الفاظ کی طاقت سے فائدہ اٹھائیں


اگر آپ کو یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں‌ جاب حاصل کرنی ہو تو وہاں‌ جا کر یہ بتانا ہو گا کہ پہلے سے ان کے سسٹم میں‌ کیا کیا خرابی ہے اور آپ کے پاس کون سا ہنر یا معلومات ہیں جن سے آپ ان کی یونیورسٹی کو پہلے سے بہتر بنانے میں‌ مدد کریں گے۔ اگر آپ کو دیسی نوکری یا دوستی چاہیے ہو یا قائم رکھنی ہو تو ڈیٹا توڑ موڑ کر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ادارے یا وہ لوگ پہلے سے کتنے اچھے ہیں۔ ساتھ میں‌ ایک مرغی بھی رشوت میں‌ دینی ہو گی۔ یہ صرف مذاق نہیں، ایک ریٹائرڈ فرد نے مجھے یہ سچ میں‌ بتایا تھا کہ انہوں‌ نے بہت سال پہلے رشوت میں‌ مرغی دے کر ٹیلیفون کے ادارے میں جاب لی تھی۔

دوسری یہ انتہائی کوفت دینے والی بات یہ ہے کہ تاریخی اور زندہ انسانوں کی لانڈری مشین میں‌ ڈال کر گرم پانی میں‌ بلیچ اور ڈٹرجنٹ کے ساتھ خوب اچھی طرح سے دھلائی کرکے، ان کو سکھا کر پھر استری کر کے کلف لگا کر ایک تصویر کی طرح دیوار میں‌ ٹانگ دیتے ہیں اور ان پر پھول بھی چڑھاتے ہیں۔ حالانکہ اصلی زندگی میں‌ انسان گرتے ہیں، سنبھلتے ہیں، غلطیاں کرتے ہیں، ان سے سیکھتے ہیں، پھر اور غلطیاں کرتے ہیں، کپڑے جھاڑ کر، زخم چاٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر سے میدان میں‌ اترتے ہیں۔ ایڈیٹڈ تاریخی اور حالیہ مینٹورز (گرو) سے نہ تو کوئی انسان تعلق محسوس کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کی زندگی سے کچھ سبق سیکھ سکتا ہے۔ ان سے صرف ایک ہی سبق ملتا ہے اور وہ یہ کہ آپ خود کبھی اپنی زندگی اور دنیا میں کچھ نہیں بن پائیں گے۔ مینٹور ہونے کے لئے کسی بھی انسان کا پرفیکٹ ہونا ضروری نہیں ہے۔ دنیا جتنی تیزی سے بدل رہی ہے اس میں‌ بہت زیادہ کامیاب پرانے پروفیسرز سے ہی نہیں‌ بلکہ کچھ سال پہلے گریجویٹ ہوئے لوگوں‌ سے سیکھا جا سکتا ہے۔ ان کو زیادہ پتا ہوتا ہے کہ آج کل ان کی فیلڈ میں‌ کیا حالات چل رہے ہیں۔ بیس پچیس سال سے پہلے کے لوگ عملاً تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان سے بردباری سیکھی جاسکتی ہے۔

میرے ایک مریض کیتھولک پادری ہیں۔ جب نیلسن منڈیلا زندہ تھے تو ان کی ساؤتھ افریقہ میں‌ فاؤنڈیشن کو ای میل بھیجی تھی کہ میں‌ اپنے بچوں‌ کے ساتھ ان سے ملنے آنا چاہتی ہوں کیونکہ دنیا میں زندہ لیجنڈ صرف چند ہی ہیں۔ جواب آیا تھا کہ نیلسن منڈیلا کی طبعیت ٹھیک نہیں‌ ہے اور اب وہ پبلک میٹنگز نہیں‌ کرتے۔ جب وہ مرگئے تو ان کیتھولک پریسٹ نے اپنے چرچ میں‌ ان کے بارے میں‌ سرمن دیا تھا۔ میں‌ نے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنا سرمن مجھے ای میل کریں‌ کیونکہ میں‌ پڑھنا چاہتی تھی کہ انہوں نے نیلسن منڈیلا کے بارے میں‌ کیا کہا۔ اس سرمن کو پڑھنے سے مجھے نیلسن منڈیلا کی زندگی سے متعلق کافی کچھ پتا چلا یہ بھی کہ نیلسن منڈیلا کا ایک ناجائز بچہ تھا۔ اگر نیلسن منڈیلا کے سر میں پتھر مار کر ہم انہیں جان سے ماردیتے تو انہوں‌ نے نیلسن منڈیلا کیسے بننا تھا؟ کیا اس بات کو ان کے تاریخی ریکارڈ میں سے حذف کردیا جانا چاہیے؟ اگر ایسا کریں گے تو کیا نقصان ہوگا؟ نقصان بڑا ہوگا وہ یہ کہ کسی کو وہ سیڑھی یا اس کے قدم نظر نہیں آئیں گے جس سے ایک عام انسان نیلسن منڈیلا میں بدل جاتا ہے اور یہ کہ کس طرح‌ زندگی سے سیکھنا ہے اور منزل تک پہنچنا ہے۔

چینی کہاوت ہے کہ بغیر سوچ کے سیکھنا محنت کا زیاں ہے اور سیکھے بغیر سوچنا ایک خطرناک کام ہے۔ آج میں بڑی خوش ہوں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنی دور ہمارے چانڈکا میڈیکل کالج سے جس کا اب نام بے نظیر بھٹو کے نام پر رکھ دیا گیا ہے، ایک جونیئر ڈاکٹر میرے ساتھ اینڈوکرنالوجی میں‌ روٹیشن کرنے پہنچ گیا۔ ہم لوگ ایک میٹنگ میں‌ گئے تو وہاں‌ اس نے کسی کے ایک سوال کے جواب میں‌ یہ کہا کہ پانچ سال پہلے میں‌ نے ان تین بہن بھائیوں‌ کو اسکائپ پر چھ مہینے اینڈوکرنالوجی پڑھائی تھی جو کہ سچ ہے۔ اس کے بعد میرے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس نے سارے یو ایس ایم ایل ای بھی کرلئے اور اب اینڈوکرنالوجسٹ بننے کا ارادہ ہے۔ یہ بات مجھے معلوم نہیں‌ تھی۔ یہاں تک پہنچنا ایک کافی لمبا چوڑا، خرچے کا اور بہت ساری پڑھائی کا کام ہے اس لئے ناقابل یقین ہے کہ اس نے واقعی میں‌ کرلیا۔ اسی لئے ویک اینڈ پر بیٹھ کر یہ مضمون لکھ رہی ہوں‌ کہ شاید اور لوگوں‌ کو بھی تحریک ملے۔

اینڈوکرنالوجی کا فوکس پریوینٹو میڈیسن پر ہے یعنی خطرناک بیماریوں کو ہونے سے کیسے بچایا جائے۔ یہ فیلڈ ان جگہوں‌ پر اور بھی اہم ہے جہاں‌ کافی ساری سہولیات موجود نہیں‌ ہیں۔ جونیئر ڈاکٹر کے اچھے خیالات ہیں جن میں‌ سے ایک یہ ہے کہ اسکولوں میں‌ بچوں‌ کو ریڈنگ، میتھ اور سائنس کے علاوہ اصلی دنیا کے بارے میں‌ بھی سکھایا جانا چاہیے۔ ان کو اپنے ملک کے بنیادی قوانین، صفائی ستھرائی اور ویکسین وغیرہ سے متعلق بھی معلومات دی جائیں تاکہ وہ خود کو انفیکشن ہونے سے بچا سکیں اور ان کو زندگی گزارنے کی پریکٹیکل نالج ہو۔ قوم پرستی یہ نہیں‌ ہے کہ جھنڈے لہرائیں اور نعرے لگائیں۔ جونیئر ڈاکٹر کے مطابق قوم پرستی یہ ہے کہ آپ اپنا کام اچھے طریقے سے کریں اور اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اپنے ملک سے محبت کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ملکوں سے یا ان دوسرے ملکوں‌ کے لوگوں سے نفرت کی جائے۔

جب اینڈوکرنالوجی میں فیلوشپ ختم کی تو اس وقت میرا دل اس جذبے سے بھرا ہوا تھا کہ ساری دنیا کی ساری ذیابیطس مٹا دی جائے اور سارا موٹاپا ٹھیک کردیا جائے اور سارے میڈیکل اسٹوڈنٹس کو اینڈوکرنالوجی سکھادی جائے۔ اس لئے پاکستان کے کئی میڈیکل کالجوں‌ میں‌ ای میل بھیجے کہ اسکائپ کے ذریعے آن لائن لیکچرز آرگنائز کریں۔ شوکت خانم ہسپتال والوں نے یہ کام کیا اور وہاں‌ ایک سال پڑھایا۔ جب وہاں صبح کے آٹھ بجے ہوتے تھے تو اوکلاہوما میں‌ ڈے لائٹ سیونگ کے حساب سے رات کے نو یا دس۔ کافی سارے اور بھی کالجز کو کئی ای میل کیں لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں‌ آیا، حالانکہ ان سے فیس بھی نہیں‌ مانگی تھی۔ اب دنیا جس طرح‌ انٹرنیٹ سے رابطے میں‌ ہے، اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

کچھ دن پہلے ایک خاتون کا آرٹیکل پڑھا جس سے مجھے افسوس ہوا کہ ان کے جیسی ایک لائق اسٹوڈنٹ کی میڈیکل سیٹ وزیراعظم کی بیٹی کو دے دی گئی تھی۔ ایسا کرنے سے معاشرے کو بہت گہرا نقصان پہنچتا ہے۔ اس طرح ایسے لوگ ان جابز پر پہنچ جاتے ہیں جن کو اپنے کام میں‌ دلچسپی نہیں ہوتی۔ حالانکہ ہمارا کیریر ہمارا جنون ہونا چاہیے۔ یہ ان لوگوں‌ کے ساتھ بھی نا انصافی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور شعبے میں‌ زیادہ خوش رہتے۔ اس طرح‌ کے لیڈر دنیا کے سامنے کھڑے ہوکر آپ کے ملک کے لئے فائدہ مند معاہدے نہیں کرسکتے۔ ان میں ریڑھ کی ہڈی نہیں‌ ہوتی۔ ملالہ یوسفزئی کی طرح‌ کے لیڈر چنیے جن کو اپنے مقصد سے لگاؤ ہے۔ ڈاکٹر نائلہ خان کی طرح‌ کے لیڈر چنیے جو دن کے سولہ گھنٹے کتابیں پڑھنے، لکھنے اور لیکچرز دینے پر خرچ کرتی ہیں۔ جتنا ان کو اپنے سبجیکٹ کے بارے میں‌ معلوم ہے کسی اور کو نہیں‌ ہوگا۔ اس لئے جو بھی آکر ہمارا دروازہ بجائے اور اس کو مدد کی ضرورت ہو تو ہمارا پیشہ ورانہ فرض بنتا ہے کہ اس کی مدد کریں کیونکہ دنیا کو آگے بڑھانے کا یہی راستہ ہے۔ ضروری نہیں‌ ہے کہ صرف اپنے چچا کے پھوپھا کی دادی کی سوتیلی بہن کے داماد کو ہی نوکری یا داخلہ دینا ہے۔

ایک پرانا لطیفہ ہے کہ جہنم میں‌ ہر ملک کا ایک گڑھا تھا۔ ہر گڑھے کے اوپر ایک فرشتہ کھڑا تھا۔ جیسے ہی کوئی اس میں سے نکلنے کی کوشش کرتا تو وہ اس کو دھکا مار کر واپس گرا دیتے تھے۔ صرف پاکستان کے گڑھے پر کوئی فرشتہ نہیں‌ تھا کیونکہ جیسے ہی کوئی اس میں سے نکلنے کی کوشش کرتا تو دوسرے اس کو واپس کھینچ لیتے تھے۔

ایک اور بات جس کا میں‌ نے مشاہدہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کی تعریف کریں‌ تو وہ کہتے ہیں ہم کسی لائق نہیں۔ یہ صحیح نہیں‌ ہے جس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ خود اعتمادی ضروری ہے۔ کون سا آدمی یہ سن کر اچھا محسوس کرے گا کہ اس کا سرجن کہے کہ میں‌ کسی لائق نہیں۔ وہ سوچیں گے کہ ہم بے ہوش ہو کر آپ کو اپنی گردن کاٹ کر تھائرائڈ نکالنے دے رہے ہیں تو اتنا اعتبار تو ہونا چاہیے کہ آپ کسی لائق ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب ہم اپنی تعریف قبول نہیں‌ کرتے تو ہمارے اندر اپنی تنقید قبول کرنے کی ہمت بھی پیدا نہیں‌ ہوپائے گی۔ اس طرح‌ لوگ اپنی ذمہ داریوں‌ سے مبرا ہوجاتے ہیں۔ اس لئے جب کوئی تعریف کرے تو اس کو جواب میں صرف شکریہ کہنا چاہیے۔

2013 میں‌ ایک ساؤتھ انڈین اوکلاہوما یونیورسٹی کا انجینئرنگ اسٹوڈنٹ میرے آفس میں‌ آیا اور اس نے کہا کہ وہ اپنے ماسٹرز کے تھیسس کے لئے ذیابیطس کے موضوع پر اپنا پراجیکٹ ڈیزائن کرنا چاہتا ہے۔ عالمی سطح پر لوگوں کا ساتھ میں‌ چلنا ضروری ہے۔ انڈین کو پتھر مار کر نہیں بھگانا ہے، ساتھ میں‌ کام کرنا ہے۔ اگر ارچنا کو اینڈوکرنالوجی کا سوال پوچھنا ہو تو مجھے ٹیکسٹ کرے گی، اگر مجھے کارڈیالوجی کا سوال پوچھنا ہو تو میں‌ اس سے پوچھوں‌ گی۔ جس وقت پاکستان میں‌ امریکن اسوسی ایشن آف کلینکل اینڈوکرنالوجسٹس کی برانچ نہیں تھی اور انڈیا اور بنگلہ دیش میں تھی تو ان کے پریزیٹنٹس سے اس بارے میں‌ سوال پوچھنے کے لئے ای میل بھیجے تھے اور انہوں‌ نے اچھے مشورے دیے تھے۔ ذیابیطس کی تعلیم کے لئے وڈیو گیمز بنانے پر نوبل پرائز مل چکا ہے۔

یہ وڈیو گیم نوبل پرائز کی ویب سائٹ پر آسانی سے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ اس میں‌ ایک ورچول (تصوراتی) کتا پالتے ہیں۔ سیدھے ہاتھ کی طرف ایک میٹر بنا ہوا ہے جو بلڈ شوگر دکھاتا ہے۔ مختلف ایکٹیوٹیز سے خون میں‌ شوگر کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ جیسے کتے کو واک کرائیں تو شوگر کم ہوجائے گی، اس کو انسولین کا ٹیکا لگائیں تو شوگر کم ہوجائے گی۔ اس کو کھانا کھلائیں تو شوگر بڑھے گی۔ ساؤتھ انڈین انجینئرنگ اسٹوڈنٹ نے یہ تھیوری پیش کی کہ ذیابیطس کے وڈیو گیمز کھیلنے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے بالغ افراد میں ذیابیطس سے متعلق معلومات اور سمجھ میں‌ اضافہ ہوگا۔ یہ ریسرچ ایک لمبا چوڑا پروسیس تھا جس میں پہلے انٹرنل رویو بورڈ سے اجازت لی گئی، پھر مریضوں سے راضی نامہ لیا گیا، ان سے پہلے اور بعد میں‌ ذیابیطس سے متعلق سوال پوچھے گئے تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ کیا اس وڈیو گیم کو کھیلنے سے ان میں ذیابیطس سے متعلق سوجھ بوجھ میں‌ اضافہ ہوا یا نہیں۔ اس پراجیکٹ کو نارمن اینڈوکرنالوجی کلینک کی سو فیصد سپورٹ حاصل تھی۔ اس نے بہت محنت سے کام کیا اور میرے لئے اس کی تھیسس پر دستخط کرنا ایک فخر کا لمحہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).