جاپان کا خیالی سفرنامہ


جیسے ہی جہاز جاپان میں اوساکا کے کئنسی ایئرپورٹ پر اُترا، تو ایئرو برج کے ذریعے ایئرپورٹ کے اندر چلی آئی۔ کئنسی ایئرپورٹ پر بین الاقوامی ایئرپورٹ گھریلو سے الگ بنائے جاتے ہیں۔ بہت ہی خوبصورت ایئرپورٹ تھا۔ ایکسیلیٹر کے ذریعے نیچے تک آئی سامنے ہی کاؤنٹروں کی قطار میں ایک کاؤنٹر پہ گڑیا ایسی جاپانی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے اخلاق سے میرے جاپان آنے کا مقصد پوچھا۔ میں اپنی پاکستانی خطرات سے مجبور ہوکے کہا، اصل میں میں ایک تحقیقی مقالہ، اگر ہیرو شیما پر ایٹم بم نہیں گرتا تو کیا ہوتا، لکھنے کے لیے حاضر ہوئی ہوئی۔

اس کی آنکھوں میں میرے لیے محبت اور عقیدت جاگ پڑی، یہ جاپان میں میرے لیے پہلی کامیابی تھی۔ وہاں سے فارغ ہوکے میں نے ایک ٹرالی اٹھائی سامنے ہی میرا بیگ پھرتا ہوا آرہا تھا۔ میں نے اسے دور سے پہچان لیا کہ اس میں ایک زنجیر باندہ کے ساتھ ہی اسٹیل کا گلاس بھی اٹیچ کردیا تھا۔ ایسا کرنے میں ایک تو بیگ کی پہچان مطلوب تھی، دوسرا اپنے کلچر کی جھلک دکھانا مقصود تھا۔

باہر نکلی تو دیکھا کتنے ہی لوگ اپنے اپنے مہمان کا نام لکھ کے پلے کارڈ لیے کھڑے تھے۔ میں سیدھی وہاں پہنچی جہاں ایک نوجوان خالی پلے کارڈ لیے کھڑا تھا۔ کیا بات ہے آپ نے اپنے پلے کارڈ پہ کوئی نام ہی نہیں لکھا۔ میں نے اس سے پوچھا او ہانو گوزائی ماش۔ اس نے مجھے گڈ مارننگ کہا تھا۔

مسکراتے ہوئے بولا آپ مجھے نام بتائیں گی لکھوں گا نا۔ اصل میں، میں ٹیکسی ڈرائیور ہوں جس کو کوئی نہیں لینے آتا اسے لینے جاتا ہوں۔ وہ تین دفعہ جھکا تھا اب مچی تین دفعہ جھکنے والا تھا کہ میں نے اسے بالوں سے پکڑ لیا۔ بار بار ایسا کروگے تو گردن میں بل پڑ جائے گا۔ وہ مجھے لے کے فورتھ فلور تک آیا ٹیکسی وہیں پارک تھی۔ اسی نے اپنا نام مچی بتایا تھا۔ میں حیران تھی کہ وہ جاپانی ہو کے مجھ سے سندھی میں بات کررہا تھا۔ پھر پتا چلا کہ اوساکا یونیورسٹی کے سندھی سیکشن سے پروفیسر مامیاکینسا کو سے سندھی زبان کا کورس کرچکا ہے۔ بھلا سندھی زبان سے دلچسپی کا راز کیا ہے؟ میں نے اس سے پوچھا۔ مجھے موھنجوداڑو سے بڑی محبت ہے، دل کرتا ہے کسی عید پر آکر اس اسٹوپا کے گرد اسکوٹر سے فراٹے بھروں۔

اب تو مجھے بھی اصلی سندھی لگنے لگا، جیسے ہی ہم باہر نکلے کالے کالے بادلوں سے جاپانی بوندا باندی ہونے لگی۔ یہ منظر فرحت بخش تھا۔ اوساکا کے ہرے جبل دیکھ کے مزے آرہے تھے۔ اوسا کا جاپان کا انڈسٹریل ایریا ہے۔ جیسے کراچی پاکستان کا اور ٹوکیو اسلام آباد کی طرح ہے۔ میں نے پھر سے کہا کہ مجھے امیدا لے کے چلے۔ یہ اوساکا کا اچھا علاقہ ہے۔ کار راستوں پر دوڑ رہی تھی۔ میرے دل پر جاپان کا رعب پڑگیا تھا۔ اس نے میرے بتائے ہوئے ہوٹل پہ لے جاکے چھوڑا تھا۔ یہ ہوٹل ہلٹن تھا۔

جب بھی کبھی خیالوں میں کوئی ملک گھومنے کو دل کرتا ہے تو میں ہلٹن ہوٹل کو ہی ترجیح دیتی ہوں۔ کمروں کے لاک ڈیجیٹل تھے کمرا نمبر 420 ملا تھا۔ فریش ہوکر باہر نکلی تو دیکھا روڈ پر سب ہی بڑے یا بچے جاپانی ہی تھے۔ روڈ پر رش تھا سامنے ہی ایک لڑکی جاپانی لباس کمونو پہنے ہاتھ میں پنکھا لیے جھلتی ہوئی تھرکتی ہوئی آرہی تھی۔ اس کے پیچھے پیچھے منور ظریف گاتا ہوا آرہا تھا۔

”الف سے اچھی گاف سے گڑیا جیم سے جاپانی لوٹ لیا ہے تونے ایک پاکستانی گڑیا جاپانی“۔

لوگ غور سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ میں گھومتی ہوئی اشی باشی ریلوے اسٹیشن تک جانکلی، میں اپنا ٹکٹ پنچ کرواکے قطار میں کھڑی ہوگئی۔ اف توبہ ہمارے جیسے یونھی روز روز قطار میں کھڑے ہوں تو شاید نفسیاتی مریض بن جائیں۔ پہلے ریل سے سب مسافر اترے پھر چڑھنے والے چڑھنے لگے۔ ہمار ے یہاں یہ دونوں کام ساتھ ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ریل چلنے لگی ہرے پہاڑ پیچھے دوڑنے لگے۔

اوسا کا کا مطلب ہی یہ ہے یعنی بڑا پہاڑ یا کھائی۔ جب منو پارک پہنچی تو لنچ کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ یہاں لنچ کا وقت مخصوص ہے۔ یعنی بارہ بج کر دس منٹ تک شروع کیا جاتا ہے۔ یہاں تو سرخ پھولوں کا سیلاب آیا ہوا تھا آبشار بہہ رہے تھے۔ وہیں پھر منور ظریف نظر آیا وہ اپنا ٹوپا اتار کر اشارے سے دل اس میں ڈال کر جاپانی لڑکی کو دے رہا تھا۔ پردیسی کا دل نہ توڑو یہ ہے تیری نادانی گڑیا جاپانی۔ دوسرے دن بھی مجھے مچی ناکانو شیما پارک لے گیا خوبصورت پارک تھا وہاں دریا بھی بہہ رہا تھا۔ چیری کے ہزاروں درخت تھے وہاں چلتے چلتے میوزیم دیکھتی ہوئی پبلک لائبریری تک آپہنچی۔ وہ دیکھو منور ظریف کے کام۔ میں اس سے جاپانی سیکھوں یہ ہے میری استانی گڑیا جاپانی۔ جاپانی محل کے دروازے کھڑکیاں اتنے تھے کہ گنے ہی نہ جاتے تھے۔

اوساکا کی اسکائی بلڈنگ کو دیکھتے وقت گردن میں درد ہونے لگا سو اوپر آکے دیکھنا پڑا۔ اب مچی مجھے ناگائی پارک لے گیا۔ یہ تو کنول کے پھولوں کا پارک تھا۔ دو نین کنول آگے بڑھی ہوں کے منور ظریف نظر آگیا۔ میرے دل پہ جادو کرگئی آنکھ تیری مستانی گڑیا جاپانی۔ نیشنل میوزیم آف آرٹ کے بعد مچی نے مجھے آفر کی کہ آپ کو ہیروشیما دکھانے لے چلتا ہوں۔ نہیں نہیں۔ میں چیخنے لگی جیسے میرے سر پر لٹل بوائے آگرا ہو۔ مغز کو چکر آنے لگے۔

ایٹم بم گرنے کے بعد والی تصویریں ذہن میں آنے لگیں۔ چیختے پکارتے بچے عورتیں۔ کانوں میں دھماکے ہونے لگے خونی آگ رقص کررہی تھی۔ نہیں بھائی مچی یہ منظر تو ہمارے چینلوں پر چلتے رہتے ہیں بس۔ وہ آدمی جو گانا گاتا پھر رہا ہے اسے ہاتھ سے پکڑ کے مجھے لاکے دو تو اسے واپسی لیتی ہوئی جاوں۔ سامنے منور ظریف گاتا آرہا تھا۔ پیں پاں پوں چاں پیں پیں پاں پوں پاں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).