طاقت کے استعمال کی مردانہ روایت اور اُس کے اثرات


میں جب چھوٹا سا تھا تو میری اماں مجھے کہتی تھی ” گھر بار آلا تھیویں تے دشمن زیر تھیونی” یہ بات میری بہن کو کبھی نہیں کہی گئی۔ میں سوچتا تھا عورت کے دشمن نہیں ہوتے یا اُس کا گھر نہیں ہوتا۔ خیر یہ پریشانی اُس وقت اور بڑھ جاتی جب میری بہن بھی مجھے دعائیہ انداز میں کہتی کہ “ویر میڈا اللہ تیکوں لمبی حیاتی ڈیوے تے ڈُدھ پُتر آلا تھیویں”۔ اب پھر میں سوچ میں پڑ جاتا کہ لمبی حیاتی کی بھی مجھے ضرورت ہے میری بہن کو کیوں نہیں، بیٹے اور خوشحالی کی بھی مجھے دعائیں دی جاتی ہیں۔ یہ معما شروع شروع میں میری سمجھ میں نہ آیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھنے میں اس وقت مدد ملی جب مجھے خود سے گھر کی ذمہ داری اُٹھانی پڑی اور پورے گھر کو سنبھالنا پڑا۔

پھر مجھے سمجھ آنے لگی اچھا میری زندگی کی دعائیں کیوں کی جاتی تھیں اور تمام دعائیں اور اچھے مستقبل کی امیدیں صرف مرد سے کیوں جُڑی ہیں۔ اس سماجی تفریق اور روایتی سوچ کے اثرات میری نفسیات اور اعمال پر کافی گہرے ہو چکے تھے۔ اب اس نفسیات کے ساتھ زندہ رہنا اور مردانہ افعال کو سر انجام دینا میری روزمرہ زندگی کا جزو لاینفک بن چُکا تھا۔

روزمرہ کی اس زندگی میں اب جینا صرف جینے کے لئے نہیں تھا بلکہ ایک خاص ضابطہ کار کے تحت اپنے آپ کو ڈھالنا تھا۔ اس کوشش میں میری بہت ساری خواہشیں اور اُمیدیں ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہوئیں اور میں نے کئی موقعوں پر اپنے آپ کو بے بس پایا مگر حالات اور سماج کے جبر کے زیر اثر مجھے “مرد” کے طور پر وہ سب کچھ سہنا پڑا جن کو شاید آزاد انسان اپنی مرضی سے کبھی برداشت نہ کرتا۔ اب وہاں سے مجھے طاقت کی فلاسفی کی آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی اور طاقت کے مختلف پہلووں اور اُس کے اثرات کو سمجھنے کے لئے مجھے “میکاویلی” برٹینڈ رسل، جارج اورویل، کارل مارکس اور جدید فلاسفروں کے خیالات کو کھنگالنا پڑا مگر کہانی پھر بھی سمجھ نہیں آئی۔ اب میں نے سوچا اس کو اپنے ارد گرد سے جانچتا ہوں میرے آس پاس کیا کیا ایسے مظاہر ہیں جو مردانگی اور طاقت کے بیانیئے کو مقامی تناظر میں بیان کرتے ہیں۔

اس اپروچ کے تحت جب میں باہر نکلا تو میری نظر ایک دیوار پر پڑی تو اُس پر موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا ” مایوس مرد حضرات کے لئے جادوئی نسخہ ہمارے ہاں مایوس اور نا امید مرد حضرات کا علاج تسلی بخش کیا جاتا ہے اور مردانہ طاقت کو بحال کرکے دوبارہ پرمسرت زندگی کا موقع دیا جاتا ہے”۔

“مردانہ طاقت”ہو تو پھر “زنانہ طاقت” بھی ہوگی مگر مجھے اُس کا اظہار یا نسخہ کہیں نظر نہیں آیا۔ شاید مردانہ طاقت زیادہ اہم ہے یا مردانہ طاقت کی اصطلاح میں چُھپی استحصال کی کہانی مرد کو زیادہ متاثر کرتی ہے یا عورت کو؟

اس سوال نے میرے ذہن کو جھنجھوڑا تو میں نے اور گہرائی سے سوچنا شروع کر دیا۔ اب ذرا دیواروں سے اوپر جھانکا تو طاقت کو مختلف انداز سے استعمال ہوتے دیکھا۔ ۔ ایک مرد اپنے دو بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے آیا ایک چھوٹی بچی تھی اور ایک بیٹا تھا۔ ڈاکٹر نے دونوں کو انجکشن لگایا تو بچی رونے لگی مگر اُسے کسی نے کوئی خاص دلاسا نہ دیا جب بچے کی باری آئی تو اُسے ڈاکٹر سمیت اُس کے باپ نے کہا مرد بنو روو مت۔ ۔ ۔

اس طرح ایک دن ہمارے گاؤں میں لڑائی ہوئی تو صرف مردوں نے لڑائی میں حصہ لیا مگر عورتیں گھر بیٹھ کریہ انتظار کرتی رہیں کہ لڑائی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ، دیہات میں مردوں کی لڑائیوں میں عام طور پر جانیں بھی مردوں کی ہی جاتی ہیں۔

اس طرح میں دانشوروں سے ملا وہ بھی طاقت کے بیانیے سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کر پائے بلکہ اپنی سوچ کی طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے وہ مجھے نفسیاتی طور پر دبانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طاقت کے ذریعے ہمارے سماج میں کیسے کیسے ہمیں دبا کر ایک ایسی زندگی جینے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ہماری پسند اور روح کی عکاس ہرگز نہیں ہوتی۔

اس سوال کو مزید کھولنے سے ایک پتا چلتا ہے کہ جس طاقت کا ہمیں شروع سے درس دیا جاتا ہے وہی طاقت وہی مردانگی ہمارے گلے پڑ جاتی ہے۔ طاقت یا اختیار دراصل ذمہ داری کا دوسرا نام ہے۔ پسماندہ سماج میں اختیار اپنے آپ میں ایک ایسا فساد ہے جس سے ہر حال میں آپ کو نمٹنا ہوتا ہے۔ اپنے مرد ہونے کو ثابت کرنے کے لئے بہت سی ناپسندیدہ چیزوں کو سہنا ہوتا ہے۔

وہ وقت جو آپ کو اپنی زندگی کے لئے اپنی ذات کے لئے چاہیے ہوتا ہے وہ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے صرف کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آپ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس قسم کے رجحانات بہت سے مکینیکل رویوں کو جنم دیتے ہیں جس میں تحکمانہ لہجہ اور مزاج پنپتا ہے۔

اس مزاج کے فطری اثرات کے طور پر ہر اس ہستی کی، جس کو اپنی طاقت اور اختیار کا احساس ہوتا ہے، دوسروں کے لئے اصول و ضوابط بنانے میں دلچسپی بڑھنے لگتی ہے کیونکہ اس طرح سے وہ اپنی ہستی کے ہونے کا ادراک اور احساس کر سکتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ طاقت کا دوسرا نام ذمہ داری ہے اور ذمہ داری کا مطلب ہے آزادی سے دوری اور ضابطوں کی زنجیروں میں قید۔

اس لئے طاقت سے منسلک جتنے بھی سمبل، ہستیاں، شخصیات، ادارے، لوگ سب کے سب اپنی اپنی سمجھ کے تحت دوسروں پر تحکمانہ انداز سے اپنی سوچ کو نافذ کرتے ہیں۔ کاش آزادی سے جیا جا سکتا اور آزادی سے مرا بھی جا سکتا۔ تحکمانہ لہجے اور اصول و ضوابط، یہ سب ہم نے ایک دوسرے کو قابو میں کرنے کے لئے اپنا رکھے ہیں یا ان کا کوئی اور مصرف بھی ہے۔۔۔؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).