اس راہ میں انسانی جانیں پڑی ہیں


\"noorulhudaلکھنے والا بعض اوقات سوچ کچھ اور رہا ہوتا ہے اور بات کوئی اور اس پر گویا حملہ آور بن جاتی ہے اور اسے خود کو اس کہی ان کہی بات کے سُپرد کرنا پڑ جاتا ہے کہ یہی مجھے کہنا پڑے گا، میں چاہوں یا نہ چاہوں۔

گو کہ پچھلے ایک عرصے سے میں جیسے ذہنی طور پر ملک شام میں بس رہی ہوں! بس کیا رہی ہوں ماری ماری پھر رہی ہوں۔ رہ رہ کر سوشل میڈیا پر لگی تصویریں میری اُنگلیوں تلے رات گئے تک سرسراتی رہتی ہیں۔

بھیڑ بکریوں کی طرح بحری بیڑوں میں ٹھنسے ہوئے انسانوں کا ایک انبوہ جو کبھی سمندروں میں غرق ہو کر لاشوں کی صورت سطحِ سمندر پر تیرتا ہوا دکھتا ہے اور کبھی کناروں کی ریت پر اوندھے منہ دھنسا پڑا ملتا ہے۔ موت کے منہ کی طرح منہ پھاڑے کھڑی کھنڈر و کوئلہ ہو چکی عمارتیں، جن میں کبھی انسان بستے تھے اور اب جن کے ڈھیر تلے وہی بسنے والے انسان دبے پڑے ہیں۔ یورپ کی سرحدوں پر خارزار تاروں کو جھنجوڑتے پناہ کے طالب بے آسرا مسلمانوں کے قافلوں کی آہ و بکا کہ دروازہ کھولو۔۔۔۔ یسوع مسیح کے صدقے ہم بے آسرا مسلمانوں پر دروازہ کھولو اور ہمیں پناہ دو۔ پناہ گزینوں کے کیمپوں اور یورپ کے فُٹ پاتھوں پر ٹھوکروں میں پڑی ان کی نسلیں، اپنے لہولہان جگر گوشوں کو بازوؤں میں اُٹھائے مارے مارے پھرتے ماں باپ اور اپنے بچوں کے لیے چند قدم کے تحفظ کے عیوض بے تحفظ ہوتی مائیں اور خوف و وحشت سے اپنے ہی لہو کو چھوُ چھوُ کر دیکھتے گم سم حیران بچے اور ملبے کے ڈھیر ہو چکے شہر اور آگ اُگلتے دھماکوں میں خاکستر ہوتی حیات اور سینہ کوبی کرتی ماتم کناں انسانیت اور کٹ چکے انسانوں کے لوتھڑے۔

اس سے کچھ عرصہ پہلے اسی طرح میں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ان تصویروں میں رات رات بھر سانس روکے پھنسی رہتی جو سوشل میڈیا پر تیزی سے اپ لوڈ ہو رہی تھیں۔

اس سے بھی پہلے عراق اور پھر یمن!

دیکھتے دیکھتے لگا کہ تباہی اور بربادی کی تمام تصویریں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بس نیچے کوئی سا بھی نام لگا دو۔

ان سب سے بھی بہت بہت پہلے جب زندگی بے خطر جینے کی عمر تھی اور انٹرنیٹ کا آسیب ابھی اُترا نہیں تھا میں اُن کتابوں اور رسائل پر ٹھہر ٹھہر جاتی تھی جن میں پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کی تصویریں چھپی ہوتی تھیں۔ گل سڑ چکے انسانی جسموں کے ڈھیر اور ان پر کھڑا ایک تنہا مسلح فاتح سپاہی، اُن کتوں سے لاتعلق جو ہڈیوں پر باقی رہ گئے انسانی چیتھڑوں کو بھنبوڑتے ہوئے دِکھتے ہیں۔ ہیروشیما کی زمین سے اُٹھتا ایٹم بم کا بھبوکا اور اس کے بعد گلے سڑے چیتھڑوں کی صورت، باقی بچ رہ گئی سانسوں کا عذاب اُٹھائے لاشوں پر مارے مارے پھرتے انسان! اب تو یہ سب عین ہماری فنگر ٹِپ تلے ہمارے فون اسکرین پر موجود ہے۔

انسانی آنکھ ٹھہر نہیں پاتی زیادہ دیر ان تصویروں پر۔ انسانی ہڈیاں ہی ہڈیاں۔۔۔ انسانی جسم ایک دوسرے پر پڑے ہوئے۔ راکھ ہو چکی آبادیوں کی راکھ منہ پر ملے، بندوقیں اُٹھائے آدم بوُ آدم بوُ کرتے پھرتے گمنام سپاہی۔ قطار میں کھڑے زندہ انسان خود پر تنی بندوقوں میں سے اپنے اپنے حصّے کی گولی کے منتظر، وہ بھی کھلی آنکھوں کے ساتھ۔

ویٹ نام کی جنگ کی وہ مشہور تصویر تو عرصے تک میری نیند میں گھُس آتی تھی اور آنکھیں کھلی چھوڑ جاتی تھی جس میں ایک ویٹ نامی بچی نے بم کے دھماکے سے خوفزدہ ہو کر اپنے کپڑے پھاڑ دیے تھے اور بے لباس حالت میں، بازو پھیلائے سڑک پر بھاگے چلی جا رہی ہے۔

اور پھر وہ تصویر جس میں ٹائمز اسکوائر پر جنگِ عظیم دوم کی فتح کا جشن مناتی محبوبہ جو زندہ لوٹ آئے محبوب سپاہی کے بازوؤں میں جکڑی اس کا بوسہ لے رہی ہے اور نہیں پوچھ رہی کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کیا ہوئے!

تصویروں میں اُترو تو 1947 کی ہولناک تصویریں بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی آئی ہیں اور پھر اُس تصویر کشی کا تو کیا ذکر کرنا جو ہمارے اپنے سینوں پر لسانی، سیاسی، مذہبی اور ریاستی دہشت گردی کی صورت نقش و نگار چھوڑتی رہتی ہیں۔

نہ ہی مشرقی پاکستان کی اس عکس بندی کو ہماری نگاہ میّسر ہوئی جو بنگلہ دیش کے البم میں رہ گئیں!

میری ذہنی بیماری یہ ہے کہ میں ان تصویروں کو محض تصویر کے طور کبھی نہیں دیکھ سکی۔ ان تصویروں کے اندر، بہت ہی اندر جا کر دیکھو تو یہی تصویریں reverse ہونا شروع ہوتی ہیں۔ یہ گل سڑ چکا جسم، تصویر میں جسے گِدھ نوچ رہے ہیں، اس کی ماں نے اسے بڑی مرادوں اور دعاؤں کے بعد اپنی کوکھ میں پایا تھا۔ بڑے کٹھن نو مہینے بعد جب باپ کی گود میں آیا تھا تو باپ کا خواب یقین میں بدل گیا تھا کہ جب میری ہڈیاں بوڑھی ہو کر کمزور پڑ جائیں گی تو یہ جوان ہو چکا ہوگا! مجھ سے بھی اونچا اُٹھتا ہوا قد ہو گا اس کا! اس کے قہقہوں کی گونج میرے گھر سے باہر تک سنائی دیا کرے گی اور ہر گزرنے والا سوچا کرے گا کہ میرا بیٹا جوان ہو گیا ہے! بڑھتی عمر کے ساتھ جب اس کے کپڑوں کا سائز جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا تھا، اس کی ماں کی مسکراہٹ اتنی ہی گہری ہوتی جاتی تھی۔ پھر اس کے باپ کو لگا کہ آگے جا کر یہ گھر چھوٹا پڑ جائے گا ہمیں، کیونکہ اب وہ اتنا بڑا ہو چکا تھا کہ ذرا ذرا سی چھپی نظروں سے لڑکیوں کو دیکھنے لگا تھا۔ کوئی تو لڑکی اس کی زندگی میں آئے گی ہی! پھر بچے بھی ہوں گے اس کے! ابھی سے گھر کو بڑا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس کی تعلیم پر بھی تو اچھا خاصا خرچہ آ چکا تھا! باپ کو پارٹ ٹائم جاب کرنا پڑ گئی تھی! ساری ساری رات کھڑے کھڑے کام کرنا پڑتا تھا! ماں کو بھی انگنت خواہشیں مار کر پیسے جوڑنے پڑے تھے۔ اس محنت میں اس کے باپ اور ماں کو ایک دوسرے کا کبھی کبھار کا بوسہ لینا بھی بھول چکا تھا! ماں تو اسے کسی ان دیکھی لڑکی کا بوسہ لیتے ہوئے تصوّر کیا کرتی تھی اور زیر لب مسکرا دیتی تھی! پھر گھر کو بڑا بھی کیا تینوں نے مل کر۔ اینٹ اینٹ میں تینوں کا خون پسینہ گُندھا ہوا تھا! اس کی زندگی میں جو لڑکی آئی، اس کی مٹی تو اکیلی ماں کی محنت سے گُندھی تھی! باپ نے مرتے وقت جب اس پر آخری نگاہ ڈالی تھی تو یہی دعا کی تھی کہ اسے محبت کرنے والا جیون ساتھی ملے! ان دونوں کی شادی میں دونوں کی ماؤں نے مل کر رقص کیا تھا! باپ تو تب رقص کرنے لگا جب اسے پتہ چلا کہ اس کی بہو ماں بننے والی ہے! جس رات اس کی پوتی پیدا ہوئی تھی، اس رات شہر بھر میں بلیک آؤٹ کر دیا گیا تھا اور فضا میں جنگی جہاز غرّاتے پھر رہے تھے مگر اسے لگا کہ اس کے گھر میں کئی چراغ جل اُٹھے ہیں! بیوی کو اس نے کہا کہ صبح مجھے پورے محلّے میں مٹھائی بانٹنا ہے! جنگ ہوتی ہے تو ہوتی رہے! آئی میری جوتی پر! میرے گھر میں تو پہلی بیٹی ہے اور مجھے تو ابھی جشن بھی منانا ہے!

مگر یہ تصویر اسی اگلی صبح کی ہوگی شاید! اس کٹے پھٹے جسم کے پیچھے اب وہی خون پسینے سے گُندھا گھر ہے جو جلی کترنوں کی طرح ڈول رہا ہے! اور وہ بچ رہ گیا بازو اس کے باپ کا ہے اور وہ کھنڈر تلے سے جھانکتا ہوا آدھا جسم اسی لڑکی کا ہے جس کا محبت کرنے والا جیون ساتھی اس کٹے پھٹے جسم کو زندگی بھر کے لیے بننا تھا جسے اب گِدھ نوچ رہے ہیں۔ اس کے باپ کی پوتی ،جسے اس خاکستر ہو چکے گھر میں چراغاں کرنا تھا اس کا کوئی نشاں نہیں باقی! اور وہ ماں؟ پتہ نہیں تھی بھی کہ نہیں!

کیا یہی ہے انسان کی زندگی کا کلائمیکس؟ یہ جو پیدا ہوا اور پلا بڑھا! یہ سانس سانس کی مشقت زندگی جینے کی! یہ نسلِ انسانی کا حسین تسلسل! یہ اس لیے ہے کہ اسے ملکوں اور فوجوں اور حکمرانوں کے بیچ کی کشمکش میں راکھ کر دیا جائے!

دوسری جنگِ عظیم کی اُن تصویروں کے اندر جا کر دیکھیے، یہ کوڑے کرکٹ پھینکنے کا جو میدان دکھ رہا ہے، یہ ایٹم بم میں خاکستر ہو چکا شہر ہے اور یہ جو چیتھڑے سے دِکھ رہے ہیں کوڑے کرکٹ کی صورت یہ انسان تھے جو ایٹم بم گرنے سے لمحہ بھر پہلے گھروں، گلیوں، محلّوں، بازاروں، باغوں میں اپنی زندگی جی رہے تھے! عین اُس لمحے کوئی ہنس رہا تھا اور کوئی اپنی محبوبہ سے سرگوشی میں اظہارِ محبت کا جملہ مکمل کر ہی رہا تھا، کوئی بچہ باپ کی اُنگلی پکڑ کر پہلا قدم اُٹھانے کے بعد اپنے دوسرے قدم کی جانب بڑھ ہی رہا تھا، کسی کی کوکھ کا بچہ دنیا میں آنے کے لیے ابھی تھامنے والے ہاتھوں تک پہنچنے کو ہی تھا کہ ایٹم بم آ گرا ہوگا! ایٹم بم گرانے والا نکل گیا اور اس کی تاریخ پیدائش، مرنے کی تاریخ، تمام فوجی اعزازات اور عہدے، حالاتِ زندگی، سب کچھ طویل فہرست کے ساتھ ہر جگہ موجود ہیں مگر وہ ایک لاکھ چالیس ہزار افراد؟ وہ چہرے؟ وہ آنکھیں؟ وہ خواب؟ وہ دل؟ وہ دماغ؟ وہ نام؟ ان کی تاریخِ پیدائش؟ جواب میں صرف یہ تصویریں ہیں جن میں یوں دکھتا ہے جیسے کسی نے زمین پر بہت کچھ کھانے کے بعد قے کر دی ہو! انسان کی انسانیت پر قے!

اور اب میں پچھلے کچھ دنوں سے اپنے ملک کے نیوز چینلز پر پھنس گئی ہوں۔ دکھ جب سرکاری طور پر ریاست کی جانب سے مسلّط کیا جاتا ہے تو آنسو نہیں بن پاتا۔ کشمیریوں کا دکھ اور ان پر ٹوٹتا ستم ہمارے میڈیا کی ڈکٹیشن شدہ چیخ و پکار کی نظر ہو رہا ہے۔ ڈکٹیٹ کروایا ہوا سچ مشین کی گھوُں گھوُں کی طرح ہوتا ہے۔ سچ ہوتا ہے مگر اثر نہیں رکھتا!

ایک مثال یہ ہے کہ عام پاکستانی ہمیشہ افغانستان اور افغانیوں سے لا تعلق رہے! نہ محبت ہوئی نہ ہمدردی۔ پاکستانی اُن کی آگ میں کودے بھی تو شوقِ حورانِ بہشت میں!

اب ایک طرف پاکستان مردہ باد کہنے پر ایکشن ہے تو دوسری طرف اس بات پر جشن ہے کہ دشمن ملک میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں! ایک طرف بلوچستان ہے دوسری طرف کشمیر ہے۔ کہتے ہیں وہ معاملہ کچھ اور ہے، یہ معاملہ کچھ اور ہے! ایک طرف بھارت کی فوجی قوّت ہے جو کھلی جارحیت ہے دوسری طرف ہماری فوجی قوّت ہے جو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہے۔ اُن کے باغی ہماری نظر میں حرّیت پسند اور مجاہد ہیں اور ہمارے باغی جو ہماری نظر میں دہشت گرد ہیں، اُن کی نظر میں مظلوم ہیں!

براہمداغ بگٹی کو بھارتی شہریت کی آفر دہشت گرد کو پناہ دینے کے مترادف ہے! برہان وانی کو وزیراعظم پاکستان قابلِ تعریف مثال قرار دے سکتے ہیں!

میڈیا چلّا چلّا کر پاکستان کی جنگی صلاحیتوں کی تفصیل بتا رہا ہے اور جدید ہتھیاروں کی قوّت بتا رہا ہے۔ میڈیا پر جوہری طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایٹم بم کی بات یوں ہو رہی جیسے کرکٹ میچ میں متوقع چھکے کی! سوشل میڈیا پر اس کے اثر میں گویا دل لگی ہو رہی ہے کہ ہم نہ ہوں گے تو تم بھی نہ ہوگے! سنبھلنا! اگر ہم نے بٹن دبا دیا نا تو کچھ بھی نہیں بچے گا!

بس ایک بٹن پر رکھی رہ گئی ہے انسانی جان اور انسانیت!

یہی کچھ یقیناً بھارت میں بھی ہو رہا ہے۔

مگر عام پاکستانی اور عام بھارتی کہاں ہے؟ اپنا وجود رکھتا بھی ہے کہ نہیں؟ اس سے کسی نے پوچھا بھی ہے کہ نہیں کہ جنگ چاہتے ہو کہ نہیں؟ اپنی جان مال اور نسل اس جنگ میں جھونکنا چاہتے ہو کہ نہیں؟ تمہارے بچے ڈریں گے تو نہیں اگر ہم جنگ کریں تو؟ تمہیں خود کو جنگ کے الاؤ سے بچانا آتا ہے یا نہیں؟ کوئی محفوظ جگہ تمہاری نظر میں ہے یا نہیں؟

بی بی سی کی وڈیو اور آڈیو پر اُڑی کی کشمیری عورت سہمی ہوئی آواز میں جنگ سے اپنے خوف کا اظہار کر رہی ہے۔ کشمیری نوجوان اُمید کا اظہار کر رہا ہے کہ جنگ نہیں ہوگی! لائن آف کنٹرول کے اِس طرف اُڑی کے قریب ہی چکوٹھی کے کشمیری بچوں کے چہروں پر خوف کے سائے ٹھہرے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور ان کے والدین کو کہہ دیا گیا ہے کہ جنگ کی صورت میں اگر دو گھنٹے کے اندر بچوں کو محفوظ مقام تک پہنچا سکتے ہو تو اسکول بھیجو ورنہ اسکول بند کیے جائیں۔

دونوں طرف سے ایٹم بم کے تبادلے کے بعد ؎، چلئے یہاں والے تو ہندوؤں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کریں گے اور از قصّہ مختصر سیدھے بہشت چلے جائیں گے۔ وہاں والے؟ سُرَگ تو ہے نہیں! اگلا جنم پائیں گے؟ اور وہاں کے مسلمان؟ وہ تو مسلمانوں کے ایٹم بم میں خاکستر ہوں گے! پھر؟ کیا کہلائیں گے اور کہاں جائیں گے؟

مگر ہم واپس اُسی موڑ کی طرف یو ٹرن لے کر جا رہے ہیں جہاں ہم نے اپنی نسلوں کو جہاد کے خواب دکھا کر دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا اور ابھی تک اُس آگ کو بجھا نہیں پا رہے۔ ہم چیخ چیخ کر عسکریت اور عسکری قوّت اور ہتھیاروں کی قوّت اور جوہری طاقت کے لفظی مظاہرے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو، ہندو جیسے الفاظ کانوں میں اُنڈیل رہے ہیں! برہان وانی جیسا حسین، کڑیل جوان، عسکری لباس میں ملبوس اور مسلح اور پھر شہید اور وزیرِ اعظم پاکستان سے سند یافتہ جب پاکستانی نوجوانوں کے رگ و پے میں آئیڈیل کی صورت سرایت کر جائے گا اور اپنی نظر میں جو حق کی بات سمجھے گا، اُس کے لیے ہزاروں کی تعداد میں اُٹھ کھڑا ہوگا، اُس وقت کا کیا انتظام ہے ہمارے پاس؟

ہم جو اس سے بھی پہلے نوجوانوں کو ہاتھوں میں گنڈاسے دے کر رائے ونڈ کے محاز پر اتارنے جا رہے ہیں!

پہلے ایٹم بم کی تباہی کو صرف 71 سال ہوئے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے صرف دو سال پہلے ہوا ہے ایٹم بم کا وہ پہلا دھماکہ جو ایک لاکھ چالیس ہزار انسانوں کو آبادی سمیت لمحے میں خاکستر کر گیا۔ اب تو ایٹم بم کی رسائی اُس سے کہیں زیادہ ہے! لیکن اگر صرف اُس ایٹم بم کی تباہی کی تصاویر اسکرین پر تفصیل کے ساتھ دکھائی جائیں تو شاید ایٹم بم ایٹم بم کے کھیل کی لذت لینے والے لوگ اپنے سینے چیر کر، اُن میں اپنے بچے چھپانے کے طریقے ڈھونڈنے لگ جائیں!

ہم آج بھی نہیں سکھا رہے اپنی نسلوں کو کہ کتنی قیمتی ہے انسانی جان! یہ قیمتی متاع خون کی ندیوں میں بہانے کے لیے قطعی نہیں ہے! ایک انسان کو جنم سے جوان ہونے تک اور خود کو اگلی نسلوں میں منتقل کر کے زندگی کو الوداع کہنے تک کتنی محنت کے ساتھ جینے کے کتنے جتن سے گزرنا پڑتا ہے! اس کا حساب ریاضی کے ضرب، جمع، نفی اور تقسیم کے اُصولوں کے مطابق اگر لگایا جائے تو انسانی سوچ کے کیلکیولیٹر کی حد ختم ہو جاتی ہے مگر حساب مکمل ہو نہیں سکتا۔ ممکن ہی نہیں! صرف ایک انسان کے، صرف اور صرف ایک عدد انسان کے دکھ درد، جسم اور روح کی تنکا تنکا مشقت، زندگی پر خرچ ہوئے لہو اور پسینے کے قطرے قطرے کا حساب لگانے بیٹھو تو انسانی اعداد و شمار کی حدیں ٹوٹ گریں گی!

پھر یہ حساب یوں بھی لا متناہی ہے کہ ایک انسان کے ساتھ صرف اس کی اپنی سانسیں ہی نہیں کئی انسانوں کی سانسیں جُڑی ہوئی ہوتی ہیں۔

اپنی اپنی دھرتی پر انسانوں کی ہری بھری کھیتی کی آبیاری لہو رنگ باتوں سے نہیں کی جا سکتی۔ دوسری اور تیسری عالمی جنگوں کے خوفناک تجربے کے بعد اُن ہی ممالک نے اپنی اپنی دھرتی پر انسانی ذہن کی آبیاری انسانی حقوق کے ساتھ نہ صرف اجتماعی طور پر قانون اور آئین کی پاس داری کے ذریعے بلکہ فردِ واحد کے انفرادی اور ذاتی حق کے احترام کے ساتھ کی کہ آج ان کے ہاں الفاظ کا چناؤ بھی اپنی قانونی اہمیت اور حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے الفاظ استعمال کرنا ہی جرم ہے جس سے دوسرے کو جان کے خطرے کا خوف ہو۔

یہ وہی انسانی حقوق ہیں جس کا نظام چودہ سو سال پہلے اسلام حقوق العباد کے نام کے ساتھ دے چکا ہے، جس کی فہرست میں جنگ کے بعد کا سلوک، میثاق کا احترام اور پابندی، فاتح کا رویّہ، جنگ کی ابتدا سے پہلے دشمن کی عورتوں اور بچوں کی جان کی ضمانت اور جنگی قیدیوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ جنگ پر جانے والا پیچھے اپنی بیوی اور بچوں اور بوڑھے ماں باپ کی حفاظت کا کیا انتظام کر کے جا رہا؟ اگر نہیں کر سکا تو جنگ میں شریک ہونے کا اہل بھی نہیں۔۔۔

مگر اُس طویل اور حسین فہرست کے ساتھ ہم نے پاکستانی نسل کی آبیاری نہیں کی۔ ہم آج بھی نسیم حجازی کے ناولوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ہندو ہندو کی چیخ و پکار مچا کر کانوں میں وہی کچھ اُنڈیل رہے ہیں، جس کا بویا کھا رہے ہیں اور ابھی کھائیں گے۔

دوسری طرف رومن کتھولک چرچ کے سربراہ پوپ فرانسس دعائیہ تقریب میں کہہ رہا ہے کہ یورپ کی پارش (مقامی چرچ کا حلقہ) اور مسیحی برادری کے ہر ایک خاندان کو چاہئے کہ وہ مسلمان پناہ گزینوں میں سے ایک خاندان کو اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دیں۔

مسلم فوبیا کے اس زمانے میں یہ عیسائی پیشوا کی جانب سے رحم کے جذبے کے ذریعے ذہنوں کی آبیاری کا کام ہے جس کی فصلیں ان کی نسلیں کاٹیں گی!

جنگ نہ بھی ہو۔۔۔

ایٹم بم کا تبادلہ نہ بھی ہو

مگر ذہنوں میں ایک بار پھر قطرہ قطرہ بربادی کی فصل تیار ہو رہی ہے بہرحال!

اور اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ بھارت کیا کر رہا ہےاور کہہ رہا ہے!

اس کا سوال یہ ہے کہ ہم کیا بو رہے اپنی نسلوں کے ذہنوں میں!

 

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments