نامور ادیبوں کی کرکٹ کمنٹری سے جڑی یادیں (2)


فیض احمد فیض سے ایک انٹرویو میں ریڈیو اور ٹی وی پروگراموں کے بارے میں رائے مانگی گئی تو ان نے جواب دیا کہ وہ صرف میچ کی کمنٹری سنتے ہیں یا میچ دیکھتے ہیں۔ معروف ادیب اسلم فرخی نے ایک خاکہ میں اس زمانے کا ذکرکیا ہے جب کرکٹ کمنٹری ہوتی تو لوگ کام چھوڑ کر ریڈیو سننے میں محو ہوجاتے۔ انھوں نے اپنی والدہ کے بارے میں بتایا ہے جو انگریزی سے جانکاری نہ ہونے کے باوجود کمنٹری کی پرشوق سامع تھیں۔ ایک روز اسلم فرخی نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کمنٹری میں کیا مزہ آتا ہے تو وہ بولیں ’’ جب چوکا اور چھکا لگتا ہے اور کمنٹری والا چیختا ہے تو بڑی خوشی ہوتی ہے اور پھر اس سے گھر میں رونق بھی رہتی ہے۔‘‘

اسلم فرخی

ممتاز ادیب انتظار حسین نے لکھا ہے کہ کرکٹ کی دیوانی خلقت انگریزی سے واقفیت نہ ہونے کے باوجود ریڈیو سے کان لگائے بیٹھی رہتی جبکہ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتا تھا کہ عمرقریشی انگریزی میں کیا بگھار رہے ہیں۔ انھوں نے لاہور میں ادبی سرگرمیوں کے گڑھ پاک ٹی ہاؤس میں کمنٹری کی مقبولیت کے بارے میں بھی بتایا۔

عمر قریشی اور جمشید مارکر

’’ یہ پاکستان کرکٹ کے اولین دور کا ذکر ہے ۔ ٹیلی ویژن ابھی نمودار نہیں ہوا تھا۔ میچ کے دم بہ دم کا احوال جاننے کا ذریعہ ریڈیو تھا ۔ سو ان میچوں کے سلسلہ میں خاص وعام میں اشتیاق اتنا تھا کہ جب کرکٹ کا کوئی بڑا معرکہ پڑتا، ہندوستان کے ساتھ یا انگلستان کے ساتھ ٹی ہاؤس کے کاؤنٹر پر ریڈیو سیٹ رکھا نظر آتا ۔جب ریڈیو پر ایک دم سے شور اٹھتا تو میزوں پر بیٹھے ادیبوں کے کان کھڑے ہوتے تو ادبی بحث پیچھے رہ جاتی، تجسس ہوتا کہ فیلڈ میں کیا واقعہ گزرا۔ ‘‘

INTEZAR HUSSAIN AND QAYYAUM NAZAR

ٹی ہاؤس کا ذکر ہوا ہے تو لگے ہاتھوں قیوم نظر کی بات ہو جائے جو اس ادبی ڈیرے کے مستقل حاضر باش تھے۔ کرکٹ سے ان کو لگاؤ تھا۔ اردو کمنٹری کے وہ بانی ہیں ۔ یہ بات ستر کی دھائی کی ہے، جب ان کو بطور کمنٹیٹر آزمائشی طور پر ذمہ داری دی گئی ۔ انھوں نے کرکٹ کی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا، جس کا سننے والوں ہی نے نہیں، ان کے شاعر ادیب دوستوں نے بھی ٹھٹھا اڑایا۔ انتظار حسین کے بقول، ان کی تراشی ہوئی اصطلاحیں ٹی ہاؤس میں یاروں کے لیے لطیفہ بازی کا بہانہ بن گئیں۔

ان اصطلاحات کے اردو ترجمہ کی خبر پروفیسر صابر لودھی کے اپنے استاد قیوم نظر پر خاکے میں ملتی ہیں۔ ان کے بقول’’ ۔۔۔گیند گھوم کر اندر کی طرف نکلی اور کیلیاں اڑ گئیں۔ گیند انداز تن کے چل رہا ہے۔ گیند کو سیدھی پھرت (Off break) کرا رہا ہے۔ کبھی کبھی الٹی پھرت  (leg break) سے کام لیتا ہے۔ چندر شیکھر کی فریبی پھرت (googly) نا قابل فہم ہے۔ ماجد جہانگیر نے ایسی ضرب لگائی کہ گھاس ابھی تک سلگ رہی ہے، گیند بلے کی جنگ جاری ہے۔ خواتین نے سویٹر بن لیے ہیں، وقار آؤٹ ہوتا نظر نہیں آتا۔۔۔ میچ گھسٹتا رہے گا، فیصلہ نہیں ہو پائے گا۔ لوگوں نے ملے جلے جذبات کے ساتھ کمنٹری سنی، اخباروں نے برا بھلا بھی کہا لیکن وہ تو ازل سے تجربے کرنے آئے تھے۔ ‘‘

قیوم نظر اردو کمنٹری کے بنیاد گزار ہیں، لیکن اردو کمنٹری کی دیوار صحیح معنوں میں منیر حسین نے اٹھائی۔ اردو کمنٹری کے اصل دلہا وہی ہیں۔ انگریزی کمنٹری کے مقابلے میں اردو کمنٹری زیادہ بلند آہنگ اور جذباتی رنگ لئے ہوئے تھی ۔عام آدمی کے لیے معلومات سے بڑھ کر یہ اب کھیل کا تجزیہ جاننے کا ذریعہ بنی۔ یہ بات کہی جاتی ہے کہ ضیا دور میں کرکٹ کی سرکاری سرپرستی میں اضافہ ہوا اورپہلے سے مقبول اس کھیل کو اور بھی زیادہ مقبول بنانے کی پالیسی بنائی گئی، جس کی کامیابی میں اردو کمنٹری کا بھی ہاتھ تھا۔ ضیا عہد میں ہندوستان کے ساتھ کرکٹ بحال ہوئی، سترہ سال بعد دونوں ٹیموں نے ٹیسٹ میچ کھیلا۔ ہندوستان کی ٹیم نے 23 برس بعد پاکستان کا دورہ کیا۔ دلچسپ بات ہے کہ اس دور میں پاکستان اور ہندوستان کی کرکٹ ٹیمیں پانچ دفعہ ٹیسٹ سیریز میں آمنے سامنے ہوئیں۔

کرکٹ کمنٹری کے موضوع پر مزاح نگاروں نے بھی قلم اٹھایا۔ شوکت تھانوی نے کرکٹ پر اپنے مضمون میں پرلطف پیرائے میں کمنٹری کے جنون کا نقشہ کھینچا ہے ۔ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو:

’’ احسان نے حیرت سے کہا۔

مگر آپ کرکٹ سے اس قدر بیزار ہیں۔ یہ بیزار ی پہلے تو نہ تھی۔

میں نے اس بیزاری کی بپتا سناتے ہوئے کہا۔

’’ میں کرکٹ سے بیزار تھا نہیں مگر مجھ کو بیزار کیا گیا ہے اور اب تو میرا یہ حال ہے کہ واقعی وحشت ہونے لگی ہے، اس ذکر سے ۔ ان کو جانتے ہو مولوی عبدالرحمان صاحب قبلہ کو کس قدر نورانی بزرگ ہیں اور کتنا ادب کرتا تھا میں ان کا، مگر بخدا نفرت ہو کر رہ گئی ان سے بھی۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ریڈیو کے سامنے بیٹھے وجد میں مبتلا ہیں۔ میں سمجھا کہ صاحب کیف بزرگ تو ہیں ہی غالباً ریڈیو پر قوالی ہو رہی ہے اور مولوی صاحب اس کیفیت میں مبتلا ہیں مگر قریب جا کر معلوم ہوا کہ ریڈیو پر کرکٹ کی کمنٹری ہو رہی ہے۔ بھلا بتایئے ان کا کیا تعلق کرکٹ سے مگر میں کیا بتاؤں کہ کس خضوع و خشوع سے کمنٹری سن سن کر جھوم رہے تھے اور کس طرح لہرالہرا کر جزاک اللہ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے۔

بھئی جواب نہیں ہے، اس بچے کا خدا اس کی عمر میں برکت دے۔

پاکستان کی بات رکھ لی میاں حنیف سلمہٰ نے۔ ‘‘

اور یکایک کمنٹیٹر نے یہ مژدہ سنایا کہ حنیف کی سنچری ہو گئی ہے۔ یہ سنتے ہی مولوی صاحب سجدہ شکر میں اس طرح گرے کہ میں مایوس ہو کر وہاں سے رخصت بھی ہو گیا مگر ان کا سر سجدے سے نہ اٹھ سکا۔‘‘

ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے ’’ چراغ تلے ‘‘ میں کمنٹری کے بخار کا ذکر مندرجہ ذیل پیرائے میں کیا ہے۔:

’’ ٹیسٹ میچ کے ہنگامہ پرور زمانے کا ذکر ہے۔ شہر کی آبادی دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ایک حصہ کہ

جس میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں

اپنے اپنے گھروں میں بیٹھا ریڈیو کمنٹری سن رہا تھا، دوسرا انبوہ ان سفید پوشوں پر مشتمل تھا، جو عزت کی خاطر اپنی اپنی چھتوں پر خالی ایریل لگا کر خود ایرانی ہوٹلوں اور پان کی دکانوں کے سامنے کھڑے کمنٹری سن رہے تھے۔ ‘‘

masood mufti

معروف فکشن نگارمسعود مفتی نے مزاح کم لکھا لیکن جتنا لکھا بہت اعلیٰ پائے کا ہے، وہ اگرادھر اور بھی توجہ کرتے تو مزاح نگاروں میں نمایاں مقام حاصل کر لیتے۔ کرکٹ کے بارے میں ان کے مضمون میں جو ان کی کتاب ’’ سر راہے‘‘ میں شامل ہے اس میں کرکٹ کمنٹری سے متعلق یہ پرلطف ٹکڑا ہے۔:

’’ تلاش گمشدہ

برخوردار! طالب علم خان گھر واپس آجاؤ

تمھارے والدین

اب تمھیں ہر وقت کمنٹری سننے سے منع نہیں کریں گیے

اور نہ ہی ٹیسٹ کے دنوں میں تمھیں سکول جانے یا گھر پر پڑھنے پر مجبور کریں گے۔ تمھارے بہن بھائی

بہت اداس ہیں ۔

تمھارا دوست کلو، اب بھی ٹرانزسٹر ریڈیو لے کر تمھارا پوچھنے آتا ہے۔‘‘

معروف فکاہیہ شاعر ضمیر جعفری کو کرکٹ سے دلچسپی تھی، اس کھیل کے بارے میں ان کی چند مزاحیہ نظمیں بھی ہیں۔ ان کی ڈائریوں میں کرکٹ کا حوالہ ملتا ہے،ایک جگہ تو کمنٹری کے بخار میں مبتلا ہونے کی بات بھی ہے ۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے دورہ انگلینڈ میں تیسرے ٹیسٹ کے بارے میں انھوں نے لکھا:

’’ انگلستان میں کل سے ہماری کرکٹ ٹیم کا تیسرا ٹیسٹ شروع ہے۔ موسم اچھا نہیں ۔ انگلستان کھیل رہا ہے۔ چھ کھلاڑی آؤٹ ہوچکے ہیں کسی نے سینکڑہ نہیں بنایا۔ پوری قوم ریڈیو سے لگی بیٹھی ہے۔ ہماری ’’ کومنٹری سبھا ‘‘ احسن صاحب کے شورز ہوٹل میں بھی ہے۔ میچ کے خاتمے تک نہ جانے ہم لوگ کتنے سیر مونگ پھلی کے مغز ٹھونگ جائیں اور کتنے گیلن چائے پی جائیں۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).