بارش کا پہلا قطرہ اور بات عوامی احتساب کی


کہا جاتا ہے کہ کتابوں میں لکھا ہوا پڑھنا کسی کے لیے شاید اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا دیوار پے لکھا ہوا پڑھنا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کتاب میں کسی ایک فرد کی رائے ہوتی ہے، جبکہ نوشتہ دیوار آوازِ خلق ہوتی ہے۔ اور آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے۔ جے آی ٹی کی رپورٹ سے ایک بات واضح ہوئی ہے کہ وزیر اعظم کا خاندان اپنے دعووں کو سچا ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر یہاں جمہوریت ہوتی تو اب تک بہت سارے استعفے آ چکے ہوتے۔ مگر نوشتہ دیوار تو وہ پڑھے جس کا پڑھنے لکھنے سے کوئی لینا دینا ہو۔

جمہوری حکومتوں کی بنیاد عوام کا اعتماد ہوتا ہے، وہ عوام جو اسے اپنا نمائندہ چنتے ہیں۔ دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں ہیں کہ جب کسی نمائندے پر بد عنوانی کا الزام لگا تووہ فوراً استعفیٰ دے دیتا ہے کہ اس کی دیانتداری مشکوک ہوچکی ہے۔ کئی مثالیں ایسی بھی ہیں کہ بد عنوانی، دھوکہ دہی اور لوٹ مار کا الزام تو کجا، اگر کسی خاص مسئلے پر عوام کی رائے ملک کے سربراہ سے مختلف ہو جائے تو بھی اخلاقی طور پر وہ اقتدار سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی ہے، جب یورپین یونین کے مسئلہ پر ریفرنڈم پر عوامی رائے حکومتی خواہش کے برعکس آئی تو بغیر کسی کے کہے وہ یہ کہتے ہوئے مستعفی ہو گئے کہ قوم کو نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ مگر ایسی جمہوریت اور ایسی اخلاقی اقدار کا مظاہرہ ایسے ممالک میں ہی ہو سکتا ہے جہاں عوام با شعور ہوں اور عوام کے نمائندے اخلاقی روایات کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دیں۔

یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں یہ کہا جاتاہے کہ عوامی نمائندوں کا احتساب صرف عوام کر سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز بات کوئی اورنہیں ہو سکتی۔

پہلی بات تو یہ کہ اس بات کا فیصلہ کیا ایک ملزم یا مجرم کرے گا کہ اس کے الزام یا جرم کو کہاں پرکھا جائے؟ پھر عوامی احتساب کا کیا یہ مطلب ہے کہ جب تک کسی کو عوام کی حمایت حاصل ہے وہ تب تک قتل کرتا رہے، ڈاکے ڈالتا رہے اورلوگوں کی عزت سے کھلواڑ کرتا رہے، اسے سزا نہیں دی جا سکتی؟ یا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ایسے مجرم کو عوام کے سپرد کر دیا جائے اور عوام کو اختیار ہو کہ وہ جو چاہے سلوک اس کے ساتھ کریں، چاہے اسے گلیوں میں گھسیٹیں، اسے کھمبے پر لٹکائیں یا منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھائیں اور گلیوں میں گھمائیں؟

دوسری بات کہ احتساب کا کام اگر عوام نے کرنا ہے توملک کے اتنے بڑے بڑے ادارے جن میں لاکھوں کے تعداد میں لوگ کام کرتے ہیں اور اربوں روپے ہر سال ہڑپ کرتے ہیں، جیسے عدالتیں، پولیس، نیب، محکمہ مال، دہشت گردی کی عدالتیں، محکہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن وغیرہ وغیرہ ان کو ختم کر دینا چاہیے اور عوام کواحتساب کا علی الاعلان یہ حق دے دینا چاہیے۔ ایسے میں چند سال قبل سیالکوٹ میں دو بھایئوں کو مار مار کر جان سے مار دینے جیسے واقعات رونماء ہوں گے۔ اگر عوام کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ یہ فیصلہ بھی کریں کہ مجرم کون ہے اور سزا دینے کا حق بھی انہیں حاصل ہے تو پھر ممتاز قادری کی طرح ہر کوئی اپنی عدالت لگالے گا۔ ایسے میں نہ کوئی قانون باقی رہے گا، نہ انصاف، نا امن۔ گو یہ چیزیں پہلے ہی معاشرے میں کم ہیں، مگر اگر اس بیانیے کو مان لیا جائےاور اپنا لیا جائے تو جنگل سے بھی بد تر حالات ہو جائیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے کسی قانون کا یہ تقاضا نہیں کہ جب تک عوام کی اکثریت کسی کے جرم کی گواہی نہ دے تب تک اسے مجرم نہیں سمجھا جا سکتا اور اسے سزا نہیں دی جا سکتی۔ بلکہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر چند لوگ کسی کے جرم کی گواہی دے دیں تو اسے مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا دی جاتی ہے۔ جبکہ اسلام کا قانونِ شہادت تو یہ کہتا ہے کہ اگر دو عاقل بالغ افراد (جن کا جھوٹا ہونا ثابت نہ ہو) کسی کے جرم کی گواہی دے دیں تو اس پر جرم ثابت ہو جاتا ہے اور سزا ہو جاتی ہے۔

لہٰذا کسی بھی قاعدے اور قانون کے تحت یہ دعویٰ کہ عوام ہی احتساب کر سکتے ہیں، بوگس، بودہ اور فضول ہے۔ یہ صرف اور صرف مکر اور دھوکہ دہی سے خود کوکسی بھی قانون سے بالاتر رکھ کر اپنے آپ کو، خاندان کو، لوٹے ہوئےمال کو اور اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش ہے۔

دوسری طرف پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی جے آئی ٹی کسی دباو، کسی لالچ اور کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئی اور اس نے تاریخی رپورٹ مرتب کی ہے۔ جبکہ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ اسے ہر طرح کی دھمکیاں دی گئیں۔ ہوتا تو یہ آیا ہے کہ جتنے کمیشن، جتنی جے آئی ٹی بنیں ان کی رپورٹ اگر حکمرانِ وقت کی منشا ء کے مطابق آئیں تب پبلک ہوتی رہیں اور اگر اس کے برعکس ہویئں توکبھی اسے شائع ہی نہی ہونے دیا گیا۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی اور حالیہ مثال سانحہ ماڈل ٹاون پر بنائے جانے والے ایک رکنی کمیشن کی رپورٹ ہے، جسے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کہا جاتا ہے، جس میں اس قتل عام کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا گیا، مگر اسے پبلک نہیں کیا گیا بلکہ اسے پبلک کرنے کی بجائے ایک اور جے آئی ٹی بنا دی گئی، جس کے اختلافی نوٹ تو نہ عام کیے گیے مگر حکومتی مطلب سے مطابقت رکھنے والے حصے کو فوراً پبلک کر دیا گیا۔

اگرچہ حتمی طور پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ پانامہ کیس پر آخری فیصلہ کیا آتا ہے؟ اس پر عمل درآمد کیسے؟ کہاں تک؟ اور کب ہوتا ہے؟ اس پر عوام کا رد عمل کیا کیا ہوگا؟ سیاسی پارٹیاں کیسے اور کونسا راستہ اختیار کرتی ہیں؟ حکومتی رد عمل، عوامی احتساب کے بے تکے نعرے کے علاوہ کیا آتا ہے؟ مگر اس جے آئی ٹی کی رپورٹ بارش کا پہلا قطرہ ہے! ہو سکتا ہے اس کے بعداب اس ملک پر ابرِ کرم برس پڑے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).