں۔ اس میں آپ کے پاس پندرہ بیس دن کے لیے کھانے پینے کا سامان، ریڈیو، کتابیں اور نہ جانے کیا کیا الا بلا ہونا چاہئیے۔ تہہ خانے میں جاتے ہی آپ تابکاری کے اثرات والے کپڑے اتار دیں اور آرام سے نہا دھو کر وہیں آرام کریں۔ اپنے حواس بحال کریں، کتابیں پڑھیں، ریڈیو سنیں، پانچ چھ روز تک امدادی ٹیمیں آنے کی اطلاع ریڈیو پر مل جائے تو باہر آ جائیں ورنہ بیس روز بعد باہر آئیں جب تابکاری اثرات کافی حد تک کم ہو چکے ہوں۔ اب اس سارے پیغام کی جان اس کے اختتامی جملے ہیں؛ \”پناہ گاہ سے نکلتے ہی ممکن ہے آپ کو پہلا احساس یہی ہو کہ لاکھوں میں صرف آپ ہی زندہ بچے ہیں۔ اب جس قدر جلدی ممکن ہو علاقہ چھوڑ دیں۔ اور یاد رکھیں کہ اب آپ کو اپنے ہم وطنوں کا انتقام بھی لینا ہے۔\”

یہ فلاحی پیغام پڑھنے کے بعد بیس منٹ تک تو کمپیوٹر کو ہاتھ نہیں لگایا کہ غصے میں کہیں اول فول نہ بک دیا جائے۔ یا للعجب! کیسا اندھا انتقام ہے کہ لاکھوں میں ایک آدمی جو زندہ باہر نکل آیا ہے اس پر بھی نئے سرے سے فرض کر دیا گیا ہے؟ سینکڑوں میل تک کوئی عمارت کھڑی نظر نہیں آتی، نہ کوئی دوست نہ رشتہ دار، نہ گھر والے، ایک بیابان ہے اور آدمی کھڑا سوچتا ہے کہ جائے تو کہاں جائے۔ ایسے میں اگر وہ بدنصیب بچ نکلتا ہے اور بہت تگ و دو کے بعد اپنے ہی جیسے انسان اسے کہیں مل جاتے ہیں تو کیا وہ نئے سرے سے انتقام کی تیاریاں شروع کر دے گا؟ اس قدر زہریلی اور کینہ پرور سوچ کا حل یہی ہے کہ موجودہ نسلوں کو بچا لیا جائے۔ ان کے نصاب کا ایک مرتبہ بغور جائزہ لیا جائے کہ یہ باتیں پڑھے لکھے لوگوں ہی کی طرف سے نکلتی ہیں۔ اور کچھ ایسا کیا جائے کہ اگلے بیس تیس برس میں آنے والی نسل اتنی تباہی کی شوقین نہ ہو، پھر جیسے عوام ہوں گے، ویسے ہی حکمران بھی آئیں گے، کہ وہ بھی انہیں میں سے آگے آتے ہیں۔

ایٹمی حملے کی صورت میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ بیوی بچوں، بہن بھائیوں اور والدین سمیت اکٹھے ایک ہی جگہ بیٹھ جائیں، جب ختم ہونا ہی مقدر ٹھہرا تو کیوں نہ اپنے پیاروں کے ہاتھوں میں ہاتھ ہو، ان کی من موہنی شکلیں آپ کے سامنے ہوں اور سب ایک دوسرے کے ساتھ اس دنیا سے جائیں، پگھلنا ہو یا چیتھڑوں میں تبدیل ہونا ہو، اکٹھے ہی ہو جائیں۔ جو ایک کم بخت بچ جائے گا وہ کیا بھاڑ جھونکے گا؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments