کیا سنسر شپ سے بھٹو کا نام تاریخ سے مٹ گیا؟


پاکستان میں سنسر کی تاریخ ہماری قومی تاریخ جتنی ہی پرانی ہے۔ قائد اعظم کی تقریر اخبار میں سنسر کرنے کی کوشش ہوئی۔ فاطمہ جناح کی ریڈیو پر تقریر سنسر ہونے پر خاصا شور مچا۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ماضی کی سیاسی شخصیات پر بات کریں تو ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ سنسر کی زد میں کوئی سیاست دان نہیں آیا۔ ضیا الحق کے لیے بھٹو کا نام چھیڑ بن گیا تھا، اس لیے ان کے نام کی اشاعت اور اس کا زبان سے نکلنا ممنوع ٹھہرا۔ نامور صحافی محمد ضیاء الدین نے ایک انٹرویو میں ضیا مارشل لا کے بعد کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ”بھٹو صاحب کا نام اخبارات میں چھپ نہیں سکتا تھا تصویر تو دور کی بات ہے۔“

یہ تو تھی اخبارات کی صورت حال۔ ریڈیو کا حال اس سے بھی پتلا تھا۔ ممتاز ادیب انتظار حسین نے ’چراغوں کا دھواں‘ میں لکھا ہے کہ ایک ریڈیو کالم میں موسم کے میووں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہیں بھٹوں کا ذکر بھی کر دیا۔ اس سے جو مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوئی اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : ”ریڈیو کے باریک بینوں کے سامع نے درمیان سے نون غنہ غائب کر دیا۔ اوپر رپورٹ پہنچائی کہ فلاں پروگرام میں ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس پروڈیوسر غریب کی کمبختی آ گئی۔ اس نے ہزار صفائی پیش کی کہ ذکر بھٹو کا نہیں بھٹوں کا تھا۔ افسران اعلیٰ قائل نہیں ہوئے۔ مشکل سے جان بخشی ہوئی مگر اس سزا کے ساتھ کہ وہ پروگرام اس سے لے لیا گیا۔“

اب ایک مثال پی ٹی وی کی بھی پڑھ لیجیے۔ پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم کی کتاب ’ہم بھی وہاں موجود تھے‘ میں سنسر کے بارے میں بہت سی کہانیوں ہیں۔ ان میں سے ایک میں وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح سندھی ڈرامے میں سچویشن کو بھٹو کے مقدمۂ قتل اور ضیا ءالحق سے سزا معاف کرنے کے مطالبے کی وجہ سے مماثل قرار دے کر ڈرامے کو ناقابل نشر ٹھہرایا گیا۔ خانہ پری کے لیے طے ہوا کہ رات کو خمیسو خان کا الغوزہ سنا دیا جائے۔ خمیسو خان نے پندرہ بیس منٹ فن کا مظاہرہ کیا جس کے بعد پروگرام کا میزبان ان سے پوچھ بیٹھا :

” زندگی کیسی گزر رہی ہے اور کیا بچوں میں سے بھی کسی کا اس میدان میں آنے کا خیال ہے؟“
اس سوال کا جو جواب خمیسو خان نے دیا، اس سے پی ٹی وی والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے۔

” بچے تو اس میدان میں نہیں ہیں وہ تو ٹرک چلاتے ہیں۔ اللہ، بھٹو سائیں کا بھلا کرے جو غریب کا خیال کرتا ہے۔ اس کے دیے ہوئے وظیفے سے گزارا ہوتا ہے۔ “

یہ جواب پی ٹی وی کے افسران بالا پر بجلی بن کر گرا اور بقول اختر وقار عظیم ”احتیاط دھری کی دھری رہ گئی، پروگرام چلانے والے سبھی لوگ معطل ہو گئے۔“

بھٹو کا نام حذف کرنے کی وبا میڈیا تک محدود نہیں رہی، کتاب بھی اس کی زد میں آئی۔ اس سلسلے کی ایک مثال بھی ہم پیش کرتے ہیں۔ اور یہ کتاب بھی کسی اور کی نہیں ممتاز فکشن نگار قرۃ العین حیدر کی تھی۔

کچھ عرصہ پہلے ادبی جریدے سائبان (لاہور) میں قرۃ العین حیدر کا انٹرویو پڑھا جو معروف شاعر اور ادیب حسین مجروح نے 1999 میں کراچی میں کیا تھا۔ اس میں انہوں نے بتایا:

” کشمیر کے بارے میں میرا ایک رپورتاژ ہے ”خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے“۔ جن دنوں میں اس رپورتاژ کے سلسلے میں کشمیر میں تھی، بھٹو کو حال ہی میں پھانسی لگی تھی، اور سری نگر میں جا بہ جا اس کی تصویریں لگی ہوئی تھیں، جن پر لکھا تھا شہید اعظم، اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد، وغیرہ۔ میں نے اس رپورتاژ میں یہی کچھ لکھ دیا۔ یہ رپورتاژ جب پاکستان میں چھپا تو اس میں سے بھٹو کا نام نکال دیا گیا اور پبلشر نے خود سے ڈال دیا کہ کشمیر میں ضیا الحق کی بہت توقیر اور توصیف ہو رہی تھی۔“

حیرت کی بات ہے بھٹو کا نام حذف کرنے پر ہی اکتفا نہیں ہوا، کتاب میں پلے سے ضیا الحق کی تعریف بھی ڈال دی گئی۔ قرۃ العین حیدر کا انٹرویو پڑھنے کے بعد میں نے انڈین ایڈیشن سے ان کے رپورتاژ کی اصل عبارت اور پاکستانی ایڈیشن کی تحریف شدہ عبارت تلاش کی اور اسے ملا کر دیکھا کہ ڈنڈی کیسے ماری گئی ہے۔

قرۃ العین حیدر نے لکھا تھا:

” سری نگر اور وادیٔ کشمیر کے شہروں اور قصبوں کی دکانوں میں جگہ جگہ ذوالفقار علی بھٹو کی تصاویر نمایاں جگہوں پر آویزاں ہیں۔ گوٹے کے ہاروں سے مزین۔“

اب پاکستانی ایڈیشن میں ہیرا پھیری ملاحظہ کریں :

”سری نگر اور ساری وادیٔ کشمیر کے شہروں اور قصبوں کی دکانوں میں جگہ جگہ مقدس عمارات کی تصاویر اسی طرح نمایاں جگہوں پر آویزاں ہیں۔ گوٹے کے ہاروں سے مزین۔“

اس تحریف پر ہی ناشر نے بس نہیں کی اور ضیاالحق کی مدح میں یہ الفاظ اپنی طرف سے کتاب میں بڑھا دیے :
”جنرل ضیاءالحق اپنے ملک کے لیے بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔“

ذوالفقار علی بھٹو کی مثال سے یہ بتانا مقصود ہے کہ سنسر سے کسی مقبول رہنما کا نام عوام کے ذہنوں سے محو نہیں کیا جاسکتا بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کا الٹا اثر ہی ہوتا ہے۔

سنسر شپ سے معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے بڑے بڑے ادیبوں اور مفکروں نے اس کی طرف اپنی تحریروں میں اشارہ کیا ہے۔ ایک بڑی مثال ٹالسٹائی کی ہے جن کا یہ قول معروف نقاد وارث علوی نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہے : ”سوال یہ نہیں کہ سنسر اس چیز کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے جو میں نے لکھی ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ سنسر کے عمل کا اس چیز پر کیا اثر پڑتا ہے، جو میں لکھنے والا ہوں۔“

نامور ترقی پسند دانش ور سبط حسن کی کتاب ’مارکس اور مشرق‘ میں شامل سنسر کے بارے میں کارل مارکس کے اس قول پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں :

”سنسر شپ انسانی سرشت کی نفی ہے۔ سنسر شپ پریس کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ تم بیمار ہو اور حکومت تمھاری طبیب ہے مگر یہ طبیب وہ دیہاتی جراح ہے جس کے پاس ایک ہی آلہ ہے اور وہ ہے قینچی۔ یہ عطائی جراح انسان کے بدن کا ہر وہ حصہ کاٹ کر پھینک دیتا ہے جو اس کو برا لگتا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments