امام حسین ؓ کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ (مکمل کالم)


چند کتابیں جو ہمیشہ میری سائیڈ ٹیبل پر موجود رہتی ہیں اُن میں سے ایک مولانا مودودی کی ’خلافت و ملوکیت‘ ہے۔ شکر ہے کہ یہ کتاب کبھی اسکول کے نصاب کا حصہ نہیں رہی ورنہ آج کل کے کسی مہا پُرش نے اِس پر بھی پابندی لگوا دینی تھی۔ کسی زمانے میں اِس کتاب اورمولانا کے خلاف فتوے بھی صادر کیے گئے تھے مگر اِس کے باوجود یہ مولانا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ کتاب کیا ہے، گویا مسلم تاریخ کا ایک چھوٹا سا خزینہ ہے۔ خلافت راشدہ کیسے ملوکیت میں تبدیل ہوئی، مسلمانوں کے درمیان جنگیں کیوں ہوئیں، مسلمانوں کے مابین مذہبی اختلافات کب اور کیوں کر شروع ہے، انتخابی خلافت اور شوروی حکومت کیا ہے، قاتلین حضرت عثمان ؓ کون تھے، یزید کی ولی عہدی کا کیا معاملہ تھا، خروج کیا ہے، فاسق و ظالم کی امامت جائز ہے یا نہیں۔۔۔ وغیرہ۔

اِن نازک معاملات پر قلم اٹھانے سے پہلے مولانا نے نہ صرف تاریخ کو اچھی طرح کھنگالا بلکہ حقائق کی چھانٹی کرکے اپنی دیانتدارانہ رائے اِس عالمانہ انداز میں قائم کی کہ جلیل القدر اصحاب ؓ کے احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ہر سال نو /دس محرم کومیں جن کتابوں کو دہرائی کی غرض سے پڑھتا ہوں اُن میں تاریخ طبری اور خلافت و ملوکیت شامل ہیں۔ کل رات میں اِس کتاب کو دیکھ رہا تھا تو ایک واقعہ نظر سے گزرا جو یاد داشت سے محو ہو چکا تھا۔

مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ حضرت زید بن علی ؓ، امام حسین ؓ کے پوتے تھے، اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے، امام ابو حنیفہ ؒ کا زمانہ بھی یہی تھا اور وہ اکثر دینی معاملات میں حضرت زید ؓ سے استفادہ کرتے تھے۔ اُس وقت ہشام بن عبد الملک کی حکومت تھی جو یزید ثانی کا بھائی تھا۔ ہشام نے اپنے عراق کے گورنر خالد بن عبد اللہ کو معزول کرکے تحقیقات شروع کروائیں تو اِس سلسلے میں گواہی کے لیے حضرت زید ؓ کو مدینے سے کوفے بلایا گیا۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا، ایک طویل عرصے کے بعد اہل بیت کا کوئی ممتاز فرد اسی شہر میں آ رہا تھا جہاں ساٹھ برس پہلے امام حسین ؓ تشریف لائے تھے۔ حضرت زید ؓ کی آمد کی خبر سے گویا پورے کوفے میں بھونچال سا آ گیا اور لوگ پروانوں کی طرح آپؓ کے گرد جمع ہونے لگے۔

ویسے بھی عراق کے باشندے سالہا سال سے بنی اُمیہ کے ظلم و ستم سہتے سہتے تنگ آ چکے تھے اور اٹھنے کے لیے سہارا چاہتے تھے۔ عَلوی خاندان کی ایک صالح، عالم، فقیہ شخصیت کا میسر آ جانا انہیں غنیمت محسوس ہوا۔ ان لوگوں نے حضرت زید ؓ کو یقین دلایا کہ کوفہ میں ایک لاکھ آدمی آپؓ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اور 15 ہزار آدمیوں نے بیعت کر کے باقاعدہ اپنے نام بھی ان کے رجسٹر میں درج کرا دیے۔ اس اثنا میں کہ خروج کی یہ تیاریاں اندر ہی اندر ہو رہی تھیں، اُموی گورنر کو ان کی اطلاع پہنچ گئی۔ حضرت زید ؓ نے یہ دیکھ کر کہ حکومت خبردار ہو گئی ہے، صفر 122 ہ/ 740 ء میں قبل از وقت خروج کر دیا۔ جب تصادم کا موقع آیا تو کوفہ کے شیعان علی ؓ ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ جنگ کے وقت صرف 218 آدمی ان کے ساتھ تھے۔ دوران جنگ اچانک ایک تیر سے وہ گھائل ہوئے اور ان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔ “ (خلافت و ملوکیت، ص 267)۔

ابوالاعلی مودودی نے یہ واقعہ طبری ؒ سے نقل کیا ہے، تاریخ طبری کی پانچویں جلد میں اِس واقعے کی تفصیلات پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے واقعہ کربلا دہرایا گیا ہو۔ وہی کوفے والے، وہی ان کے عہد و پیمان۔ وہی اہل بیت اور وہی اُن کا شوق شہادت۔ امام حسین ؓ جب کوفے کے لیے روانہ ہوئے توانہیں بھی ”زمینی حقائق سمجھائے گئے“ اور بتایا گیا کہ اُن کہ یہ مہم بے حد خطرناک ثابت ہو گی۔ جو لوگ امام حسین ؓ پر یہ کہہ کر تنقید کرتے ہیں کہ یہ اقتدار کی جنگ تھی وہ اِس قسم کا اعتراض کرتے ہوئے یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ امام عالی مقام ؓ کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ جس مقصد کے لیے نکلے ہیں اُس کے لیے انہیں کیا قربانی دینی پڑ سکتی ہے۔ کوفے کے سفرمیں ایک سے زیادہ مرتبہ ایسا موقع آیا جب امام حسین ؓ کے پاس یہ آپشن موجود تھاکہ وہ بحفاظت واپس جا سکتے تھے مگر انہوں نے بات قبول نہیں کی۔ حُر نے بھی انہیں یہ پیشکش کی تھی کہ وہ واپس چلے جائیں مگر نواسہ رسول ﷺ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ”نہیں، خدا کی قسم نہیں، میں کسی اہانت آمیز انداز میں بیعت کروں گا او ر نہ ہی کسی غلام کی طرح میدان چھوڑکر بھاگوں گا۔۔۔ “

دوسری بات جو زیادہ غور طلب ہے کہ یزید کے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد امام حسین ؓ کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا انہیں خاموشی سے یزید کی بیعت کر لینی چاہیے تھی؟ کیا اِس طرح بیعت کرنے سے یزید کی حکمرانی کو قانونی جواز نہ مل جاتا اور کیا یہ بات درست ہوتی؟ کیا یزید کی نامزدگی اور اس کی حکمرانی اسلامی خلافت کے مجوزہ اصولوں کی رُو سے قانوناًدرست اور جائز تھی؟ اِن سوالات پر صدیوں سے بحث جاری ہے اور ظاہر ہے کہ اِس بحث کو چار سطروں میں یہاں سمیٹنا ممکن نہیں۔ مولانا مودودی نے البتہ اِس بحث کا کلیجہ نکال کر رکھ دیا اور لکھا کہ ”اُن (امام حسین ؓ) کی زندگی میں اور اُن کے بعد صحابہ و تابعین میں سے کسی ایک شخص کابھی یہ قول ہمیں نہیں ملتا کہ ان کا خروج ناجائز تھا اور وہ ایک فعل حرام کا ارتکاب کرنے جا رہے تھے۔۔۔ “ دراصل یہ بات ہی نواسہ رسول ﷺ کی شان کے خلاف تھی کہ وہ ایک ناجائز حکومت کے خلاف آواز نہ اٹھاتے، کوفے والے انہیں خط لکھتے یا نہ لکھتے، ان سے پیمان توڑتے یا نبھاتے، امام حسین ؓ نے ہر حال میں حق سچ کا ہی ساتھ دینا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر قسم کے نتائج اور زمینی حقائق کا ادراک رکھنے کے باوجود کوفے تشریف لے گئے۔ باقی تاریخ ہے۔

دنیا میں ظلم، جبروت اور فسطائیت کے خلاف ڈٹ جانے کا اگر کوئی ماڈل ہے تو وہ امام حسین ؓ کا ہے۔ اِس راستے پر چلنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے، اِس راستے میں بد ترین دشمنوں سے واسطہ پڑتا ہے، اِن دشمنوں کو پیاس سے بلکتے ہوئے شیر خوار بچے پر کوئی رحم آتا ہے اور نہ قتل کرنے کے بعدلاشوں کی بے حرمتی پر کوئی ملال ہوتا ہے۔ امام حسین ؓ  کا سر سنان بن انس نے کاٹا اور خولی بن یزید کے حوالے کر دیا، جنگ کے بعد خولی اپنے گھر چلا آیا، اس کی عورت نے پوچھا کیا لائے ہو، خولی نے کہا ”تمام دنیا کی دولت تیرے پاس لے کر آیا ہوں۔ تیرے خیمے میں حسین ؓ کا سر لے کر آیا ہوں۔“ اس نے کہا ”لعنت ہے تجھ پر۔ لوگ سونا چاندی لے کر آئے اور تو رسول اللہ ﷺ کے فرزند کا سر لایا ہے۔۔۔ “ (طبری، جلد چہارم)۔ ساٹھ برس بعد تاریخ پھر دہرائی گئی۔ امام حسین ؓ کے پوتے حضرت زید ؓ کا سر کاٹ کر ہشام کے پاس بھیجا گیا اور یہ سر دمشق میں اُس کے دروازے کے باہر لٹکا دیا گیا۔

میں ایک گناہگار مسلمان ہوں، جو تھوڑی بہت توفیق اللہ نے مجھے دی ہے اُس کی وجہ سے کبھی کبھار کوئی نیکی بھی سرزرد ہو جاتی ہے۔ البتہ تا حال خانہ خدا کی زیارت سے محروم ہوں، ابھی تک بلاوا نہیں آیا، لیکن جب بھی موقع ملا تو خدا کے گھر کی زیارت کرنے اور روضہ رسولﷺ، ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کے دربار میں حاضری دینے کے بعد کربلا بھی جاؤں گا۔۔۔ وہ مٹی دیکھنے جہاں نواسہ رسولﷺ کا خون بہا تھا!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 500 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada